چکن گنیا کے مریضوں میں اضافہ یومیہ 500 سے 750مریض رپورٹ ہونے لگے
چکن گنیا کا مرض ایڈیز ایجپٹئی اور البوفیکٹس نامی مچھروں کے کاٹنے سے پھیل رہا ہے
چکن گنیا کا مرض شدت اختیار کررہا ہے سرکاری اسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں یومیہ 500 سے 750مریض رپورٹ ہورہے ہیں، یہ وہ مریض ہیں جن کو چکن گنیا کی علامات ہیں، شہر میں اس وبا میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ستمبر سے جاری ہے، اس سے قبل ان سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کی علامات میں مبتلا یومیہ 300 کے لگ بھگ مریض رپورٹ ہورہے تھے۔
سول اسپتال کے علاوہ شہر کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کی تشخیص کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں ہے نجی اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں یہ ٹیسٹ 7 سے 8 ہزار روپے میں ہوتا ہے، معاشی مشکلات کے باعث متاثرہ افراد میں یہ ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں کا ڈیٹا مریض کی تشخیص کرانے سے حاصل ہوتا ہے یہی وجہ ہے اس مرض میں مبتلا مریضوں کے درست اعدادوشمار مرتب نہیں کئے جاسکے، محکمہ صحت اس مرض کے بڑھنے کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کے ٹیسٹ کی سہولت دینے میں ناکام ہے، محکمہ صحت کے جانب سے یہ تاثردیا جارہا ہے کہ یہ چکن گنیا سنگین نہیں ہے اس صورتحال کے باعث سرکاری ونجی اسپتالوں میں چکن گنیا کے مریضوں کا دباؤ بڑھ گیا ہے لوگ ازخود اس مرض کے علاج کے لیے بخار اور جوڑوں کے درد کی ادویات استعمال کررہے ہیں، چکن گنیا کا مرض ایڈیز ایجپٹئی اور البوفیکٹس نامی مچھروں کے کاٹنے سے پھیل رہا ہے۔
ایکسپریس ٹریبوں نے شہر میں چکن گنیا کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔
کراچی میں چکن گنیا کا مرض بڑھنے کے بعد سرکاری اور نجی اسپتالوں کی ایمرجنسی اور او پی ڈی میں مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، اس حوالے سے ناظم آباد کے نجی اسپتال کے جنرل فزیشن ڈاکٹر شعیب خان نے بتایا کہ اس وقت کراچی کی عوام چکن گنیا اور ڈینگی وائرس میں مبتلا ہے، ڈسٹرکٹ سینٹرل میں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے، عام دنوں کی نسبت سرکاری اور نجی اسپتالوں میں اس مرض یا بخار میں مبتلا مریضوں کی مجموعی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تاہم چکن گنیا کی تشخیص کا ٹیسٹ مہنگا ہونے کی وجہ سے ٹیسٹ کروانے سے گزیز کر رہے ہیں جس کی وجہ سے چکن گنیا ڈیٹا مرتب نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ عوام کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف بھی چکن گنیا کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں، محکمہ صحت اس وبا کے بڑھنے کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کررہا جبکہ بیشتر سرکاری اسپتالوں میں اس ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں ہے، شہر میں صفائی کی ناقص صورتحال اور اسپرے مہم نہ ہونا اس وبا کے بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔
سرکاری اسپتالوں سے ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر اور شعبہ حادثات کی انچارج ڈاکٹر نوشین نے بتایا کہ اسپتال کے شعبہ حادثات میں روزانہ کی بنیاد پر 120 سے 150 مریض جوڑوں میں درد اور بخار کی شکایت میں رپورٹ ہورہے ہیں، کلینکل علامات دیکھ کر ہم اسے چکن گنیا کہتے ہیں کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کے مرض کی تشخیص کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران جناح اسپتال میں 4 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہوچکے ہیں۔
سول اسپتال کے انچارج شعبہ حادثات ڈاکٹر عمران سرور شیخ نے بتایا کہ ان دنوں میں تقریباً 80 سے زائد مریض یومیہ اوپی ڈی اور شعبہ حادثات میں رپورٹ ہورہے ہیں۔
