حکومت فوج تعلقات سیاسی اثرات
مسلم لیگ ن کی قیادت گھڑی کی سوئیوں کو اپنی خواہش کی انگلی سے جلدی جلدی گھما کر فوری نتائج حاصل کر نا چاہتے تھے
جاتی عمرہ رائیونڈ کے نواح میں قانون کا نفاذ کرنے والوں کی کارروائی اور پچھلے دو دنوں میں وزیراعظم نواز شریف کی آرمی چیف سے ملاقاتیں اہم واقعات ہیں۔ نواز لیگ اقتدار میں آنے سے پہلے اور حکومت بنانے کے بعد دیگر مسائل کے علاوہ دو بڑے جھنجھٹوں میں پھنسی رہی۔ ایک تعلق اس کی سیاست کے انداز سے اور دوسرے کا پنجاب میں مختلف حلقوں کی سیاسی ضروریات سے ہے۔ اپنے پائوں پر کلہاڑی بلکہ کلہاڑا مارنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نواز لیگ نے طاقت میں آنے کے بعد فوج کے ساتھ اپنے تعلقات اس حد تک بگاڑ لیے کہ روزمرہ کے ریاستی امور سرانجام دینا مشکل لگ رہا تھا۔
ایک خاص چینل سے ایک خاص الفت پالنے کی کوشش نے نواز لیگ کو عدم اعتماد کی دلدل میں مزید دھکیل دیا۔ اس بحران نے مسائل کو پیچیدہ ضرور بنایا لیکن اُن کا آغاز اس سیاسی سوچ کی پیداوار تھا جس کے تحت نواز لیگ ہر ادارے کو جلدی جلدی اپنے تابع لانا چاہتی تھی۔ ستاسٹھ سال کے کلچر کو تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت گھڑی کی سوئیوں کو اپنی خواہش کی انگلی سے جلدی جلدی گھما کر فوری نتائج حاصل کر نا چاہتے تھے۔ مگر ترکی کا ماڈل پاکستان میں لاگو نہ ہو سکا۔ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ بھی اس کوشش سے پیدا ہونے والے ایک تنائو کا حصہ ہے۔
مسئلہ ایک سابق آرمی چیف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا نہیں ہے بلکہ اس پیغام کا ہے جو نواز لیگ مبینہ طور پر ساری فوج کو دینا چاہتی تھی۔ اُس کے ساتھ ساتھ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو جس برے انداز سے ادھر اُدھر، آگے پیچھے بے نتیجہ انداز میں گھمایا گیا۔ اس نے وفاقی حکومت کی قابلیت اور سنجیدگی کے بارے میں مزید شکوک پید ا کر دیے۔ مودی اور کرزئی کے ساتھ میاں صاحب کی بغل گیر ہونے کی خواہش نے کام اور بھی بگاڑ دیا۔
مگر پچھلے دنوں ہونے والی ملاقاتوں نے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ فوج اور حکومت حالیہ بدمزگی کو کافی حد تک پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ نواز لیگ نے آپریشن ضرب عضب پر فوج کو وہ تمام سیاسی، انتظامی، قانونی اور تشہیر کی سہولت مہیا کر دی ہے جسکی راولپنڈی کو ہمیشہ سے خواہش تھی یا جو اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری سمجھی جا رہی تھی۔ فوج آپریشن کی مجاز بھی ہے اور نقل مکانی کرنے والوں کی دیکھ بھال بھی اسی کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ وہ تمام وسائل مہیا کیے گئے ہیں جنکا مطالبہ فوج کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔
فوج کی قیادت کے لیے یہ سیاسی معاونت اشد ضرورت کے زمرے میں آتی ہے۔ اس میدان میں شہید ہونے والے کن مقاصد کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اس پر ایک سیاسی حکومت ہی عوامی انداز میں بات کر سکتی ہے۔ اگر قوم کے ذہن میں فوجی آپریشن کے بارے میں آراء بٹی ہوئی ہو تو لڑنے والے مایوس ہو جاتے ہیں جس کے برے اثرات تمام ادارے کی تنظیم پر پڑتے ہیں۔ اس لائحہ عمل کی وجہ سے فوج اور نواز لیگ حالیہ دنوں میں پید ا ہونے والے فاصلوں کو بڑی حد تک کم کر پائی ہے۔ دونوں اب بھی شیر و شکر نہیں ہوئے۔ مگر ایک دوسرے کو اڑنگی دینے والا ماحول بھی باقی نہیں ہے۔
اس ضمن میں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کا دورہ سعودی عرب رمضان المبارک کے آخری عشرے کی خصوصی برکات سمیٹنے کے علاوہ پاکستان کی مستقبل میں بڑھتی ہوئی دفاعی ضروریات کے لیے وسائل مہیا کرنے کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ افغانستان میں پھیلتی ہوئی شورش اور بگڑتے ہوئے علاقائی حالات نے ملک کے دفاع کو جدید صلاحیت دینے کی مجبوری کو مزید گہرا اور ضروری کر دیا ہے۔
