اسرائیلی جارحیت کا خمیازہ دنیا کو بھگتنا پڑے گا
اسرائیل نے7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر حملہ کیا تھا جو کہ اب تک بنا کسی تعطل کے جاری ہے۔
غزہ کے علاقے دیر البلح میں اسرائیلی فضائی حملے سے الاقصیٰ اسپتال کے باہر خیموں میں آگ بھڑک اٹھی، خیموں میں موجود 4 فلسطینی زندہ جل گئے۔عرب میڈیا کے مطابق حملے میں 70 سے زائد فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ تقریباً 20 سے 30 خیمے مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گئے۔
نصیرات کے اسکول میں پناہ لیے بے گھر افراد پر اسرائیلی فوج نے ٹینکوں سے گولہ باری کی، اس حملے میں 22 افراد شہید اور 80 زخمی ہو گئے۔دوسری جانب شمالی غزہ میں 9 روز سے جاری محاصرے کے دوران شہید فلسطینیوں کی تعداد 300 ہو گئی، خوراک، پانی اور دواؤں کی قلت سنگین ہونے لگی،اقوام متحدہ کے نمایندے کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک نئی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کا ایک برس گزشتہ ہفتے مکمل ہو چکا ہے، اسرائیل نے7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر حملہ کیا تھا جو کہ اب تک بنا کسی تعطل کے جاری ہے۔اِس میں گزشتہ برس صرف ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوئی تھی۔ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں قریباً 42 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں،اسرائیلی فوج 82 ہزار ٹن دھماکا خیز مواد غزہ کی پٹی پر گرا چکی ہے اور مجموعی طور پر اب تک 33 ارب ڈالر کے براہِ راست نقصانات کا تخمینہ لگایا جا چکا ہے، جو تباہی اِس ایک سال میں ہوئی ہے۔
غزہ کے لیے اس سے اُبھرنا بہت ہی مشکل ہے، نئے سر سے سب کچھ کھڑا کرنے کے لیے اِسے دہائیاں درکار ہوں گی۔اقوام متحدہ، او آئی سی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سمیت دنیا کی کوئی بھی طاقت یا عالمی ادارہ اسرائیل کی دہشت گردی روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ عالمی عدالت انصاف فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کوبھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
عالمی طاقتیں آخر کب اِس بات کا نوٹس لیں گی کہ اسرائیل دفاع کے نام پر قتل ِ عام کر رہا ہے،اِس کو روکا نہیں گیا اِس لیے وہ لبنان پر حملہ آور ہوا، کل دیگر ممالک نشانے پر ہوں گے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں اس وقت چار کروڑ 20 لاکھ ٹن سے زائد ملبہ ہے جس میں پوری طرح تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ساتھ بری طرح متاثر ہونے والے عمارتیں بھی شامل ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق جنگ سے قبل غزہ کی ایک لاکھ 63 ہزار عمارتوں میں سے دو تہائی یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا شدید متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی کثیر منزلہ عمارتیں تھی۔
فلسطینی حکامِ صحت کے مطابق ملبے کے نیچے لگ بھگ 10 ہزار لاشیں دبی ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ اس میں کئی بم بھی موجود ہیں جو پھٹے نہیں ہے۔اس ملبے سے اٹھنے والی دھول میں تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد کے ایسے اجزا بھی شامل ہیں جو پھیپھڑوں کے کینسر سمیت موذی امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اِس ایک سال کے دوران اسرائیل کی طرف سے ہونے والے حملوں میں قریباً 42 ہزار فلسطینی شہید جب کہ 94 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، شہداء میں 110سائنسدان، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور محققین بھی شامل ہیں۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، کئی افراد عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیلی بمباری سے 610 مساجد مکمل شہید جب کہ 214 جزوی طور پر تباہ ہو گئیں، تین چرچ اور ڈیڑھ لاکھ ہاؤسنگ یونٹ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔80 ہزار مکانات تباہ یا ناقابل ِ رہائش ہیں، دو لاکھ مکانات ایسے ہیں جو جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں، 206 آثار قدیمہ اور ورثے کے مقامات بھی تباہ ہو گئے۔اِس کے ساتھ ساتھ تین ہزار130کلومیٹر بجلی کے نیٹ ورک،700 پانی کے ٹینک،کھیل کے میدان اور جم سمیت 34 دیگر سہولیات بھی تباہ کر دی گئیں۔ غزہ میں اِس قتل و غارت گری اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف گزشتہ ایک سال کے دوران امریکا اور یورپ سمیت دنیا بھر میں بہت بڑے بڑے مظاہرے اور ملین مارچ ہوئے۔