عباسی شہید اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں یومیہ 150 سے زائد مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں یومیہ 60 سے زائد مریض رپورٹ ہورہے ہیں اور یکم اکتوبر سے 12 اکتوبر تک 400 سے زائد مریض چکن گنیا کی علامت میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں 100 سے زائد مریض تیز بخار اور جوڑوں کے درد میں یومیہ رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ یومیہ 80 سے 100 مریض چکن گنیا کی علامات میں رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال کے حکام نے بتایا کہ اسپتال میں روزانہ 110 سے 130 مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال کے حکام کے مطابق چکن گنیا کی علامات کے ساتھ یومیہ 60 سے 70 مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ گورنگی اسپتال کے حکام کے مطابق میں تیزبخار اور چکن گنیا کے 50 سے زائد مریض یومیہ رپورٹ ہورہے ہیں۔
اس حوالے سے سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر جمیل مٖغل نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں تیز بخار کی علامت میں جو مریض رپورٹ ہورہے ہیں، انہیں جوڑوں میں شدید تکلیف کی شکایت ہے، اس لیے ان مریض کی علامات کو مددنظر رکھتے ہوئے ان کا علاج کیا جارہا ہے، ان مریضوں میں علامات چکن گنیا کے مرض کی ہوتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ آج کل میں بھی چکن گنیا کے مرض کا شکار ہو جبکہ اسپتال کے بعض ملازمین بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔
انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے ڈائریکٹرڈاکٹر عبدالواحد راجپوت نے بتا یا کہ تمام سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کے تشخیصی کی سہولت میسر نہیں تاہم اوجھا اور سول اسپتال میں یہ سہولت میسر ہے، انھوں نے بتایا کہ چکن گنیا کے مرض کی تشخیص صرف پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ پی سی آر کا پرائیویٹ ٹیسٹ 7 سے 8 ہزارروپے میں کیا جارہا ہے جو کہ چند بڑے نجی اسپتالوں میں دستیاب ہے۔ انہوں نے بتایا آجکل نجی کلینکوں اور نجی اسپتالوں میں جوڑوں میں درد اور بخار کے سیکڑوں مریض روز رپورٹ ہورہے ہیں جس کی وجہ سے جنرل فزیشن ایسے مریضوں کے ڈینگی، ملیر یا اور چکن گنیا کے ٹیسٹ کروارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چکن گنیا اور ڈینگی دسمبرتک اپنی شدت کے ساتھ جاری رہتا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے مولیکیولر پیتھالوجی کے سربراہ پروفیسر سعید خان نے بتایا کہ چکن گونیا ایک وائرل انفیکشن ہے جو ایڈیز ایجپٹئی اور البوفیکٹس نامی مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس ایک متاثرہ شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اور یہ چکن گونیا بخار بن جاتا ہے۔
اس کی علامات میں تیز بخار اور جوڑوں کا شدید درد شامل ہےجبکہ اس کے علاوہ جسم پر سرخ دھبے بھی پڑ سکتے ہیں شدید درد کی وجہ سے جوڑ پھول جاتے ہیں خاص طور پر بارش اور مون سون کے بعد یہ وائرس مچھرکے ذریعے پھیلتا ہے
انہوں نے بتایا کہ ہمیں مچھروں سے خود کو بچانا چاہیے، ہمیں حفاظتی لباس پہننا چاہیے اپنے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے چاہیے۔ اگر ہم باہر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ہاتھوں اور پیروں پر دستانے استعمال کرنے چاہیے، میونسپل حکام کو بارش کے بعد تالابوں سے پانی نکالنے کے انتظامات بھی کرنے چاہیے۔
چکن گنیا کے مرض میں مبتلا اور سرکاری ادارے کی ملازمہ سعدیہ خاتون نے بتایا کہ مجھے اور دو بچوں کو چکن گنیا کا مرض ہوا کئی دن تک چلنے پھرنے سے قاصر رہے، انہوں نے کہا کہ مچھروں کی بہتات ہوگئی ہے، اسپرے مہم اور صفائی نہ ہونے کی وجہ سے چکن گنیا کا مرض پھیل رہا ہے یہ حکومت کی نااہلی ہے۔
محکمہ صحت کے ویکٹر بون ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق شاہ نے ایکسپریس ٹریبون کے بتایا کہ چکن گنیا، ڈینگی وائرس کا سبب بنے والے ایڈیز ایچپٹی مادہ مچھر کے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے، رواں سال ڈینگی وائرس کے مقابلے میں چکن گنیا کی مرض میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ مرض ایک سے 10 دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کراچی میں ضلع شرقی، وسطی اور جنوبی میں سب سے زیادہ کیس رپورٹ ہورہے ہیں، انہوں نے دعوی کیا کہ پی سی آر ٹیسٹ کی تصدیق کے بعد 153 مریض چکن گنیا میں رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ کراچی میں 7 اضلاع میں مچھروں کے 900 ہاٹ اسپاٹ ہیں، مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے کرانا ضلعی ہیلتھ افسران کی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمارا عملہ تمام اضلاع میں تعینات ہے۔
