طبی لحاظ سے اہم پہلی پاکستانی پھل مکھی کا مکمل جینوم ڈرافٹ تیار

سہیل یوسف  پير 14 اکتوبر 2024
فوٹو: بشکریہ ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس، بایوٹیکنالوجی کالج

فوٹو: بشکریہ ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس، بایوٹیکنالوجی کالج

کراچی: پاکستانی ماہرینِ حیاتیات کی دو مختلف ٹیموں نے طبی تحقیقی لحاظ سے اہم ‘پھل مکھی’ کا مکمل جینوم ڈرافٹ تیار کرلیا ہے۔ یہ پاکستان میں کسی کیڑے کا پہلا ڈرافٹ بھی ہے تاہم یہ پھل مکھی کی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ قسم ہے۔ یہ مکھی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ انسانی ناخن پر متعدد مکھیاں سماسکتی ہیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس (ڈی یو ایچ ایس) کے بایو ٹیکنالوجی ٹیکنالوجی کالج میں واقع ْفلائی ریسرچ لیب’ کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق حسین کی نگرانی میں پہلی ٹیم نے  نئی تبدیل شدہ (جینیٹک میوٹنٹ) قسم پیدا کی ہے جبکہ دوسری ٹیم نے  اس کے ڈی این اے کی تمام تفصیلات بھی معلوم کی ہیں کیونکہ ڈی این اے کو زندگی کی کتاب بھی کہا جاتا ہے۔

پھل مکھی کا سائنسی نام ‘ ڈروسوفیلا میلانوگیسٹر’ جبکہ ہمارے اور مکھی کے جین میں 60 فیصد مماثلت ہے۔ پھر انسانی بیماریوں سے وابستہ 75 فیصد جین بھی اسی ٓننھی مخلوق میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے انسانی ناخن پر نصف درجن کی تعداد میں سماجانے والی اس نحیف مکھی کو  ‘جینیات کی سنڈریلا’ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک صدی کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ انسانی کیفیات کا بہترین ماڈل ہے۔ جو مہنگے چوہوں اور ممالیوں جیسا ہی مؤثر ہے جس پر امراض کے تجربات سے لے کر نئی ادویہ کی جانچ کا سفر جاری وساری ہے کیونکہ اب تک 500 انسانی امراض کو اس پر ماڈل کیا جاچکا ہے۔

انسانی کروموسوم کی تحقیق، نسل در نسل منتقل ہونے والے خواص، جینیات، فعلیاتی عوامل، امنیاتی نظام، آبادیاتی جینیات اور ارتقائی عمل کو سمجھنے میں بھی یہ ایک بہترین ماڈل ہے اور اسی بنا پر پھل مکھی کو ‘پروں والا انسان’ بھی کہا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں ہزاروں سائنسداں اس پر تحقیق کررہے ہیں جنہیں ‘ ڈروسوفیلسٹ’ کہا جاتا ہے اور اب تک ایک درجن سے زائد سائنسدانوں نے اسی مکھی پر تحقیق کرتے ہوئے چھ نوبیل انعام حاصل کئے ہیں جن میں تین گزشتہ اور تین اس صدی میں جیتے گئے ہیں۔

پاکستانی ڈروسوفیلا : ANU-1

ستمبر 2021 میں ڈاکٹرپروفیسر مشتاق حسین کی نگرانی میں اس وقت کی پوسٹ گریجویٹ طالبہ، انوشہ امان اللہ نے ڈروسوفیلا پر تحقیق کے دوران نوٹ کیا کہ ان کی پرورش کردہ مکھی معمول (وائلڈ) مکھی قدرے مختلف ہے۔

خردبینی تصویر میں بائیں جانب، تبدیل شدہ میوٹنٹ سفید آنکھوں والی مکھی نمایاں ہے جس کے ساتھ سرخ آنکھوں والی نارمل مکھی بھی دیکھی جاسکتی ہے

خردبینی تصویر میں بائیں جانب، تبدیل شدہ میوٹنٹ سفید آنکھوں والی مکھی نمایاں ہے جس کے ساتھ سرخ آنکھوں والی نارمل مکھی بھی دیکھی جاسکتی ہے

پہلے وہ سمجھیں کہ چھوٹی سی بوتل میں رینگنے والی مکھی کا سر غائب ہے۔ لیکن بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ مکھی کے سب سے اہم خدوخال یعنی بڑی سرخ آنکھیں غائب ہیں اور ان کی جگہ سفید آنکھیں موجود ہیں جن کی وجہ جینیاتی تبدیلی تھی۔ واضح رہے کہ سفید آنکھوں والی مکھیاں پہلے بھی دنیا بھر میں بنائی جاچکی ہیں تاہم یہ پہلی پاکستانی مکھی ہے۔

اب انوشہ نے احتیاط سے مکھی کو الگ کیا  اور اس کی نسلیں بڑھائیں۔ تین نسلوں کے بعد ایک پوری نسل ایسی پیدا ہوئی جن میں سرخ کی بجائے سفید آنکھیں نمایاں تھیں۔

یوں پاکستان میں ڈروسوفیلا کی تبدیل شدہ پہلی قسم سامنے آئی اور ڈاکٹر مشتاق حسین نے اسے انوشہ کے نام کے پہلے تین حروف کی مناسبت سے اے این یو ون کا نام دیا۔ اس اہم کام پر انوشہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں واقع نیوفیلڈ ڈپارٹمنٹ آف کلینکل میڈیسن میں پی ایچ ڈی کی مکمل اسکالرشپ عطا کی گئی ہے۔