امریکا میں کئی ہفتوں تک تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے جاری رہے، طلباء کو گرفتار کیا گیا اور حالات کافی کشیدہ رہے۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اپنے عبوری فیصلے میں اسرائیل کو نسل کشی اور جنگی جرائم میں ملوث قرار دیا۔اسرائیل کے خلاف اور جنگ بندی کے حق میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں بھی قراردادیں منظور کی گئیں لیکن اسرائیلی بربریت میں کوئی کمی نہیں آئی، عالمی برادری بھی اُس کے بڑھتے قدم روکنے میں اب تک ناکام رہی ہے بلکہ اب تو اِس کے حملوں کا دائرہ لبنان تک پھیل چکا ہے،بیروت کے علاوہ لبنان کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی وہ اندھا دُھند بمباری کر رہا ہے۔لبنان میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے، ایران میں حماس کے رہنماء اسماعیل ہنیہ کو بھی اسرائیل نے شہید کر دیا۔
اسرائیل اپنا ''گریٹر اسرائیل'' کا خواب پورا کرنے میں جتا ہوا ہے،اس کی تکمیل میں جو تباہی وہ مچا رہا ہے اِس سے اُسے کوئی غرض نہیں ہے۔''گریٹر اسرائیل'' کے نقشے کے مطابق فلسطین کا تو وجود ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ اُردن، مصر اور سعودی عرب کے بعض حصے بھی اس میں شامل ہیں۔ اب تو اسرائیل فلسطینی عوام کی نسل کشی کر رہا ہے۔امریکا دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ یورپ اپنی گرفت رکھنے کے لیے روس یوکرین جنگ میں یوکرین کو باردو دے کر جنگ کو طول دے رہا ہے تو دوسری طرف مڈل ایسٹ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور اپنے عالمی ایجنڈے غزہ کو میدان جنگ بنا کر فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔غزہ اور مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ واضح ہے، اسرائیل کی پالیسی بھی واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے باہر دھکیلنا چاہتا ہے۔
اب وہ دو ریاستی حل سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کی مثال اسرائیلی پارلیمنٹ کی قرارداد ہے جس میں دوریاستی فارمولے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کا کل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے لیکن آج فلسطین کی ریاست شام کے گولان ہائیٹس تک اور لبنان کی سرحدوں تک پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ہر جارحیت کی حمایت ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو، امن مذاکرات شروع کرنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل میں دائیں بازو کی بعض جماعتیں بھی اس تنازع کے دو ریاستی حل کی مخالف ہیں۔ دوسری جانب مغربی کنارے میں کنٹرول رکھنے والے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس دو ریاستی حل کے خواہاں ہیں اور عالمی برادری پر بھی اس حوالے سے زور دیتے رہے ہیں۔ حماس اسرائیل کے قیام کو ہی غیر قانونی سمجھتی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، لیکن اس تنازع کی پیچیدگی اور تشدد کے واقعات کے باعث دو ریاستی حل کے راستے میں حائل رکاوٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔ درحقیقت غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ فلسطین میں کون سے فارمولے کے تحت مستقل اور دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکا نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔
صیہونی حکومت کو امریکا کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت اور اس حکومت کی جانب سے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کے باوجود، بائیڈن حکومت اور سینئر امریکی حکام نے محض انتباہات کا اظہار کیا ہے جو تل ابیب کے لیے غیر موثر ہیں۔امریکا نے اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا استعمال نہیں کیا، غزہ میں جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ساتھ ساتھ امریکا کو اس ثالثی گروپ کا تیسرا رکن سمجھا جاتا ہے۔
البتہ بائیڈن حکومت کی طرف سے غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کی خواہش انتخابی اہداف کے مطابق ہے اور امریکا میں رہنے والے مسلمانوں اور عربوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نوجوان، خاص طور پر طلباء اور دوسرے گروہوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے جوبائیڈن جنگ بندی کی باتیں کر رہا ہے۔ کملہ ہیرس کو بطور ڈیموکریٹک امیدوار 2024 کے صدارتی انتخابات میں جیتنے کے لیے ان ووٹوں کی اشد ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں اسرائیل کی اِس پھیلتی جارحیت پر بحث چھڑ چکی ہے،اسرائیل بد مست ہاتھی کی طرح بڑھتا جا رہا ہے۔ایران نے اس پر میزائل داغے ہیں اور اسرائیل اس کا جواب دینے کا بھرپور عزم رکھتا ہے۔اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آ رہی ہے، امریکا سمیت دیگر اتحادی اُس کا کھلم کھلا ساتھ دے رہے ہیں۔اِس وقت پوری دنیا کو مل کر ہر قیمت پر اسرائیل کو روکنے کا بندوبست کرنا چاہیے، دنیا تیسری جنگ عظیم کی متحمل نہیں ہو سکتی، اسرائیلی جارحیت کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہے، پوری دنیا کو اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