سول اسپتال کے علاوہ شہر کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کی تشخیص کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں ہے نجی اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں یہ ٹیسٹ 7 سے 8 ہزار روپے میں ہوتا ہے، معاشی مشکلات کے باعث متاثرہ افراد میں یہ ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں کا ڈیٹا مریض کی تشخیص کرانے سے حاصل ہوتا ہے یہی وجہ ہے اس مرض میں مبتلا مریضوں کے درست اعدادوشمار مرتب نہیں کئے جاسکے، محکمہ صحت اس مرض کے بڑھنے کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کے ٹیسٹ کی سہولت دینے میں ناکام ہے، محکمہ صحت کے جانب سے یہ تاثردیا جارہا ہے کہ یہ چکن گنیا سنگین نہیں ہے اس صورتحال کے باعث سرکاری ونجی اسپتالوں میں چکن گنیا کے مریضوں کا دباؤ بڑھ گیا ہے لوگ ازخود اس مرض کے علاج کے لیے بخار اور جوڑوں کے درد کی ادویات استعمال کررہے ہیں، چکن گنیا کا مرض ایڈیز ایجپٹئی اور البوفیکٹس نامی مچھروں کے کاٹنے سے پھیل رہا ہے۔
ایکسپریس ٹریبوں نے شہر میں چکن گنیا کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔
کراچی میں چکن گنیا کا مرض بڑھنے کے بعد سرکاری اور نجی اسپتالوں کی ایمرجنسی اور او پی ڈی میں مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، اس حوالے سے ناظم آباد کے نجی اسپتال کے جنرل فزیشن ڈاکٹر شعیب خان نے بتایا کہ اس وقت کراچی کی عوام چکن گنیا اور ڈینگی وائرس میں مبتلا ہے، ڈسٹرکٹ سینٹرل میں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے، عام دنوں کی نسبت سرکاری اور نجی اسپتالوں میں اس مرض یا بخار میں مبتلا مریضوں کی مجموعی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تاہم چکن گنیا کی تشخیص کا ٹیسٹ مہنگا ہونے کی وجہ سے ٹیسٹ کروانے سے گزیز کر رہے ہیں جس کی وجہ سے چکن گنیا ڈیٹا مرتب نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ عوام کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف بھی چکن گنیا کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں، محکمہ صحت اس وبا کے بڑھنے کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کررہا جبکہ بیشتر سرکاری اسپتالوں میں اس ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں ہے، شہر میں صفائی کی ناقص صورتحال اور اسپرے مہم نہ ہونا اس وبا کے بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔
سرکاری اسپتالوں سے ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر اور شعبہ حادثات کی انچارج ڈاکٹر نوشین نے بتایا کہ اسپتال کے شعبہ حادثات میں روزانہ کی بنیاد پر 120 سے 150 مریض جوڑوں میں درد اور بخار کی شکایت میں رپورٹ ہورہے ہیں، کلینکل علامات دیکھ کر ہم اسے چکن گنیا کہتے ہیں کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کے مرض کی تشخیص کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران جناح اسپتال میں 4 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہوچکے ہیں۔
سول اسپتال کے انچارج شعبہ حادثات ڈاکٹر عمران سرور شیخ نے بتایا کہ ان دنوں میں تقریباً 80 سے زائد مریض یومیہ اوپی ڈی اور شعبہ حادثات میں رپورٹ ہورہے ہیں۔
عباسی شہید اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں یومیہ 150 سے زائد مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں یومیہ 60 سے زائد مریض رپورٹ ہورہے ہیں اور یکم اکتوبر سے 12 اکتوبر تک 400 سے زائد مریض چکن گنیا کی علامت میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں 100 سے زائد مریض تیز بخار اور جوڑوں کے درد میں یومیہ رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ یومیہ 80 سے 100 مریض چکن گنیا کی علامات میں رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال کے حکام نے بتایا کہ اسپتال میں روزانہ 110 سے 130 مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال کے حکام کے مطابق چکن گنیا کی علامات کے ساتھ یومیہ 60 سے 70 مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ گورنگی اسپتال کے حکام کے مطابق میں تیزبخار اور چکن گنیا کے 50 سے زائد مریض یومیہ رپورٹ ہورہے ہیں۔