یہ کروڑوں روپوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ اربوں ڈالر کی بات ہے۔ پاکستان کو اپنے آسمانوں اور زمین کو محفوظ بنانے کے لیے دفاعی صلاحیت میں جو تبدیلیاں لانی ہیں وہ صرف اپنے وسائل سے فی الحال پوری نہیں ہو سکتیں۔ سعودی عرب کا دورہ اس وجہ سے اضافی اہمیت کا حامل ہے۔ میاں نواز شریف فوج کے لیے اندرونی اور بیرونی وسائل مہیا کرنے کے لیے بھر پور کو شیش کر رہے ہیں۔ اس کا اثر فوج کے ساتھ تعلقات پر مثبت ہی ہو گا منفی نہیں۔
نواز لیگ کا دوسرا بڑا پروجیکٹ پنجاب میں موجود انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اس کے بعض لیڈروں کی مبینہ قربت تھی۔ جماعت کے مخالفین نے ایک نہیں بیسیوں مرتبہ نواز لیگ پر طالبان پرستی کی تہمت لگائی ہے۔ رانا ثناء اللہ کی موجودگی میں یہ الزام اور بھی سر چڑھ کر بولتا تھا۔ جاتی عمرہ کے نواح میں ہونے والے آپریشن نے پہلی مرتبہ واضح انداز میں نواز لیگ کے اس ارادے کو آشکار کیا ہے جس کی غیر موجودگی میں انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جاتی تھیں۔
یہ خدشات اتنے گہرے تھے کہ کل چند سنیئر عسکری ماہرین افطار پر اس آپریشن کی صحت کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ شاید ڈرامہ بازی ہے۔ جس کے ذریعے نواز لیگ فوج کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ ابھی تک موجودہ رپورٹوں کی روشنی میں پرسوں کی کارروائی مستند معلوم ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رائے ونڈ میں وزیر اعظم نواز شریف کے فارم ہائوس جاتی عمرہ سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع الجنت کالونی پنڈ آرئیاں میں خفیہ اطلاع پر پولیس نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب آپریشن شروع کیا تو ایک مکان میں موجود دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور چار زخمی ہوگئے۔
دہشت گردوں کی طرف سے شدید فائرنگ اور دستی بموں کے حملوں کے بعد پولیس کی اضافی نفری، ایلیٹ فورس اور حسا س اداروں کے اہلکاروں کو بھی طلب کر لیا گیا۔ دس گھنٹے کے آپریشن کے بعد ایک دہشت گرد کو ہلاک کر دیا گیا اور دوسرے کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا جو کہ بعد میں دوران علاج دم توڑ گیا۔ دہشت گردوں کا تعلق القاعدہ سے بتایا گیا جو کہ یوم علی کے جلوس، وزیر اعظم کی رہائش گاہ، سرکاری دفاتر اور پولیس کو نشانہ بنا نا چاہتے تھے۔
یہ سب کچھ پہلے طے شدہ نہیں ہو سکتا (اگر کسی نے کیا ہے تو وہ انتہائی کامیاب فنکار ہے) اگر نواز لیگ نے پنجاب میں اس قسم کی پالیسی کو برقرار رکھا تو وہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف محاذ بندی میں اپنی پالیسی اور پوزیشن دونوں کو بڑی حد تک واضح کر پائے گی۔ اور یہ وضاحت جنرل راحیل شریف کے اس بیان سے بھی مطابقت رکھے گی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کا ہر طرف پیچھا کیا جائے گا۔ اس تمام تفصیل میں کراچی کا ذکر کر نا بھی ضروری ہے۔
وہاں پر وفاقی حکومت اگرچہ سیاسی طور پر متوازن پالیسی بنانے کے چکروں میں اہداف سے ہٹتی جا رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود رینجرز اور فوج کو سہولت فراہم کرنے میں پس و پیش سے کام بھی نہیں لے رہی۔ صوبائی حکومت کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ اُن کا بس چلے تو آپریشن کو دو گھنٹے میں ختم کر دے۔ قصہ مختصر خیبر سے کراچی تک وفاقی حکومت اور پاکستان کی فوجی قیادت ملکی استحکام حاصل کرنے کی کوشش میں اکھٹی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ نواز لیگ ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناطے اس سے سیاسی فائدہ اٹھا نا چاہے گی۔ عمران خان کے چودہ اگست کے احتجاج سے پہلے اگر فوج اور حکومت کے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو شاید احتجاج کی وفاقی حکومت کے لیے وہ اہمیت نہ رہے جو اس وقت محسوس کر رہے ہیں۔
