لیسکیو میں میٹریل کا بحران شدید، صارفین بھاری بل ادا کرنے پر مجبور

عامر نوید چوہدری  منگل 15 اکتوبر 2024
فوٹو فائل

فوٹو فائل

 لاہور: لیسکو میں میٹریل کی قلت بحران کی شکل اختیار کر گئی جس کے باعث ” خودکار سسٹم “ ای آر پی نا کام ہوگیا۔

تفصیلات کے مطابق میٹریل دستیاب نہ ہونے سے نئے کنکشن مہینوں سے زیر التوا ہیں جبکہ خراب میٹر تبدیل نہ ہونے سے صارفین کو بھاری اوسط بل بھیجے جا رہے ہیں جس پر شہری سراپا احتجاج بھی ہیں۔

میٹریل کی خریداری میں تاخیر سے لیسکو کے آپریشنز بھی شدید متاثر ہیں جبکہ حکام نے میٹریل کی بروقت خریداری نہ ہونے کا ملبہ بورڈ آف ڈائریکٹرز پر ڈال دیا ہے۔

بروقت میٹرز، ٹرانسفارمرز اور دیگر میٹریل نہ خریدے جانے کے باعث لیسکو کے آپریشنز شدید متاثر ہونے لگے، ایک سال قبل تک لیسکو میں نئے کنکشن کیلئے میٹراور دیگر سامان کی دستیابی بروقت تھی اور دس سے 12روز میں میٹرکا ڈیمانڈ نوٹس سے لے کرتنصیب کا عمل مکمل ہوجاتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ایس ڈی اوز، ایکسیئنز اورسپرئنٹنڈنٹ انجینئرزاپنی اپنی اہلیت کے ڈیمانڈ نوٹس تو بروقت جاری کردیتے ہیں لیکن اس کے بعد ای آر پی نامی سسٹم کی بدترین کارکردگی اور بدانتظامی کی کہانی شروع ہوتی ہے۔

جس میں دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل جاتے ہیں، لیسکو کے آپریشن دفاتر کا عملہ ای آرپی سسٹم کو روزانہ چیک کرتا ہے لیکن میٹراور دیگر میٹریل دستیاب نہیں ہوتا ۔عملہ بے بسی کی تصویر بنا ہوتا ہے کہ صارف اپنے نئے کنکشن کیلئے میٹریل کا پوچھتا ہے تو اس کیا جواب دیں؟ اسی طرح جن میٹرز پر ڈی۔ فیکٹو کوڈ لگا ہوتا ہے وہ بھی مہنیوں تبدیل نہیں ہوتے اور صارف کو اوسط بل کی مد ہرمہینے اوسط بل بھیج دیا جاتا ہے ۔جس سے صارف دوطرفہ عذاب میں مبتلا ہو رہا ہے اور وہ استعمال نہ کرنے والی بجلی کا بل بھی ادا کرنے پر مجبور ہے۔ دوسری طرف بجلی کے ہوشربا نرخ اپنی جگہ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں، ڈی ۔فیکٹو میٹرز کے خوفناک اور بھاری بلز ہاتھوں میں پکڑے صارفین لیسکو کے سب ڈویژنل،ڈویژنل اورسرکل دفاتر کا رخ کرتے ہیں، جہاں وہ افسران سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اتنا بل کیوں بھیجا؟ لیسکو کا عملہ انہیں میٹر خراب ہے کا جواب دے کر واپس بھیج دیتا ہے۔ صارف کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا خراب میٹرتبدیل ہوگا اور صارف سے اس کا ڈیمانڈ نوٹس بھی ادا کروایا جاتا ہے لیکن میٹر تبدیل نہیں ہوتا اوراگلے ماہ بھی اس کو بھاری اوسط بل بھیج دیا جاتا ہے،جسے اٹھا کر صارف پھر لیسکو کے آپریشن آفس کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں اسے گزشتہ ماہ والا جواب ہی سننے کو ملتا ہے اور یہ سلسلہ مہینوں چلتا ہے،اسی وجہ سے صارفین لیسکو کے آپریشزسٹاف سے جھگڑے ہوتے ہیں۔

لیسکو میں لانچ کیے جا نے والے خود کار سسٹم ”ای آر پی “ کی کامیابی میٹریل کی بروقت دستیابی سے پر منحصرہے ،اب سسٹم تو کمپیوٹرائزڈ ہوگیا لیکن میٹریل نہ ہونے سے ای آر پی ناکام ہوچکا اورمتعلقہ افسران اور عملہ دہرے عذاب میں مبتلا ہوگیا ہے۔

اس حوالے سے لیسکو ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران بروقت میٹریل کی خریداری نہیں ہوسکی ، اس عرصے میں شعبہ میٹریل مینجمنٹ(ایم ایم ) اورپراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ(پی ایم یو) میں میٹرز،ٹرانسفارمرز اور دیگر میٹریل کی خریداری کے درجنوں ٹینڈرز کو اسکریپ کیا گیا ۔ پروکیورمنٹ کی ناقص حکمت عملی اور خریداری کیلئے ٹینڈرنگ کے عمل کو غیرضروری طور پرسپبوتاژ کرنے سے یہ بحران پید اہوا۔جس سے نئے کنکسن میں تاخیر اور خراب میٹر تبدیل نہ ہونے پر شہری سراپا احتجاج ہیں۔

اس حوالے سے لیسکو کے اعلیٰ آفیسر یہ کہنا ہے کہ بورڈآف ڈائریکٹرز کی تبدیلی اور پروکیورمنٹ پلان کی بروقت منظوری نہ ہونے سے میٹریل کی بروقت خریداری نہیں ہوسکی۔اس کیلئے لیسکو کی مینجمنٹ ذمہ دار نہیں ہے۔  لیسکو کے آپریشن ونگ کے افسران نے ”ایکسپریس“سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میٹرز دستیاب ہی نہیں تو کس طرح صارفین کو مطمئن کریں؟لیسکو افسران کا کہنا ہے کہ ہیڈکوارٹرز میں بیٹھے حکام کو ہمارے مسائل کا اندازہ نہیں۔ایک سال سے میٹرز اور دیگر میٹریل کی قلت ہے۔خراب میٹر تبدیل نہ ہونے پر صارفین کو بھاری اوسط بل بھیجے جاتے ہیں ،جس پر صارفین آپریشن دفاتر کا رخ کرتے ہیں،اس معاملے پر ایس ڈی اوز،ایکسیئنز ودیگر افسران سے صارفین کی تلخ کلامی اور جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔

لیسکوکے سابق بورڈ آف ڈائریکٹر زکے چیئرمین پروکیورمنٹ کمیٹی مجاہد اسلام باللہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مارچ2024تک پروکیورمنٹ کے تمام ٹینڈرز منظور کیے تھے ،خرابی کی وجہ ای آر پی سسٹم ہے جس کی کامیابی کیلئے ہماری تجویزتھی کہ پرانے سسٹم اور ای آرپی کو اکٹھا چلایا جائے ،ساتھ ہی میٹریل کی وافر دستیابی یقینی بنائی جائے تاکہ صارفین کو مشکلات سے بچایا جائے۔ لیسکو کے بورڈ ممبر طاہر بشارت چیمہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میٹرز کی قلت کے معاملے پر چیف ایگزیکٹو لیسکو سے رپورٹ مانگ لی ہے۔اس کے بعد کی کوئی بات کی جاسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