اس حوالے سے سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر جمیل مٖغل نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں تیز بخار کی علامت میں جو مریض رپورٹ ہورہے ہیں، انہیں جوڑوں میں شدید تکلیف کی شکایت ہے، اس لیے ان مریض کی علامات کو مددنظر رکھتے ہوئے ان کا علاج کیا جارہا ہے، ان مریضوں میں علامات چکن گنیا کے مرض کی ہوتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ آج کل میں بھی چکن گنیا کے مرض کا شکار ہو جبکہ اسپتال کے بعض ملازمین بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔
انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے ڈائریکٹرڈاکٹر عبدالواحد راجپوت نے بتا یا کہ تمام سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کے تشخیصی کی سہولت میسر نہیں تاہم اوجھا اور سول اسپتال میں یہ سہولت میسر ہے، انھوں نے بتایا کہ چکن گنیا کے مرض کی تشخیص صرف پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ پی سی آر کا پرائیویٹ ٹیسٹ 7 سے 8 ہزارروپے میں کیا جارہا ہے جو کہ چند بڑے نجی اسپتالوں میں دستیاب ہے۔ انہوں نے بتایا آجکل نجی کلینکوں اور نجی اسپتالوں میں جوڑوں میں درد اور بخار کے سیکڑوں مریض روز رپورٹ ہورہے ہیں جس کی وجہ سے جنرل فزیشن ایسے مریضوں کے ڈینگی، ملیر یا اور چکن گنیا کے ٹیسٹ کروارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چکن گنیا اور ڈینگی دسمبرتک اپنی شدت کے ساتھ جاری رہتا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے مولیکیولر پیتھالوجی کے سربراہ پروفیسر سعید خان نے بتایا کہ چکن گونیا ایک وائرل انفیکشن ہے جو ایڈیز ایجپٹئی اور البوفیکٹس نامی مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس ایک متاثرہ شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اور یہ چکن گونیا بخار بن جاتا ہے۔
اس کی علامات میں تیز بخار اور جوڑوں کا شدید درد شامل ہےجبکہ اس کے علاوہ جسم پر سرخ دھبے بھی پڑ سکتے ہیں شدید درد کی وجہ سے جوڑ پھول جاتے ہیں خاص طور پر بارش اور مون سون کے بعد یہ وائرس مچھرکے ذریعے پھیلتا ہے
انہوں نے بتایا کہ ہمیں مچھروں سے خود کو بچانا چاہیے، ہمیں حفاظتی لباس پہننا چاہیے اپنے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے چاہیے۔ اگر ہم باہر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ہاتھوں اور پیروں پر دستانے استعمال کرنے چاہیے، میونسپل حکام کو بارش کے بعد تالابوں سے پانی نکالنے کے انتظامات بھی کرنے چاہیے۔
چکن گنیا کے مرض میں مبتلا اور سرکاری ادارے کی ملازمہ سعدیہ خاتون نے بتایا کہ مجھے اور دو بچوں کو چکن گنیا کا مرض ہوا کئی دن تک چلنے پھرنے سے قاصر رہے، انہوں نے کہا کہ مچھروں کی بہتات ہوگئی ہے، اسپرے مہم اور صفائی نہ ہونے کی وجہ سے چکن گنیا کا مرض پھیل رہا ہے یہ حکومت کی نااہلی ہے۔
محکمہ صحت کے ویکٹر بون ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق شاہ نے ایکسپریس ٹریبون کے بتایا کہ چکن گنیا، ڈینگی وائرس کا سبب بنے والے ایڈیز ایچپٹی مادہ مچھر کے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے، رواں سال ڈینگی وائرس کے مقابلے میں چکن گنیا کی مرض میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ مرض ایک سے 10 دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کراچی میں ضلع شرقی، وسطی اور جنوبی میں سب سے زیادہ کیس رپورٹ ہورہے ہیں، انہوں نے دعوی کیا کہ پی سی آر ٹیسٹ کی تصدیق کے بعد 153 مریض چکن گنیا میں رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ کراچی میں 7 اضلاع میں مچھروں کے 900 ہاٹ اسپاٹ ہیں، مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے کرانا ضلعی ہیلتھ افسران کی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمارا عملہ تمام اضلاع میں تعینات ہے۔