نصیرات کے اسکول میں پناہ لیے بے گھر افراد پر اسرائیلی فوج نے ٹینکوں سے گولہ باری کی، اس حملے میں 22 افراد شہید اور 80 زخمی ہو گئے۔دوسری جانب شمالی غزہ میں 9 روز سے جاری محاصرے کے دوران شہید فلسطینیوں کی تعداد 300 ہو گئی، خوراک، پانی اور دواؤں کی قلت سنگین ہونے لگی،اقوام متحدہ کے نمایندے کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک نئی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کا ایک برس گزشتہ ہفتے مکمل ہو چکا ہے، اسرائیل نے7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر حملہ کیا تھا جو کہ اب تک بنا کسی تعطل کے جاری ہے۔اِس میں گزشتہ برس صرف ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوئی تھی۔ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں قریباً 42 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں،اسرائیلی فوج 82 ہزار ٹن دھماکا خیز مواد غزہ کی پٹی پر گرا چکی ہے اور مجموعی طور پر اب تک 33 ارب ڈالر کے براہِ راست نقصانات کا تخمینہ لگایا جا چکا ہے، جو تباہی اِس ایک سال میں ہوئی ہے۔
غزہ کے لیے اس سے اُبھرنا بہت ہی مشکل ہے، نئے سر سے سب کچھ کھڑا کرنے کے لیے اِسے دہائیاں درکار ہوں گی۔اقوام متحدہ، او آئی سی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سمیت دنیا کی کوئی بھی طاقت یا عالمی ادارہ اسرائیل کی دہشت گردی روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ عالمی عدالت انصاف فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کوبھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
عالمی طاقتیں آخر کب اِس بات کا نوٹس لیں گی کہ اسرائیل دفاع کے نام پر قتل ِ عام کر رہا ہے،اِس کو روکا نہیں گیا اِس لیے وہ لبنان پر حملہ آور ہوا، کل دیگر ممالک نشانے پر ہوں گے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں اس وقت چار کروڑ 20 لاکھ ٹن سے زائد ملبہ ہے جس میں پوری طرح تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ساتھ بری طرح متاثر ہونے والے عمارتیں بھی شامل ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق جنگ سے قبل غزہ کی ایک لاکھ 63 ہزار عمارتوں میں سے دو تہائی یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا شدید متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی کثیر منزلہ عمارتیں تھی۔
فلسطینی حکامِ صحت کے مطابق ملبے کے نیچے لگ بھگ 10 ہزار لاشیں دبی ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ اس میں کئی بم بھی موجود ہیں جو پھٹے نہیں ہے۔اس ملبے سے اٹھنے والی دھول میں تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد کے ایسے اجزا بھی شامل ہیں جو پھیپھڑوں کے کینسر سمیت موذی امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اِس ایک سال کے دوران اسرائیل کی طرف سے ہونے والے حملوں میں قریباً 42 ہزار فلسطینی شہید جب کہ 94 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، شہداء میں 110سائنسدان، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور محققین بھی شامل ہیں۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، کئی افراد عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیلی بمباری سے 610 مساجد مکمل شہید جب کہ 214 جزوی طور پر تباہ ہو گئیں، تین چرچ اور ڈیڑھ لاکھ ہاؤسنگ یونٹ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔80 ہزار مکانات تباہ یا ناقابل ِ رہائش ہیں، دو لاکھ مکانات ایسے ہیں جو جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں، 206 آثار قدیمہ اور ورثے کے مقامات بھی تباہ ہو گئے۔اِس کے ساتھ ساتھ تین ہزار130کلومیٹر بجلی کے نیٹ ورک،700 پانی کے ٹینک،کھیل کے میدان اور جم سمیت 34 دیگر سہولیات بھی تباہ کر دی گئیں۔ غزہ میں اِس قتل و غارت گری اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف گزشتہ ایک سال کے دوران امریکا اور یورپ سمیت دنیا بھر میں بہت بڑے بڑے مظاہرے اور ملین مارچ ہوئے۔
