لاہور کے نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی کا معاملہ، ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی

ویب ڈیسک  منگل 15 اکتوبر 2024
اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے طالبہ کے والدین سے بھی ملاقات کی—فوٹو: فائل

اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے طالبہ کے والدین سے بھی ملاقات کی—فوٹو: فائل

 لاہور: حکومت پنجاب کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرادی۔

لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کی خبر کے معاملے پر حکومت پنجاب کی ہائی پاور کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آ گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ہائی پاور کمیٹی کی مبینہ متاثرہ لڑکی اور والدین سے ان کے گھر پر 3 گھنٹے ملاقات ہوئی اور منگل کو 36 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے۔

طالبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست دے دی ہے۔

وزیراعلی پنجاب کی بنائی گئی ہائی پاور کمیٹی نے منگل کو دن بھر اسی کیس کی انکوائری میں گزارا اور کمیٹی کا اجلاس سول سیکریٹریٹ میں ہوا جس میں تمام عوامل کو تفصیلی طور پر دیکھا گیا۔

کمیٹی نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، مذکورہ کالج کے ڈائریکٹر عارف چوہدری، پرنسپل کالج ڈاکٹر سعدیہ جاوید، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، سیکیورٹی انچارج پنجاب کالج گلبرگ کیمپس 10، ریسکیو آفیسر شاہد اور 28 طالب علموں کے انٹرویوز ریکارڈ کیے۔

وزیراعلی پنجاب کی بنائی گئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی سیکریٹری داخلہ پنجاب کی سربراہی میں متاثرہ طالبہ کے گھر پہنچی اور طالبہ اور والدین کا بیان ریکارڈ کیا۔

سوشل میڈیا میں زیادتی کے واقعے سے منسلک کی جانے والی فرسٹ ائیر کی طالبہ اور اس کے والدین نے اپنے بیان میں کہا کہ بچی 2 اکتوبر کو گھر میں بیڈ سے گری جس کے باعث پہلے جنرل اسپتال، اس کے بعد 3 اکتوبر کو کینٹ میں موجود برین اینڈ اسپائن کلینک کے ڈاکٹر صابر حسین سے علاج کروایا، بعدازاں 4 اکتوبر کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں اتفاق اسپتال سے علاج شروع کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سانس کی تکلیف کے باعث بچی آئی سی یو میں بھی رہی اور 11 اکتوبر کو اسپتال سے ڈسچارج ہوئی۔

مزید بتایا گیا کہ متاثرہ بچی 3 اکتوبر سے 15 اکتوبر تک کالج سے باقاعدہ چھٹی پر رہی اور اس دوران ان کا نام پرواپیگنڈے کے تحت زیادتی کے جھوٹے واقعے سے جوڑا گیا، مذکورہ طالبہ اور اس کے والدین نے واضح کیا کہ ان کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔

طالبہ اور اس کے والدین نے پولیس کو درخواست دی ہے کہ اس کا نام جھوٹے واقعے میں ملوث کرنے والے عناصر کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور سخت سے سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

متاثرہ بچی سے گھر جاکر 3 گھنٹے ملاقات کرنے والوں میں سیکریٹری داخلہ پنجاب کے ساتھ سیکریٹری اسپیشل ایجوکیشن، سیکریٹری ہائر ایجوکیشن، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ بھی شامل تھیں۔

خیال رہے کہ مذکورہ واقعے کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ایف آئی اے نے سائبر کرائم سیل کی 7 رکنی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