ایک خاص چینل سے ایک خاص الفت پالنے کی کوشش نے نواز لیگ کو عدم اعتماد کی دلدل میں مزید دھکیل دیا۔ اس بحران نے مسائل کو پیچیدہ ضرور بنایا لیکن اُن کا آغاز اس سیاسی سوچ کی پیداوار تھا جس کے تحت نواز لیگ ہر ادارے کو جلدی جلدی اپنے تابع لانا چاہتی تھی۔ ستاسٹھ سال کے کلچر کو تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت گھڑی کی سوئیوں کو اپنی خواہش کی انگلی سے جلدی جلدی گھما کر فوری نتائج حاصل کر نا چاہتے تھے۔ مگر ترکی کا ماڈل پاکستان میں لاگو نہ ہو سکا۔ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ بھی اس کوشش سے پیدا ہونے والے ایک تنائو کا حصہ ہے۔
مسئلہ ایک سابق آرمی چیف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا نہیں ہے بلکہ اس پیغام کا ہے جو نواز لیگ مبینہ طور پر ساری فوج کو دینا چاہتی تھی۔ اُس کے ساتھ ساتھ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو جس برے انداز سے ادھر اُدھر، آگے پیچھے بے نتیجہ انداز میں گھمایا گیا۔ اس نے وفاقی حکومت کی قابلیت اور سنجیدگی کے بارے میں مزید شکوک پید ا کر دیے۔ مودی اور کرزئی کے ساتھ میاں صاحب کی بغل گیر ہونے کی خواہش نے کام اور بھی بگاڑ دیا۔
مگر پچھلے دنوں ہونے والی ملاقاتوں نے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ فوج اور حکومت حالیہ بدمزگی کو کافی حد تک پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ نواز لیگ نے آپریشن ضرب عضب پر فوج کو وہ تمام سیاسی، انتظامی، قانونی اور تشہیر کی سہولت مہیا کر دی ہے جسکی راولپنڈی کو ہمیشہ سے خواہش تھی یا جو اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری سمجھی جا رہی تھی۔ فوج آپریشن کی مجاز بھی ہے اور نقل مکانی کرنے والوں کی دیکھ بھال بھی اسی کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ وہ تمام وسائل مہیا کیے گئے ہیں جنکا مطالبہ فوج کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔
فوج کی قیادت کے لیے یہ سیاسی معاونت اشد ضرورت کے زمرے میں آتی ہے۔ اس میدان میں شہید ہونے والے کن مقاصد کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اس پر ایک سیاسی حکومت ہی عوامی انداز میں بات کر سکتی ہے۔ اگر قوم کے ذہن میں فوجی آپریشن کے بارے میں آراء بٹی ہوئی ہو تو لڑنے والے مایوس ہو جاتے ہیں جس کے برے اثرات تمام ادارے کی تنظیم پر پڑتے ہیں۔ اس لائحہ عمل کی وجہ سے فوج اور نواز لیگ حالیہ دنوں میں پید ا ہونے والے فاصلوں کو بڑی حد تک کم کر پائی ہے۔ دونوں اب بھی شیر و شکر نہیں ہوئے۔ مگر ایک دوسرے کو اڑنگی دینے والا ماحول بھی باقی نہیں ہے۔
اس ضمن میں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کا دورہ سعودی عرب رمضان المبارک کے آخری عشرے کی خصوصی برکات سمیٹنے کے علاوہ پاکستان کی مستقبل میں بڑھتی ہوئی دفاعی ضروریات کے لیے وسائل مہیا کرنے کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ افغانستان میں پھیلتی ہوئی شورش اور بگڑتے ہوئے علاقائی حالات نے ملک کے دفاع کو جدید صلاحیت دینے کی مجبوری کو مزید گہرا اور ضروری کر دیا ہے۔
