اے ڈی بی کاپاکستان کے41فیصدشرح ترقی کے دعوے پراظہارحیرانی
بینک نے2013-14 کیلیے3.4فیصدجب کہ آئی ایم ایف نے3.3فیصدشرح ترقی تجویزکی تھی
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نے پاکستان کے4.3 فیصد شرح ترقی حاصل کرنے کے تازہ ترین دعویٰ پرتاحال خاموشی اختیار کررکھی ہے لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی) نے اس بلند شرح ترقی پرحیرانی کااظہارکیاہے۔
منیلامیں قائم اے ڈی بی نے جمعہ کو ایشیائی ترقیاتی جائزہ کے ضمیمہ2014ء میں کہا ہے کہ پاکستان کی اس سال جون کے آخر تک رواں مالی سال میں ترقی کی بلندشرح ریکارڈکی گئی وہ حیران کن طورپر4.1 فیصدتھی جو ایشیائی ترقیاتی جائزہ 2014ء میں پیش گوئی کی گئی 3.4فیصد سے زیادہ ہے۔ اے ڈی بی کی رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمارحکومت کی جانب سے پاکستان کے اقتصادی سروے میں دی گئی معلومات کی بنیاد پرہیں۔ اے ڈی بی کی رائے سرکاری اعدادوشمار کی ساکھ پربڑھتے ہوئے شکوک کواجاگرکرتی ہے۔
اے ڈی بی نے مالی سال 2013-14ء کیلیے 3.4فیصد شرح ترقی کی پیش گوئی کی تھی جو آئی آیم کی 3.3فیصد پیشگوئی کے قریب ترین تھی تاہم حکومت نے آزاد ماہرمعاشیات اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اس وقت حیران کردیاجب اعلان کیاگیاکہ پاکستان کی گزشتہ مالی سال میں شرح ترقی4.1فیصدرہی۔ حکومت نے بعد میں تسلیم کیا کہ اصل شرح ترقی 3.3فیصد رہی اور آئی ایم ایف کو بھیجی گئی پالیسی دستاویز میں یہ شرح 4.1فیصد نہیں دی گئی۔
جب حقائق میں تضاد نظرآیا توحکومت نے دعویٰ کیا کہ دستاویز میںدی گئی3.3فیصدکی شرح غلطی سے شائع ہوئی جولاپرواہی اوربھول چوک ہے۔ اس کے باوجودکہاگیا کہ 2013-14ء میں شرح ترقی 4.3فیصد رہی جواس سے پہلے اعلان کردہ4.1 فیصدسے بھی ظاہرکی گئی۔ ایک پریس ریلیز میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کو ایک وضاحت جاری کردی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ2013-14ء کیلیے شرح ترقی کو 4.3 فیصد ہی سمجھاجائے۔ پانچ روز قبل ایکسپریس ٹریبیون نے پاکستان کیلیے آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جیفری فرینکس کو سوالات بھجوائے جس میں ان سے حکومت کے تازہ ترین دعوؤں پرردعمل جاناگیا۔جیفری فرینکس کی ایک ساتھی نے تصدیق کی کہ انھیں سوالات موصول ہوگئے ہیں ۔
تاہم آئی ایم ایف اس رپورٹ کے جمع ہونے تک مزیدردعمل ظاہرنہیں کر سکتا۔ جیفری فرینکس سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ غلطی سے کیے گئے سرکاری دعوؤں پر تبصرہ کریں اور آیا آئی ایم ایف کاعملہ اقتصادی ومالیاتی پالیسیوں سے متعلق یادداشت میں کسی قسم کی وضاحت کرے گا جس کی آئی ایم ایف بورڈنے منظوری دی تھی جومستقبل کیلیے قرضہ کے اجرا کیلیے بنیاد ہو گی۔ آئی ایم ایف مشن سربراہ سے یہ بھی پوچھا گیاکہ کیااس کے عملے کے پاس بورڈ کااجلاس بلائے بغیروضاحت قبول کرنے کااختیار ہے یاایسی کوئی مثال ہے کہ بورڈ کی منظوری کے بعدمذکورہ یادداشت میں ترمیم کی جائے۔
ان سوالات کاجواب دینے کی بجائے پاکستان میں آئی ایم ایف کے ریذیڈنٹ مشن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے سرکاری اکاؤنٹ پر ٹویٹ جاری کیاکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں مجوعی ملکی پیداوارسے متعلق کس قدرغلط اعدادوشمارپیش کیے جارہے ہیں۔ کوئی بھی 2013-14ء کے شرح ترقی کے صحیح اعدادوشمارنہیں جانتا۔جھوٹ نہیں بولاجاسکتا۔ وزارت خزانہ کے ایک سابقہ عہدیدار ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بتایاکہ ٹویٹ میں آئی ایم ایف کی جانب سے استعمال کی گئی زبان افسوسناک ہے جوظاہرکرتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے آئی ایم ایف کے عملے کوکوئی تمیزنہیں، جب تک ادارہ مناسب جواب نہیں دیتااس وقت تک شرح ترقی سے متعلق تنازع ختم نہیں ہوگا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کی شرح ترقی 3.3فیصد یا4.4فیصد ہے بلکہ حکومت کی ساکھ ہے۔ ادھرآزادماہرمعاشیات کاکہنا ہے کہ ہرسال مارکیٹ میں آنے والے ہزاروں نوجوانوں کوروزگاردینے کیلیے4.3 فیصدشرح ترقی کافی نہیں ہے۔پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ وہ حکومت کیخلاف پارلیمنٹ سے حقائق چھپانے پرتحریک استحقاق پیش کرے گی۔
