ہاتھی اور نااہل مہاوت

ہر قوم اپنی زندگی کی کسی نہ کسی منزل پر جنگ لڑتی ہے۔ یہ اس کے مستقبل اور حال کے لیے فیصلہ کن ہوتی ہے۔

raomanzarhayat@gmail.com

ہر قوم اپنی زندگی کی کسی نہ کسی منزل پر جنگ لڑتی ہے۔ یہ اس کے مستقبل اور حال کے لیے فیصلہ کن ہوتی ہے۔ جس دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اس کی اکثریت کا پہلی یا دوسری یا جنگ عظیم سے قبل کوئی وجود نہیں تھا۔ ممالک کی موجودہ ساخت، ان کی سرحدیں، ان میں رہنے والوں میں قومیت کا عنصر سب کچھ ان دو مہیب ترین جنگوں کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ ہر اہل نظر اس کلیہ سے بخوبی واقف ہے کہ اگر اس جنگ میں جرمنی شکست نہ کھاتا تو شائد آج کی دنیا اس طرز کی نہ ہوتی۔ باقی تمام لفاظی، جذباتیت اور کسی حد تک داستان گوئی ہے۔ ان تینوں بے رحم کاموں میں ہمارے خطہ کے رہنے والے لوگوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

عالمِ جنگ میں قوموں کی تقدیر کا انحصار صرف ایک نقطہ پر ہوتا ہے۔ یہ نقطہ اہم نہیں بلکہ یہ جوہری طور پر ہر عنصر پر غالبِ کُل ہے۔ وہ یہ کہ اس اہم موڑ پر ملک کی قیادت کتنے اہل ہاتھوں میں ہے۔ اس قیادت کی قابلیت، ذہانت، بولنے اور معاملات کو سمجھنے کی استطاعت کیسی ہے۔ اہم فیصلے کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ اور یہ فیصلے کس حد تک عملدرامد ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں سے آپ صرف دو شخصیتوں کو منہا کر ڈالیں تو اس کا نتیجہ شائد آج کی دنیا سے بہت مختلف ہوتا۔

یہ دو انسان، برطانیہ کا وزیر اعظم، ونسٹن چرچل اور امریکا کا صدر روز ویلٹ تھا۔ انھوں نے اپنی قوم کو اس مشکل دورانیہ میں انتہائی دیانت دار اور اہل قیادت مہیا کیں۔ دونوں نے ملکر ایک ایسی جنگ کا پانسا پلٹ ڈالا جو شروع میں جرمنی کے حق میں جا رہی تھی۔ لیکن آپ اس کے آگے بھی سوچیے۔ ان دو لوگوں نے ملکر ہماری آج کی دنیا اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی۔ میں تخلیق کا لفظ بھی استعمال کر سکتا ہوں جو شائد زیادہ قرین انصاف ہو مگر میں اس تمام معاملہ کو ترتیب کی حد تک ہی چھوڑتا ہوں۔

روزویلٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا کا صدر تھا۔ وہ پولیو کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار تھا۔ مگر اس کا ذہن، قوت فیصلہ اور قوت ارادی انتہائی مضبوط تھی۔ وائٹ ہائوس میں اس کا بیڈ روم انتہائی، سادہ عام اور قدیم طرز کا تھا۔ اس کا بیڈ لمبا سا تھا اور یہ اس کی اہلیہ نے اپنی فیکٹری سے بنوایا تھا۔ اس کا ذاتی ملازم میک ڈوفی اسکو صبح کے وقت چھ اخبار لا کر دیتا تھا۔ ناشتے سے پہلے روزویلٹ کو اپنے ملک اور دنیا کے حالات کا بخوبی علم ہوتا تھا۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے اس کا اسٹاف اس کے بیڈ روم میں میٹنگ کے لیے آ جاتا تھا۔ تین اشخاص کا یہ ذاتی اسٹاف اسکو دن کے متعلق مکمل بریفننگ دیتا تھا۔

