شنگھائی تعاون تنظیم

ڈاکٹر آصف چنڑ  بدھ 16 اکتوبر 2024
عالمی امور میں مغربی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والا علاقائی پیٹ فارم

عالمی امور میں مغربی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والا علاقائی پیٹ فارم

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس 15-16 اکتوبر2024 کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ جس میں کئی رُکن ممالک کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں جبکہ کچھ ممالک نے وزارتی سطح پر شرکت کی ہے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جو یوریشیا میں سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور سلامتی کے مسائل پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس کی قیادت بنیادی طور پر ریاست کے سربراہان کی کونسل (HSC) اور کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ (HGC) کرتی ہے۔

میزبان ملک: پاکستان حالیہ اجلاس کے لیے SCO کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ (CHG) کی چیئرمین شپ رکھتا ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں SCO کے رکن ممالک پاکستان،بھارت، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران شرکت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اجلاس کے چیئر مین ہوں گے۔

جبکہ اس اجلاس کے دیگر شرکاء میں وزیر اعظم لی چیانگ، بیلا روس کے وزیر اعظم رومان گولوف چینکو، قازقستان کے وزیر اعظم اولڑاس بیک تینوف، روس کے وزیر اعظم میخائل مشوستن، تاجکستان کے وزیر اعظم کوہر وزیرزادہ، ازبکستان کے وزیر اعظم عبداللہ اریپوف، کرغیزستان کے وزرا کی کابینہ کے چیئرمین ڑاپاروف اکیل بیک، ایران کے اول نائب صدر محمد رضا عارف اور بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر شامل ہیں۔ اس اجلاس میں منگولیا مبصر کی حیثیت سے جبکہ ترکمانستان خصوصی مہمان کے طور پر شریک ہوا ہے ۔ ترکمانستان کے وزراء کی کابینہ کے نائب چیئرمین راشد مریدوف اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ دنیا میں ایسی علاقائی تنظیموں کی ضرورت اور اہمیت اس لئے غیر معمولی ہے کہ ان تنظیموں نے عالمی امور پر مغربی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے اور ایک طرح سے دنیا میں توازن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

موضوعات اور ایجنڈا

سربراہی اجلاس رکن ممالک کے درمیان کثیرالجہتی تعاون کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرے گا، علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت کے اہم مسائل پر بات چیت ہو گی۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے اقدامات سمیت اقتصادی تعاون پر بات چیت ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ تعاون کے فروغ، سیکورٹی تعاون، موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات پر بات چیت ہوگی۔ قائدین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے اور پائیدار طریقوں کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔ سربراہی اجلاس کا مقصد علاقائی استحکام کو مضبوط بنانا اور جاری تنازعات کو حل کرنا ہوگا۔

دہشت گردی کا مقابلہ اجلاس کا بنیادی ایجنڈا ہو گا۔ سرحد پار دہشت گردی سے نمٹنے اور رکن ممالک کے درمیان سیکورٹی تعاون کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کو الگ تھلگ کرنے اور علاقائی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے (RATS) کو مضبوط کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ اقتصادی تعاون سربراہی اجلاس میں تجارت اور سرمایہ کاری کے اقدامات سمیت اقتصادی تعاون پر زور دیا جائے گا۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ کے پائیدار طریقوں اور آب و ہوا سے لچکدار انفراسٹرکچر کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ یہ ایس سی او کے ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کے وسیع اہداف سے ہم آہنگ ہے۔

سربراہی اجلاس کا سب سے اہم موضوع “کثیر جہتی مکالمے کو مضبوط بنانا ہے۔ بات چیت کا مرکز علاقائی استحکام کو بڑھانے، جاری تنازعات سے نمٹنے اور کثیر قطبی عالمی نظام کو فروغ دینے پر بھی ہوگا۔ اس میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تنظیم کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا اور مستقبل میں تعاون کے لیے حکمت عملی بنانا شامل ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی تشکیل کا اعلان 15 جون 2001 کو شنگھائی چین میں قازقستان، چین،، روس، تاجکستان اور ازبکستان نے ملکر کیا۔ پہلے اسے ”شنگھائی فائیو” کا نام دیا گیا تھا جو 26 اپریل 1996 کو چین، قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان کی ریاستوں کے سربراہوں کی طرف سے سرحدی علاقوں میں فوجی اعتماد کو بہترکرنے کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر پر جون 2002 میں سینٹ پیٹرز برگ(روس) میں تنظیم کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے دوران دستخط کیے گئے اور یہ چارٹر 19 ستمبر 2003 کو نافذ ہوا۔ یہ بنیادی قانونی دستاویز ہے جو تنظیم کے اہداف اور اصولوں کے ساتھ ساتھ اس کے ڈھانچے اور بنیادی سرگرمیاں سے متعلق ہے۔