یہ کروڑوں روپوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ اربوں ڈالر کی بات ہے۔ پاکستان کو اپنے آسمانوں اور زمین کو محفوظ بنانے کے لیے دفاعی صلاحیت میں جو تبدیلیاں لانی ہیں وہ صرف اپنے وسائل سے فی الحال پوری نہیں ہو سکتیں۔ سعودی عرب کا دورہ اس وجہ سے اضافی اہمیت کا حامل ہے۔ میاں نواز شریف فوج کے لیے اندرونی اور بیرونی وسائل مہیا کرنے کے لیے بھر پور کو شیش کر رہے ہیں۔ اس کا اثر فوج کے ساتھ تعلقات پر مثبت ہی ہو گا منفی نہیں۔
نواز لیگ کا دوسرا بڑا پروجیکٹ پنجاب میں موجود انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اس کے بعض لیڈروں کی مبینہ قربت تھی۔ جماعت کے مخالفین نے ایک نہیں بیسیوں مرتبہ نواز لیگ پر طالبان پرستی کی تہمت لگائی ہے۔ رانا ثناء اللہ کی موجودگی میں یہ الزام اور بھی سر چڑھ کر بولتا تھا۔ جاتی عمرہ کے نواح میں ہونے والے آپریشن نے پہلی مرتبہ واضح انداز میں نواز لیگ کے اس ارادے کو آشکار کیا ہے جس کی غیر موجودگی میں انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جاتی تھیں۔
یہ خدشات اتنے گہرے تھے کہ کل چند سنیئر عسکری ماہرین افطار پر اس آپریشن کی صحت کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ شاید ڈرامہ بازی ہے۔ جس کے ذریعے نواز لیگ فوج کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ ابھی تک موجودہ رپورٹوں کی روشنی میں پرسوں کی کارروائی مستند معلوم ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رائے ونڈ میں وزیر اعظم نواز شریف کے فارم ہائوس جاتی عمرہ سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع الجنت کالونی پنڈ آرئیاں میں خفیہ اطلاع پر پولیس نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب آپریشن شروع کیا تو ایک مکان میں موجود دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور چار زخمی ہوگئے۔
دہشت گردوں کی طرف سے شدید فائرنگ اور دستی بموں کے حملوں کے بعد پولیس کی اضافی نفری، ایلیٹ فورس اور حسا س اداروں کے اہلکاروں کو بھی طلب کر لیا گیا۔ دس گھنٹے کے آپریشن کے بعد ایک دہشت گرد کو ہلاک کر دیا گیا اور دوسرے کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا جو کہ بعد میں دوران علاج دم توڑ گیا۔ دہشت گردوں کا تعلق القاعدہ سے بتایا گیا جو کہ یوم علی کے جلوس، وزیر اعظم کی رہائش گاہ، سرکاری دفاتر اور پولیس کو نشانہ بنا نا چاہتے تھے۔
یہ سب کچھ پہلے طے شدہ نہیں ہو سکتا (اگر کسی نے کیا ہے تو وہ انتہائی کامیاب فنکار ہے) اگر نواز لیگ نے پنجاب میں اس قسم کی پالیسی کو برقرار رکھا تو وہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف محاذ بندی میں اپنی پالیسی اور پوزیشن دونوں کو بڑی حد تک واضح کر پائے گی۔ اور یہ وضاحت جنرل راحیل شریف کے اس بیان سے بھی مطابقت رکھے گی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کا ہر طرف پیچھا کیا جائے گا۔ اس تمام تفصیل میں کراچی کا ذکر کر نا بھی ضروری ہے۔
وہاں پر وفاقی حکومت اگرچہ سیاسی طور پر متوازن پالیسی بنانے کے چکروں میں اہداف سے ہٹتی جا رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود رینجرز اور فوج کو سہولت فراہم کرنے میں پس و پیش سے کام بھی نہیں لے رہی۔ صوبائی حکومت کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ اُن کا بس چلے تو آپریشن کو دو گھنٹے میں ختم کر دے۔ قصہ مختصر خیبر سے کراچی تک وفاقی حکومت اور پاکستان کی فوجی قیادت ملکی استحکام حاصل کرنے کی کوشش میں اکھٹی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ نواز لیگ ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناطے اس سے سیاسی فائدہ اٹھا نا چاہے گی۔ عمران خان کے چودہ اگست کے احتجاج سے پہلے اگر فوج اور حکومت کے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو شاید احتجاج کی وفاقی حکومت کے لیے وہ اہمیت نہ رہے جو اس وقت محسوس کر رہے ہیں۔