احتجاج کا جمہوری حق
بانی پی ٹی آئی کی طرح ماضی میں کبھی کسی سیاسی رہنما نے پولیس افسروں کو دھمکیاں نہیں دی تھیں
خیبر پختون خوا کے مشیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے، اب ہم این او سی کا انتظار نہیں کریں گے اس لیے جمہوریت کی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیا جائے۔ کے پی کے، کے مشیر اطلاعات نے واضح کر دیا کہ اب ہم اجازت کے بغیر جلسے اور احتجاج کریں گے کیونکہ یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔سینئر کالم نگار اور (ن) لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا کوئی احتجاج پرامن نہیں ہوتا یہ پی ٹی آئی کے ٹریک ریکارڈ سے صاف ظاہر ہے۔ جمہوری احتجاج کرنے والوں کے آگے رکاوٹیں نہیں آتیں اگر ان کے احتجاج کا ریکارڈ دوسری جماعتوں کی طرح اچھا ہوتا تو انھیں بھی قانون کے مطابق این او سی جاری ہوتے۔
پی ٹی آئی کے نئے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ ہماری پارٹی نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا ہے ہم نے احتجاج و جلسوں کا احترام کیا ہے ہم نے احتجاج و جلسوں کے لیے این او سی مانگے جو عدالتی حکم پر ملے مگر این او سی ملنے کے باوجود ہمارے جلسوں اور احتجاج روکنے کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ہماری درخواست پر مطلوبہ جگہ جلسہ کرنے نہیں دیا جاتا اور ایسی جگہ جلسہ کرنے دیا جاتا ہے جو شہر سے دور ویران جگہ ہوتی ہے تاکہ لوگ اتنی دور جلسے میں نہ پہنچ سکیں مگر پھر بھی وہاں لوگ آ کر جلسوں کو کامیاب کراتے آ رہے ہیں اب ہم پھر احتجاج کریں گے اور گرفتاریوں، لاٹھی چارج اور شیلنگ سے نہیں ڈریں گے اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے جو ہمارا جمہوری حق ہے۔
سانحہ 9 مئی کو تقریباً ڈیڑھ سال ہونے کو ہے مگر اس 17ماہ کے عرصے میں سانحہ 9 مئی کے کسی ملزم کو سزا نہیں ہوئی اور حکومت کے نامزد اہم ملزمان کمزور حکومتی مقدمات اور ناقص تفتیش کے باعث عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ یہی کچھ پی ٹی آئی حکومت میں ہوا تھا اور (ن) لیگ اور پی پی کے رہنماؤں کو بھی جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا تھا اور تمام رہنما عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو گئے تھے۔
تحریک انصاف کی 2018 کی پنجاب اور وفاق کی حکومتیں بھی اسی طرح قائم ہوئی تھیں جس طرح موجودہ حکومتیں قائم ہیں مگر ایک واضح فرق یہ ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 9 مئی جیسا سانحہ نہیں کیا جاتا۔ ان دونوں پارٹیوں نے بھی 2014 جیسا طویل دھرنا شاید اس لیے نہیں دیا تھا کہ دونوں سابق حکمران ان پارٹیوں کو ایسی پشت پناہی کبھی نہیں ملی تھی جو اقتدار میں آنے کی خواہش مند پی ٹی آئی کو 2014 میں ملی تھی اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے دھرنے والوں نے قانون کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔ بانی پی ٹی آئی کی طرح ماضی میں کبھی کسی سیاسی رہنما نے پولیس افسروں کو دھمکیاں نہیں دی تھیں ، نہ کوئی رہنما تھانوں پر اپنے کارکن چھڑانے کے لیے حملہ آور ہوا تھا اور لاقانونیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
لاہور کے جلسے اور راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج میں منصوبے کے تحت شریک نہ ہونے والے وزیر اعلیٰ کے پی علی امین جو صرف بلند و بانگ دعوؤں کے عادی ہیں، نے رات گئے اعلان کیا ہے کہ اب ہمارے پاس انقلاب کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اب گولی کا جواب گولی سے ملے گا۔ قبائلی عوام جرگے کریں اور ایک ہو جائیں۔
وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا ہے کہ گنڈاپور اب قوم کو آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں ہمیں اپنے لوگوں کی حفاظت کرنا آتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی لشکر کشی کی دھمکی 9 مئی دہرانے کا اعلان ہے اور گنڈا پور اب گالی سے گولی پر اتر آئے ہیں لیکن وہ خود کو نقصان پہنچائیں گے۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے کارکنوں پر شیلنگ، لاٹھی چارج اور مقدمات درج کرکے کارکنوں کو مشتعل کرکے ایک اور 9 مئی کرانا چاہتی ہے مگر ہم اپنا پرامن احتجاج عمران خان کی رہائی تک جاری رکھیں گے۔
اپنے بانی چیئرمین کی ہدایت پر اب شاید عدالتی متوقع سزاؤں کے خوف سے اب پی ٹی آئی نے اپنے گرفتار چیئرمین کی رہائی کے لیے عدالتوں سے مایوس ہو کر ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلانے کے لیے مزید شہروں میں احتجاج کا اعلان کر دیا ہے اور سندھ کے رہنما حلیم عادل شیخ نے یہ اعتراف کیا ہے کہ کراچی کے عوام باہر نکلے تو ہی کپتان رہا ہوگا ہم یہاں جلد تاریخی جلسہ کریں گے۔
پرامن احتجاج اور جلسے دیگر جماعتوں کی طرح واقعی پی ٹی آئی کا بھی حق ہے جس طرح جماعت اسلامی احتجاج کر چکی ہے مگر ان کی طرف سے کسی صوبے پر حملے، انقلاب برپا کرنے کی دھمکیاں نہیں دی گئیں مگر اب بانی چیئرمین نے صرف اپنی پارٹی کے لیے ملک بھر میں احتجاج کی ہدایت کردی ہے اور گنڈا پور جنھوں نے 8 ستمبر کو 15 دنوں میں عمران خان کو رہا کرانے کا دعویٰ کیا تھا اپنے دعوے میں ناکام رہنے کے بعد احتجاج کی آڑ میں انقلاب لانے اور قبائلیوں کو مشتعل کرکے ملک میں لوگوں کے درمیان نفرتیں بڑھانے پر اتر آئے ہیں جس سے ان کا خان تو رہا نہیں ہوگا بلکہ مزید مقدمات درج کرانے کا خود موقع دے رہے ہیں اس لیے بہتر ہوگا کہ رہائی کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