تنظیم کے بنیادی اہداف میں رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور ہمسائیگی کو مضبوط بنانا، سیاست، تجارت، معیشت، تحقیق، ٹیکنالوجی اور ثقافت کے ساتھ ساتھ تعلیم، توانائی، ٹرانسپورٹ، سیاحت، ماحولیاتی تحفظ اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔اس کے علاوہ خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا اور جمہوری، منصفانہ اور نئے بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام کے قیام کی طرف پیش قدمی کرنا شامل ہیں۔ تنظیم کی داخلی پالیسی باہمی اعتماد، مفاد، مساوات، مشاورت، ثقافتی تنوع کا احترام اور مشترکہ ترقی کی خواہش پر مبنی ہے جس میں کسی تیسرے ملک کو نشانہ نہ بنانا ور اس کی حدود و سالمیت کا احترام ایک اہم جزو ہے۔

اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم نو رکن ممالک پر مشتمل ہے جن میں قازقستان، چین، کرغزستان، پاکستان، روس ہندوستان، تاجکستان، ازبکستان جبکہ تنظیم کے 21 ویں سربراہی اجلاس منعقدہ 18 تا 17 ستمبر 2021 دوشنبے میں ایران کو نویں ممبر کے طور پر شامل کیا گیا ہے

تنظیم میں مبصر ریاستیں بھی شامل ہیں جن میں افغانستان، بیلاروس اور منگولیا شامل ہیں۔

تنظیم میں چھ مکالمہ شراکت دار بھی ہیں جن میں آذربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا، نیپال، ترکی، اور سری لنکا شامل ہیں۔

رواں سال اگست میں جس میں دنیا نے طالبان کو افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالتے دیکھا اسی تناظر میں خطے کی بڑھتی ہوئی غیر یقینی سیکورٹی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کا 21 واں سربراہی اجلاس 16 تا 17 ستمبر 2021 تاجکستان کے شہر دوشنبے میں بلایا گیا تھا۔ اجلاس میں افغانستان کی زمینی صورتحال اور اس کے عالمی اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کو تنظیم کا نوواں مکمل رکن تسلیم کیا گیا۔

اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی فوج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی واپسی سے پیدا ہونے والی علاقائی صورتحاک پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اس بات کو بھی زیر غورلایا گیا کہ تنظیم کے کئی رُکن طالبان کے زیر انتظام افغانستان کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں وہ طالبان کے لئے فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔ بیجنگ نے طالبان کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم کرنے اور افغانستان کو امداد اور ویکسین کی فراہمی پر اتفاق کیا۔ چین کے علاوہ روس نے بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی۔

شنگھائی فائیو گروپ کی تشکیل کے بعد کے سالانہ سربراہی اجلاس 1998 میں قازقستان، 1999 میں کرغزستان جبکہ میں 2000 میں، تاجکستان میں منعقد ہوئے۔ 2001 میں، سالانہ سربراہی اجلاس شنگھائی واپس آیا۔ وہاں پانچ رکن ممالک نے سب سے پہلے شنگھائی فائیو میکنزم میں ازبکستان کو تسلیم کیا (اس طرح اسے شنگھائی سکس میں تبدیل کیا)۔ پھر تمام چھ سربراہان مملکت نے اس کو اعلیٰ سطح کے تعاون میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا۔ جون 2002 میں، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کی ملاقات روس کے سینٹ پیٹرز برگ میں ہوئی۔ وہاں انہوں نے تنظیم کے چارٹر پر دستخط کیے جس میں تنظیم کے مقاصد، اصولوں، ڈھانچے اور آپریشن کے ماڈلز کی وضاحت کی گئی۔

جولائی 2005 میں، قازقستان میں، ہندوستان، ایران، منگولیا اور پاکستان کے نمائندوں کے ساتھ پہلی بار کے شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے میزبان ملک کے صدر نور سلطان نذر بائیف نے مہمانوں کو ان الفاظ میں خوش آمدید کہا۔ ”اس مذاکرات کی میز پر بیٹھی ریاستوں کے رہنما آدھی انسانیت کے نمائندے ہیں”۔ جولائی 2015 میں اوفا، روس میں تنظیم نے بھارت اور پاکستان کو مکمل ممبران کے طور پر داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں نے جون 2016 میں تاشقند، ازبکستان میں ذمہ داریوں کی یادداشت پر دستخط کیے، اس طرح ان کا تنظیم میں مکمل ممبر کی حیثیت سے شمولیت کا باقاعدہ عمل شروع ہوا۔9 جون 2017 کو، آستانہ سربراہی اجلاس میں ہندوستان اور پاکستان نے باضابطہ طور پر تنظیم کے مکمل ممبران کی حیثیت سے شرکت کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم نے 2004 میں اقوام متحدہ کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں (جہاں یہ جنرل اسمبلی میں مبصر ہے)، 2005 میں آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ، 2005 میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان)، 2007 میں اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم، 2007 میں اقتصادی تعاون تنظیم، 2011 میں منشیات اور جرائم پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، 2014 میں ایشیا میں تعامل اور اعتماد سازی کے اقدامات پر کانفرنس (CICA)، 2015 میں اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل، اور2018 میں افریقی یونین میں شمولیت حاصل کی۔ ایشیاء پیسیفک میں اس کی بڑھتی ہوئی مرکزیت کی وجہ سے اسے وسیع پیمانے پر ”مشرق کا اتحاد” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تنظیمی ڈھانچہ