انتہائی اہم کاغذ اور رپورٹس پڑھنے کے لیے صدر کے بیڈ کے ساتھ رکھی ہوئی تپائی پر رکھ دیے جاتے تھے۔ تا کہ صدر جب دفتر پہنچے تو وہ ہر اہم معاملے پر مکمل باخبر ہو۔ آفس آتے ہی صدر کو دو سو سے تین سو خط پیش کیے جاتے تھے۔ یہ اہم ترین خطوط ان دو ڈھائی ہزار خطوط اور سرکاری رپورٹس میں سے چنے جاتے تھے جو وائٹ ہائوس کو بلاناغہ موصول ہوتی تھیں۔ اہم خطوط کے جواب صدر خود لکھواتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اہم ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جس میں فوج اور انٹیلی جینس کے کمانڈر اور ہر شعبہ کے ماہرین ہوا کرتے تھے۔ روزویلٹ کی ایک میٹنگ پانچ منٹ سے لے کر پندرہ منٹ تک کی ہوتی تھی۔

یہ چند منٹ کے فیصلے پوری دنیا پر اثر انداز ہوتے تھے۔ روزویلٹ کو 135 ایسے اہم آدمیوں سے ہر وقت رابطے میں رہنا ہوتا تھا جو اہم فیصلوں کے لیے اس کے منتظر ہوتے تھے۔ اس نے ملاقات کا بھی ایک انوکھا طریقہ نکال لیا تھا۔ یہ طرز عمل آج ہر لیڈر نقل کرتا ہے۔ وہ دوپہر کے کھانے پر اہم لوگوں کو میٹنگ کے لیے بلا لیتا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے دوران وہ ان تمام لوگوں سے ہر بات معلوم کر کے فوری فیصلے کر دیتا تھا۔ اس کے بروقت فیصلوں کی بدولت جنگ کے زمانے میں کسی سرکاری سطح پر کوئی رکاوٹ نہیں رہتی تھی۔ کھانے کے بعد میٹنگز کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا تھا۔

وہ کوشش کرتا تھا کہ وہ سیاستدانوں سے دوپہر کے کھانے کے بعد ملے۔ چنانچہ کابینہ کے وزیر اور کانگریس کے رہنمائوں کے لیے یہ وقت مختص تھا۔ روزویلٹ کے دن کے معمولات اتنے سخت تھے کہ اس کے بچوں کو بھی اپنے والد سے ملنے کے لیے اس کے سیکریٹری سے وقت لینا پڑتا تھا۔ 5:30 سے چھ بجے تک روزویلٹ سہارے کے ساتھ وائٹ ہائوس کے سوئمنگ پول میں تیرتا تھا۔ تیس منٹ کی اس ورزش کے بعد وہ آرام کیے بغیر دوبارہ اپنے دفتر میں کام کرنا شروع کر دیتا تھا۔ وہ رات ساڑھے بارہ بجے تک مسلسل کام کرتا رہتا تھا۔ 12:30 بجے اس کا ملازم میک ڈوفی اوول آفس سے اسکو وائٹ ہائوس کے رہائشی حصے میں لیجاتا تھا۔ اس کا یہ معمول اس کی زندگی تھی۔ وہ مرتے دم تک اس پر قائم رہا۔


ونسٹن چرچل دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔ جب وہ اس عہدے پر منتخب ہوا تو اس کی عمر 65 برس تھی۔ جنگ کے دوران اس نے اپنے کام کرنے کے سرکاری اوقات دوگنے کر دیے۔ وہ آٹھ آٹھ گھنٹے کی دو شفٹوں میں کام کرتا تھا۔ وہ صبح سات بجے جاگتا تھا۔ اس کا اسٹاف صبح سات بجے اس کے بیڈ روم میں موجود ہوتا تھا۔ سرکاری کاغذات، فائلیں اور تمام اہم نوعیت کے خطوط وہ بستر پر لیٹے ہوئے دیکھتا تھا۔ اس کے اسٹاف کے مطابق کاغذات کا ایک مسلسل سمندر ہوتا تھا اور چرچل ہر صبح اس سمندر کو عبور کرتا تھا۔ وہ ہر اہم خط کا جواب خود لکھواتا تھا۔

اس کے بعد وہ روزانہ مخصوص وقت پر جنگ کی منصوبہ بندی کے لیے ایک خاص کمرے میں چلا جاتا تھا۔ اس میں فوجی کمانڈر اور اس کی کابینہ کے لوگ پہلے سے موجود ہوتے تھے۔ وہ اپنے طے شدہ وقت سے پہلے کبھی بھی اس کمرے میں نہیں آتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی ٹیم اس کے اوقات کار کو پہچان کر اس کے ساتھ محنت کرے۔ اگر وہ اپنے وقت سے پہلے اس کمرے میں آتا تھا تو اس کی ٹیم کو پیشگی علم ہوتا تھا کہ جنگ میں کوئی اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اس اہم میٹنگ کے بعد چرچل اپنے دفتر میں بالکل اکیلا بیٹھ جاتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اس نے جو کچھ دیکھا یا سنا، اس کے تجزیے کے لیے مکمل تنہائی ہونا ضروری ہے۔

