کراچی میں بدبو دار ہوا پھیلنے کی وجہ سامنے آ گئی
زیر آب اگنے والے آبی پودے فائٹو پلانکٹن کے مرنے/سڑنے کی وجہ سے شہربھر میں دوبارہ انتہائی ناگوار بدبو پھیل گئی
ہواوں کی مختلف سمتوں میں تیزی سے تبدیلی کے سبب ہرسال بڑی تعداد میں زیر آب اگنے والے آبی پودے فائٹو پلانکٹن کے مرنے/سڑنے کی وجہ سے شہربھر میں دوبارہ انتہائی ناگوار بدبو پھیل گئی۔
شہر بھر بالخصوص ساحلی علاقوں میں مون سون بارشوں کے اختتام کے بعد(5 ستمبر)کو محسوس کی جانے والی عجیب وناگوار بدبو ایک مرتبہ پھرمحسوس کی جانے لگی۔
گزشتہ دنوں شہر میں انتہائی گرم وخشک موسم کے دوران جاری گرمی کی لہراور کئی روز تک مسلسل بلوچستان کی ہوائیں چلنے جبکہ پیرکو موسم ابرآلود اور مختلف سمتوں سے چلنے والی ہواوں کے نتیجے میں پیر کی شب شہر کے مختلف علاقوں میں تعفن زدہ بو محسوس کی گئی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کے مطابق محسوس کی جانے والی بدبو آبی پودوں کی وجہ سے آرہی ہے۔ آبی پودے فائٹو پلانکٹن کی وجہ سے یہ بدبو محسوس ہوتی ہے۔ہرسال بڑی تعداد میں یہ پودے زیر آب اگتے ہیں،انکے مرنے یا سڑنے کی وجہ سے بدبو محسوس کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ناگوار اور پیچیدہ صورتحال ہر سال مون سون کے خاتمے کے فوری بعد یا پھرہواوں کی سمت تبدیل ہونے کے دوران پیدا ہوتی ہے۔ جس کے بعد مخصوص بو ہوا کے دوش پر شہر کے مختلف علاقوں میں محسوس کی جاتی ہے،جس میں بعدازاں بتدریج کمی ہوتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ فائٹو پلانکٹن سطح آب پر پھیلے آبی پودوں کی طرح زمین کے پھیپھڑوں کا کام کرتا ہے۔زمین پر موجود آکسیجن کی زیادہ مقدار سمندروں کی گہرائیوں میں پائے جانے والے یہ خردبینی پودے مہیا کرتے ہیں جنھیں عرف عام میں فائٹوپلانکٹن کہا جاتا ہے،جو سمندر کے کھارے پانی کے ذخائر کے علاوہ دریاؤں اور آب گاہوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
یہ حجم کے اعتبار سےاتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انسانی آنکھ سے بھی بسااوقات آسانی سے دکھائی نہیں دیتے۔البتہ ایک ہی مقام پراگران آبی پودوں کی کثیر تعداد موجود ہو تو پھر اس جگہ پر سبزے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے،یہ خردبینی پودے سورج کی روشنی اور پانی کی موجودگی میں اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں اور اس عمل کے دوران آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں۔کرۂ ارض میں پائی جانے والی آکسیجن کی کُل مقدار کا دو تہائی ان سے حاصل ہوتا ہے۔ آکسیجن کی پیداوار کا اہم ترین ذریعہ ہونے کی حیثیت سے یہ خردبینی جان دار عالمی غذائی چین کا بے حد اہم اور کلیدی حصہ ہیں۔
شہر بھر بالخصوص ساحلی علاقوں میں مون سون بارشوں کے اختتام کے بعد(5 ستمبر)کو محسوس کی جانے والی عجیب وناگوار بدبو ایک مرتبہ پھرمحسوس کی جانے لگی۔
گزشتہ دنوں شہر میں انتہائی گرم وخشک موسم کے دوران جاری گرمی کی لہراور کئی روز تک مسلسل بلوچستان کی ہوائیں چلنے جبکہ پیرکو موسم ابرآلود اور مختلف سمتوں سے چلنے والی ہواوں کے نتیجے میں پیر کی شب شہر کے مختلف علاقوں میں تعفن زدہ بو محسوس کی گئی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کے مطابق محسوس کی جانے والی بدبو آبی پودوں کی وجہ سے آرہی ہے۔ آبی پودے فائٹو پلانکٹن کی وجہ سے یہ بدبو محسوس ہوتی ہے۔ہرسال بڑی تعداد میں یہ پودے زیر آب اگتے ہیں،انکے مرنے یا سڑنے کی وجہ سے بدبو محسوس کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ناگوار اور پیچیدہ صورتحال ہر سال مون سون کے خاتمے کے فوری بعد یا پھرہواوں کی سمت تبدیل ہونے کے دوران پیدا ہوتی ہے۔ جس کے بعد مخصوص بو ہوا کے دوش پر شہر کے مختلف علاقوں میں محسوس کی جاتی ہے،جس میں بعدازاں بتدریج کمی ہوتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ فائٹو پلانکٹن سطح آب پر پھیلے آبی پودوں کی طرح زمین کے پھیپھڑوں کا کام کرتا ہے۔زمین پر موجود آکسیجن کی زیادہ مقدار سمندروں کی گہرائیوں میں پائے جانے والے یہ خردبینی پودے مہیا کرتے ہیں جنھیں عرف عام میں فائٹوپلانکٹن کہا جاتا ہے،جو سمندر کے کھارے پانی کے ذخائر کے علاوہ دریاؤں اور آب گاہوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
یہ حجم کے اعتبار سےاتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انسانی آنکھ سے بھی بسااوقات آسانی سے دکھائی نہیں دیتے۔البتہ ایک ہی مقام پراگران آبی پودوں کی کثیر تعداد موجود ہو تو پھر اس جگہ پر سبزے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے،یہ خردبینی پودے سورج کی روشنی اور پانی کی موجودگی میں اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں اور اس عمل کے دوران آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں۔کرۂ ارض میں پائی جانے والی آکسیجن کی کُل مقدار کا دو تہائی ان سے حاصل ہوتا ہے۔ آکسیجن کی پیداوار کا اہم ترین ذریعہ ہونے کی حیثیت سے یہ خردبینی جان دار عالمی غذائی چین کا بے حد اہم اور کلیدی حصہ ہیں۔