ہیڈ آف اسٹیٹ کونسل (HSC) شنگھائی تعاون تنظیم کا فیصلہ سازی کا اعلیٰ ادارہ ہے۔ یہ سال میں ایک بار ملتا ہے اور تنظیم کے تمام اہم معاملات پر فیصلے اور رہنما اصول وضع کرتا ہے۔ تنظیم کے سربراہان کی گورنمنٹ کونسل (HGC) بھی سال میں ایک بار تنظیم کی کثیر الجہتی تعاون کی حکمت عملی اور ترجیحی شعبوں پر تبادلہ خیال کرنے، موجودہ اہم معاشی اور دیگر تعاون کے مسائل کو حل کرنے اور تنظیم کے سالانہ بجٹ کی منظوری کے لیے ملاقات کرتی ہے۔ اس وقت تنظیم کی سرکاری زبانیں روسی اور چینی ہیں۔

ایچ ایس سی اور ایچ جی سی کے اجلاسوں کے علاوہ پارلیمنٹ کے سربراہوں کی سطح پر ملاقاتوں کا ایک طریقہ کار بھی موجود ہے۔ سلامتی کونسلوں کے سیکرٹری، وزرائے خارجہ، دفاع، ہنگامی امداد، معیشت، نقل و حمل، ثقافت، تعلیم، اور صحت کی دیکھ بھال، قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور اعلیٰ اور ثالثی عدالتوں کے سربراہ اور پراسیکیوٹر جنرل شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کی قومی رابطہ کار کونسل (سی این سی) اس کیلئے کوآرڈینیشن کے طور پر کام کرتی ہے۔

حکومت کے سربراہوں کی کونسل تنظیم کی دوسری اعلیٰ ترین کونسل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے مطابق سربراہان مملکت کی سمٹ سالانہ متبادل مقامات پر منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ مقامات روسی زبان میں رکن ریاست کے نام کے حروف تہجی کے اعتبار سے طے پاتے ہیں۔ اس میں اراکین کثیر الجہتی تعاون کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور یہ کونسل تنظیم کے بجٹ کی بھی منظوری دیتی ہے۔

اس کے علاوہ وزرائے خارجہ کی کونسل بھی باقاعدہ اجلاس کرتی ہے، جہاں وہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ایس سی او کے تعامل پر تبادلہ خیال کرتی ہے۔عام طور پر تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس سربراہان مملکت کے سالانہ سربراہی اجلاس سے ایک ماہ قبل منعقد ہوتا ہے ا ور وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس کسی بھی دو رکن ممالک کی طرف سے بلائے جا سکتے ہیں۔

افغانستان نے 7 جون 2012 کو بیجنگ میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ اجلاس میں مبصر کا درجہ حاصل کیا۔ 2008 میں، بیلاروس نے تنظیم میں شراکت دار کی حیثیت کے لیے درخواست دی تاہم روسی وزیر دفاع سرگئی ایوانوف نے اس پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بیلاروس ایک مکمل طور پر یورپی ملک ہے۔ اس کے باوجود 2009 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اسے ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دیا گیا اسے مبصر کا درجہ 2012 میں ملا۔

ایران نے 2000میں تنظیم میں شامل ہونے کی دلچسپی ظاہر کی اس وقت چین ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے ہچکچا رہا تھا۔ ایران کی تنظیم میں شمولیت کے مضمرات کو ہر لحاظ سے بہت زیادہ سوچا گیا آ خر کار ایک طویل انتظار کے بعد رواں سال 17 ستمبر 2021 کو اسی تنظیم میں شامل کر لیا گیا۔

جون 2010 میں تنظیم نے نئے ممبران کو داخل کرنے کے طریقہ کار کی منظوری دی۔ اس وقت کئی ریاستیں بطور مبصر تنظیم میں شرکت کرتی ہیں، جن میں سے کچھ نے مستقبل میں مکمل ممبر بننے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