ایکسپریس سےگفتگو کرتے ہوئے انوشہ نے بتایا کہ پاکستان میں ڈرسوفیلا کی مقامی قسم سے روایتی اور جدید جین ایڈیٹنگ ٹولز کی بدولت انسانی امراض کی ماڈلنگ کے نئے در کھلیں گے۔

ڈروسوفیلا ڈرافٹ

انوشہ کی اس دریافت کے بعد ڈاکٹر مشتاق حسین کی نگرانی میں اسی ادارے کے ماہرین نے تبدیل شدہ (میوٹنٹ) پاکستانی مکھی کے مکمل جنییاتی نقشے کا بیڑہ اٹھایا۔

سال 2023 میں اس وقت پوسٹ گریجویٹ اور بی ایس فائنل ایئر کی طالبات عفت وقار اور سُکینہ ارشد نے اے این یو ون کا مکمل جینیاتی ڈرافٹ تیار کیا اور اس کام کے نگراں بھی ڈاکٹر مشتاق حسین تھے۔

ماہرین نے جدید ترین ‘نیکسٹ جنریشن سیکوئنسنگ کے ہائی سیکوئنسنگ پلیٹ فارم’ سے پھل مکھی کے جینیاتی راز معلوم کئے۔ مسلسل چھ ماہ کی محنت سے اے این یو ون کا مکمل جینوم ڈرافٹ تیار کیا گیا ۔ اسے ریویو کے لیے امریکہ میں نیشنل سینٹر فار بایوٹیکنالوجی (این بی سی آئی) میں جمع کرایا گیا تھا جو اب چھان پھٹک کے بعد  PRJNA1017144 کےعنوان سےشائع ہوچکا ہے۔

پھل مکھی کا معاشی پھل

برسوں کی اس کاوش کے بعد پاکستان نے مقامی قسم کی پھل مکھی کی مکمل جینوم پڑھا ہے جو ملک میں کسی بھی کیڑے کا پہلا جینیاتی ڈرافٹ بھی ہے۔ عفت اور سُکینہ نے پاکستانی میوٹنٹ میں کئی جینیاتی تبدیلیاں دیکھیں جو اس سے پہلے دنیا بھر میں ڈروسوفیلا کے کسی ماڈل میں پہلے رپورٹ نہیں ہوئی تھیں۔

واضح رہے کہ سفید آنکھوں والی پھل مکھی عموماً عالمی تجربہ گاہوں کی تجزیاتی میز پردماغی اور اعصابی تحقیق یا ان میں کمی (نیوروڈی جنریشن) کے کم خرچ ماڈل کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ مہنگے ممالیوں اور چوہوں کے مقابلے میں انتہائی ارزاں ہوتی ہیں اور ڈھیروں کی تعداد میں تیار کی جاسکتی ہیں۔

اپنی اسی افادیت کی بنا پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مکھیوں کو بہت طلب ہے اور کئی ادارے ان کی نسل بڑھا کر دنیا بھر میں ڈروسوفیلا فروخت کرتےہیں۔ مثلاً امریکا میں بلومنگٹن فلائی اسٹاک سینٹر نارمل اور جینیاتی تبدیل شدہ مکھیوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے جو ہر ہفتے 4000 پھل مکھیاں 100 ڈالر فی جوڑے کے حساب سے فروخت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی اے این یو ون کو بھی تجارتی پیمانے پر فروخت کیا جاسکتا ہے۔

یوں ڈروسوفیلا کی نسل خیزی اور مختلف جینیاتی لائنوں کی تیاری سے ہم ملک میں کم خرچ طبی تحقیق کے ماڈل بناسکتے ہیں، بلکہ بڑے جانوروں سے وابستہ اخلاقی قوانین سے بچتے ہوئے کام کرسکتے ہیں۔

” ملک میں پیدا کردہ پہلی تبدیل شدہ ڈروسوفیلا میلانوگیسٹر سے انسانی بیماریوں پرروایتی اور جدید جینیاتی ادارتی  تحقیق اور معالجے کی نئی راہیں کھلیں گی،” ڈاکٹر مشتاق نے ایکسپریس کو بتایا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی اہمیت کے پیشِ نظر پوری دنیا میں ڈروسوفیلا تحقیق سے وابستہ 2000 تجربہ گاہیں موجود ہیں۔ تاہم، پاکستان میں پھل مکھیوں پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں ایک نجی جامعہ، لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسس میں ڈاکٹر طارق کی نگرانی میں یہ تجربہ گاہ کام کررہی ہے۔

لگ بھگ دس برس قبل ڈاؤ کال آف بایوٹیکنالوجی، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس میں پروفیسر مشتاق حسین کی نگرانی میں پھل مکھی تجربہ گاہ قائم کی گئی جس کے ثمرات اب سامنے آرہے ہیں۔ اب یہ ایک بڑے ادارے کی صورت اختیار کرچکی ہے جس کا موازنہ دنیا کی کسی بھی بڑی تجربہ گاہ سے کیا جاسکتا ہے۔

اے این یو ون کے علاوہ بھی یہاں پھل مکھیوں کی کئی تبدیل شدہ انواع پیدا کی گئی ہیں جن میں آنکھوں سے مکمل محروم مکھی، ایک مکھی والی آنکھ (سائیکلوپیا ماڈل) اور خمیدہ پروں والی مکھی شامل ہےجو ڈاکٹر عائشہ اسلم کی تحقیقی کاوش کا ثمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