منیلامیں قائم اے ڈی بی نے جمعہ کو ایشیائی ترقیاتی جائزہ کے ضمیمہ2014ء میں کہا ہے کہ پاکستان کی اس سال جون کے آخر تک رواں مالی سال میں ترقی کی بلندشرح ریکارڈکی گئی وہ حیران کن طورپر4.1 فیصدتھی جو ایشیائی ترقیاتی جائزہ 2014ء میں پیش گوئی کی گئی 3.4فیصد سے زیادہ ہے۔ اے ڈی بی کی رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمارحکومت کی جانب سے پاکستان کے اقتصادی سروے میں دی گئی معلومات کی بنیاد پرہیں۔ اے ڈی بی کی رائے سرکاری اعدادوشمار کی ساکھ پربڑھتے ہوئے شکوک کواجاگرکرتی ہے۔
اے ڈی بی نے مالی سال 2013-14ء کیلیے 3.4فیصد شرح ترقی کی پیش گوئی کی تھی جو آئی آیم کی 3.3فیصد پیشگوئی کے قریب ترین تھی تاہم حکومت نے آزاد ماہرمعاشیات اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اس وقت حیران کردیاجب اعلان کیاگیاکہ پاکستان کی گزشتہ مالی سال میں شرح ترقی4.1فیصدرہی۔ حکومت نے بعد میں تسلیم کیا کہ اصل شرح ترقی 3.3فیصد رہی اور آئی ایم ایف کو بھیجی گئی پالیسی دستاویز میں یہ شرح 4.1فیصد نہیں دی گئی۔
جب حقائق میں تضاد نظرآیا توحکومت نے دعویٰ کیا کہ دستاویز میںدی گئی3.3فیصدکی شرح غلطی سے شائع ہوئی جولاپرواہی اوربھول چوک ہے۔ اس کے باوجودکہاگیا کہ 2013-14ء میں شرح ترقی 4.3فیصد رہی جواس سے پہلے اعلان کردہ4.1 فیصدسے بھی ظاہرکی گئی۔ ایک پریس ریلیز میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کو ایک وضاحت جاری کردی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ2013-14ء کیلیے شرح ترقی کو 4.3 فیصد ہی سمجھاجائے۔ پانچ روز قبل ایکسپریس ٹریبیون نے پاکستان کیلیے آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جیفری فرینکس کو سوالات بھجوائے جس میں ان سے حکومت کے تازہ ترین دعوؤں پرردعمل جاناگیا۔جیفری فرینکس کی ایک ساتھی نے تصدیق کی کہ انھیں سوالات موصول ہوگئے ہیں ۔
تاہم آئی ایم ایف اس رپورٹ کے جمع ہونے تک مزیدردعمل ظاہرنہیں کر سکتا۔ جیفری فرینکس سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ غلطی سے کیے گئے سرکاری دعوؤں پر تبصرہ کریں اور آیا آئی ایم ایف کاعملہ اقتصادی ومالیاتی پالیسیوں سے متعلق یادداشت میں کسی قسم کی وضاحت کرے گا جس کی آئی ایم ایف بورڈنے منظوری دی تھی جومستقبل کیلیے قرضہ کے اجرا کیلیے بنیاد ہو گی۔ آئی ایم ایف مشن سربراہ سے یہ بھی پوچھا گیاکہ کیااس کے عملے کے پاس بورڈ کااجلاس بلائے بغیروضاحت قبول کرنے کااختیار ہے یاایسی کوئی مثال ہے کہ بورڈ کی منظوری کے بعدمذکورہ یادداشت میں ترمیم کی جائے۔
ان سوالات کاجواب دینے کی بجائے پاکستان میں آئی ایم ایف کے ریذیڈنٹ مشن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے سرکاری اکاؤنٹ پر ٹویٹ جاری کیاکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں مجوعی ملکی پیداوارسے متعلق کس قدرغلط اعدادوشمارپیش کیے جارہے ہیں۔ کوئی بھی 2013-14ء کے شرح ترقی کے صحیح اعدادوشمارنہیں جانتا۔جھوٹ نہیں بولاجاسکتا۔ وزارت خزانہ کے ایک سابقہ عہدیدار ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بتایاکہ ٹویٹ میں آئی ایم ایف کی جانب سے استعمال کی گئی زبان افسوسناک ہے جوظاہرکرتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے آئی ایم ایف کے عملے کوکوئی تمیزنہیں، جب تک ادارہ مناسب جواب نہیں دیتااس وقت تک شرح ترقی سے متعلق تنازع ختم نہیں ہوگا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کی شرح ترقی 3.3فیصد یا4.4فیصد ہے بلکہ حکومت کی ساکھ ہے۔ ادھرآزادماہرمعاشیات کاکہنا ہے کہ ہرسال مارکیٹ میں آنے والے ہزاروں نوجوانوں کوروزگاردینے کیلیے4.3 فیصدشرح ترقی کافی نہیں ہے۔پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ وہ حکومت کیخلاف پارلیمنٹ سے حقائق چھپانے پرتحریک استحقاق پیش کرے گی۔