دریں اثنا، 2012 میں آرمینیا، آذربائیجان، بنگلہ دیش، مشرقی تیمور، نیپال اور سری لنکا نے تنظیم میں مبصر کی حیثیت کے لیے درخواستیں دین۔ مصراور شام نے بھی مبصر کی حیثیت کے لیے درخواستیں جمع کرائی ہیں، جبکہ اسرائیل، مالدیپ، یوکرین، عراق، اور سعودی عرب نے ڈائیلاگ پارٹنر کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اس کے علاوہ بحرین اور قطر نے بھی باضابطہ طور پر اس میں شامل ہونے کے لیے درخواستیں دی ہیں۔

ترکی نے کہا ہے کہ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں مکمل رکنیت کے بدلے یورپی یونین میں ترکی کے الحاق کی اُمید کو ترک کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا ہے۔21 نومبر 2016 کو اس کو دوبارہ تقویت ملی، جب یورپی پارلیمنٹ نے ترکی کے ساتھ الحاق کے مذاکرات کو معطل کرنے کے لیے متفقہ طور پر ووٹ دیا۔ دو دن بعد، 23 نومبر 2016 کو ترکی کو 2017 کی مدت کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے انرجی کلب کی چیئرمین شپ دی گئی۔

شنگھائی تعاون تنظیم

کی سرگرمیاں

16-17 جون 2004 کو تاشقند، ازبکستان میں منعقد ہونے والے تنظیم سربراہ اجلاس میں علاقائی انسداد دہشت گردی کا ڈھانچہ (RATS) قائم کیا گیا۔ اکتوبر 2007 میں اس نے تاجک دارالحکومت دوشنبے میں اجتماعی سیکورٹی معاہدہ تنظیم (سی ایس ٹی او) کے معاہدے پر دستخط کیے، تاکہ سکیورٹی، جرائم اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے مسائل پر تعاون کو وسیع کیا جا سکے۔

یہ تنظیم سائبر وار فیئر سے نمٹنے کے لیے بھی متحرک ہے، اس کا کہنا ہے کہ ریاستوں کے لیے نقصان دہ معلومات تک رسائی کو ”سیکیورٹی خطرہ” سمجھا جانا چاہیے۔ 2009 میں اس نے ایک ریاست کی طرف سے دوسرے کے ”سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظاموں” کو سائبر وار فیئر سے کمزور یا مفلوج نہ کرنے سے متعلق سفارشات پیش کیں۔ اخبار دی ڈپلومیٹ نے 2017 میں رپورٹ کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم نے 600 دہشت گردی کی سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے اور 500 دہشت گردوں کو RATS کے ذریعے حوالے کیا ہے۔

امریکہ نے شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کی حیثیت کے لیے درخواست دی لیکن 2005 میں اسے مسترد کر دیا گیا۔ جولائی 2005 میں آستانہ سمٹ میں، افغانستان اور عراق کی جنگوں میں ازبکستان اور کرغزستان میں امریکی افواج کی غیر معینہ مدت کی موجودگی کے پیش نظر تنظیم نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لیے ایک واضح ٹائم ٹیبل طے کرے۔ کچھ عرصہ بعد ازبکستان نے امریکہ سے K2 ایئر بیس چھوڑنے کی درخواست کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا بنیادی مقصد خطے میں امن، استحکام، اور ترقی کو فروغ دینا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، بالخصوص فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور انسانیت سوز مظالم نے اس فورم کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ اکتوبر 2023 سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والے بدترین مظالم، نسل کشی اور نسلی صفائی ایک سنگین بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ اسرائیل نے نہ صرف فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ جاری رکھا ہے بلکہ خواتین، بچوں سمیت ہزاروں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا، لاکھوں کو بے گھر اور زخمی کیا ہے۔ اس سفاکی اور ظلم کے باوجود عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے نا کافی ردعمل نے بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کے اداروں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ایس سی او کا یہ پلیٹ فارم نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایک موثر فورم ثابت ہو سکتا ہے۔ ایس سی او کے سربراہان، بالخصوص چین اور روس جیسی بڑی طاقتیں، اس موقع پر اہم کردار ادا کر سکتی ہیں تاکہ اسرائیل کو فلسطین میں جاری نسل کشی اور غیر قانونی قبضے سے روکا جا سکے۔ فلسطین مسلمانوں کا تاریخی وطن ہے اور وہاں اسرائیل کی جارحیت نہ صرف عالمی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے لبنان، یمن، ایران اور دیگر مسلم ممالک کے خلاف حملے بھی ایک سنگین عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں، جس کا آغاز عرب دنیا میں ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