اس کے مطابق لیڈر کا کام ہے کہ وہ معلومات کو پہلے اپنے دماغ میں جذب کرے اور پھر انتہائی سنجیدگی سے اس پر غور کرے۔ وہ اہم معاملات میں یکدم فیصلے کا قطعاً قائل نہیں تھا۔ یہ تنہائی چند منٹ سے لے کر آدھے گھنٹے سے زیادہ طویل نہیں ہوتی تھی۔ مگر اس میں وہ تمام فیصلے کرتا تھا جو پوری دنیا پر اثر انداز ہوتے تھے۔ جنگ کی اہم میٹنگز کے بعد چرچل ساری دوپہر انتہائی مصروف طریقے سے بسر کرتا تھا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر لندن میں عام لوگوں سے باتیں کرنے لگتا تھا۔ وہ لندن میں شدید جرمن بمباری کے بعد ایک گاڑی میں اکیلا باہر نکل جاتا تھا تا کہ لوگوں کو حوصلہ دے سکے۔

وہ پارلیمنٹ میں تقاریر کرتا تھا۔ فیکٹریوں میں جاتا تھا اور فوج کے لیے نیا اسلحہ بنانے کے لیے ہر وقت منصوبہ بندی کرتا رہتا تھا۔ شام پانچ بجے چرچل اپنے بیڈ روم میں آ کر ایک گھنٹے کے لیے سو جاتا تھا۔ اس کا حکم تھا کہ اس کو ایک گھنٹہ میں جگایا نہ جائے۔ اس نیند کے بعد اس کا دوسری شفٹ کا اسٹاف آتا تھا۔ وہ شام کو تمام اہم کاغذات دیکھتا تھا۔ فائلوں پر اہم فیصلے کرتا تھا۔ اس کی عجیب عادت تھی وہ تمام اخبارات شام کے وقت پڑھتا تھا۔

وہ ہر اخبار دیکھتا تھا۔ تا کہ اسے معلوم ہوسکے کہ اس کے ملک میں کیا ہو رہا ہے اور پوری دنیا کے حالات کیا ہیں۔ وہ رات کو ایک بجے تک مسلسل کام کرتا رہتا تھا۔ اسکو اپنی عمر کے لحاظ سے نیند کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ جب وہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں جاتا تھا، تو وہ صرف ایک حکم دیتا تھا کہ اسکو سوتے ہوئے صرف اس صورت میں جگایا جائے اگر برطانیہ پر کوئی غیر ملکی فوج حملہ کر دے۔ چرچل نے اپنی سولہ گھنٹے کی سرکاری روٹین میں کبھی ایک منٹ کا فرق نہیں آنے دیا۔

آج ہم لوگ حالت جنگ میں ہیں۔ آج کی جیت ہمارے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ مگر جب میں حکمران قیادت کو دیکھتا ہوں تو مجھے کوئی بھی روزویلٹ کی طرح کی قد آور شخصیت نظر نہیں آتی یا چرچل جیسا کوئی دیانتدار اور محنتی شخص نظر نہیں آتا جو اپنی قوم کی فتح کے لیے مسلسل سولہ گھنٹے کام کرتا ہو۔ حالت جنگ میں بھی اقربا پروری، کرپشن، ذاتی انتقام اور بے اصولی کا بازار گرم ہے۔

جنگ کے دوران تو ریاستی قوت ایک مست ہاتھی کی مانند ہوتی ہے جو اپنے دشمن کا نام و نشان مٹانے پر مرکوز رہتی ہے! مگر مجھے ایسے گمان ہوتا ہے کہ ریاست کے طاقتور جنگی ہاتھی کا مہاوت جنگ کے بجائے اپنے منافع بخش کاروبار میں مشغول ہے! شائد وہ بھول رہا ہے کہ دانش مند مہاوت کے بغیر یہ مہیب جانور ہر چیز کو کچلنے کی استطاعت رکھتا ہے! غصہ آنے پر یہ طاقتور جنگی ہاتھی اپنے نااہل مہاوت کو زمین پر گرا کر اسکو بھی کچل سکتا ہے!
Load Next Story