امریکا میں کئی ہفتوں تک تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے جاری رہے، طلباء کو گرفتار کیا گیا اور حالات کافی کشیدہ رہے۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اپنے عبوری فیصلے میں اسرائیل کو نسل کشی اور جنگی جرائم میں ملوث قرار دیا۔اسرائیل کے خلاف اور جنگ بندی کے حق میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں بھی قراردادیں منظور کی گئیں لیکن اسرائیلی بربریت میں کوئی کمی نہیں آئی، عالمی برادری بھی اُس کے بڑھتے قدم روکنے میں اب تک ناکام رہی ہے بلکہ اب تو اِس کے حملوں کا دائرہ لبنان تک پھیل چکا ہے،بیروت کے علاوہ لبنان کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی وہ اندھا دُھند بمباری کر رہا ہے۔لبنان میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے، ایران میں حماس کے رہنماء اسماعیل ہنیہ کو بھی اسرائیل نے شہید کر دیا۔
اسرائیل اپنا ''گریٹر اسرائیل'' کا خواب پورا کرنے میں جتا ہوا ہے،اس کی تکمیل میں جو تباہی وہ مچا رہا ہے اِس سے اُسے کوئی غرض نہیں ہے۔''گریٹر اسرائیل'' کے نقشے کے مطابق فلسطین کا تو وجود ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ اُردن، مصر اور سعودی عرب کے بعض حصے بھی اس میں شامل ہیں۔ اب تو اسرائیل فلسطینی عوام کی نسل کشی کر رہا ہے۔امریکا دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ یورپ اپنی گرفت رکھنے کے لیے روس یوکرین جنگ میں یوکرین کو باردو دے کر جنگ کو طول دے رہا ہے تو دوسری طرف مڈل ایسٹ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور اپنے عالمی ایجنڈے غزہ کو میدان جنگ بنا کر فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔غزہ اور مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ واضح ہے، اسرائیل کی پالیسی بھی واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے باہر دھکیلنا چاہتا ہے۔
اب وہ دو ریاستی حل سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کی مثال اسرائیلی پارلیمنٹ کی قرارداد ہے جس میں دوریاستی فارمولے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کا کل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے لیکن آج فلسطین کی ریاست شام کے گولان ہائیٹس تک اور لبنان کی سرحدوں تک پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ہر جارحیت کی حمایت ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو، امن مذاکرات شروع کرنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل میں دائیں بازو کی بعض جماعتیں بھی اس تنازع کے دو ریاستی حل کی مخالف ہیں۔ دوسری جانب مغربی کنارے میں کنٹرول رکھنے والے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس دو ریاستی حل کے خواہاں ہیں اور عالمی برادری پر بھی اس حوالے سے زور دیتے رہے ہیں۔ حماس اسرائیل کے قیام کو ہی غیر قانونی سمجھتی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، لیکن اس تنازع کی پیچیدگی اور تشدد کے واقعات کے باعث دو ریاستی حل کے راستے میں حائل رکاوٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔ درحقیقت غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ فلسطین میں کون سے فارمولے کے تحت مستقل اور دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکا نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔
صیہونی حکومت کو امریکا کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت اور اس حکومت کی جانب سے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کے باوجود، بائیڈن حکومت اور سینئر امریکی حکام نے محض انتباہات کا اظہار کیا ہے جو تل ابیب کے لیے غیر موثر ہیں۔امریکا نے اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا استعمال نہیں کیا، غزہ میں جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ساتھ ساتھ امریکا کو اس ثالثی گروپ کا تیسرا رکن سمجھا جاتا ہے۔
البتہ بائیڈن حکومت کی طرف سے غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کی خواہش انتخابی اہداف کے مطابق ہے اور امریکا میں رہنے والے مسلمانوں اور عربوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نوجوان، خاص طور پر طلباء اور دوسرے گروہوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے جوبائیڈن جنگ بندی کی باتیں کر رہا ہے۔ کملہ ہیرس کو بطور ڈیموکریٹک امیدوار 2024 کے صدارتی انتخابات میں جیتنے کے لیے ان ووٹوں کی اشد ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں اسرائیل کی اِس پھیلتی جارحیت پر بحث چھڑ چکی ہے،اسرائیل بد مست ہاتھی کی طرح بڑھتا جا رہا ہے۔ایران نے اس پر میزائل داغے ہیں اور اسرائیل اس کا جواب دینے کا بھرپور عزم رکھتا ہے۔اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آ رہی ہے، امریکا سمیت دیگر اتحادی اُس کا کھلم کھلا ساتھ دے رہے ہیں۔اِس وقت پوری دنیا کو مل کر ہر قیمت پر اسرائیل کو روکنے کا بندوبست کرنا چاہیے، دنیا تیسری جنگ عظیم کی متحمل نہیں ہو سکتی، اسرائیلی جارحیت کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہے، پوری دنیا کو اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