مسیحی برادری کا فیملی قوانین میں ترمیم کا مطالبہ
پاکستان میں رائج ڈیڑھ سوسال پرانے مسیحی شادی اور طلاق کے قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے، پیٹرجیکب
پنجاب میں بسنے والی مسیحی برادری نے خاندانی معاملات کے قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے، صوبے میں مسیحی برادری کی شادیاں 1872 کے مسیحی میرج ایکٹ جبکہ طلاق 1869 کے مسیحی طلاق ایکٹ کے تحت دی جا سکتی ہے۔ مسیحی کمیونٹی کو نکاح پڑھانے والوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہے۔
35 سالہ کومل پرویز لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کی رہائشی ہیں۔ وہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی سن 2011 میں پرویز کھوکھر نامی شخص سے شادی ہوئی تھی ،اب وہ دو بچوں کی ماں ہیں لیکن وہ اپنے شوہر سے علیحدہ زندگی گزار رہی ہیں۔
شادی کے ابتدائی دو ، تین سال بہت اچھے طریقے سے گزرے ، ان کے شوہر گھروں میں رنگ وروغن کا کام کرتے تھے اور ان کا بہت اچھے طریقے سے گزربسر ہورہا تھا لیکن پھر ان کے شوہر نے نشہ شروع کردیا اور آہستہ آہستہ کام بھی چھوڑ دیا'' کومل پرویز نے بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ نشہ کرنے کے لیے ان کے شوہر نے گھر کے برتن اور سامان بیچنا شروع کردیا جس پر ان کا شوہر کے ساتھ جھگڑا ہونا شروع ہو گیا۔ شوہر ان پر تشدد کرتا تھا ۔ ان کی ایک 9 سال کی بیٹی اور سات سال کا بیٹا ہے۔ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتیں لیکن جو پیسے ملتے وہ بھی شوہر چھین لیتا تھا۔
کومل پرویز کہتی ہیں ایسی صورت میں ان کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہوگیا تھا وہ اپنے بچوں کو لیکر اپنے والدین کے پاس آگئیں، یہاں بھی گھروں میں کام کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔ کومل کے بقول ان کے مذہب میں چونکہ شادی کے بعد طلاق نہیں ہوسکتی اس لیے ان کا شوہر انہیں طلاق نہیں دے سکتا اور نہ ہی وہ خلع لے سکتی ہیں۔
کومل پرویز کی طرح کئی ایسی مسیحی خواتین یا مرد ہوں گے جنہیں اپنے شوہر/ بیوی کی طرف سے اس طرح کے سلوک اور رویوں کا سامنا ہے لیکن ان میں طلاق نہیں ہوسکتی۔
1869 کے مسیحی طلاق ایکٹ کی رو سے مسیحی جوڑوں میں طلاق کے لیے بدچلنی، دوسری شادی یا ریپ کو بنیاد بنایا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ شوہر یا بیوی کے مذہب تبدیل کرنے کی صورت میں بھی طلاق ممکن ہے۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا '' پاکستان میں رائج ڈیڑھ سوسال پرانے مسیحی شادی اور طلاق کے قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ میرج ایکٹ میں نکاح کے وقت لڑکے کی کم ازکم عمر 16 سال اور لڑکی کی 13 سال ہے ، اسی طرح ایک شق یہ بھی ہے کہ مغرب کے بعد مسیحی جوڑوں کا نکاح نہیں ہوسکتا، یہ قوانین ہمارے موجودہ ملکی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے کرسیچن میرج ایکٹ 1872 میں ترمیم کرکے شادی کے لیے لڑکے اورلڑکی کی عمر کی حد 18 سال کردی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے مسیحی رہنماؤں کی مشاورت سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
مسیحی برادری کو یہ بھی شکایت ہے کہ مسیحی نوجوانوں کے نکاح پڑھانے والوں کی رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ پنجاب کے 20 اضلاع میں 150 پادری اور بشپ پنجاب حکومت سے لائسنس یافتہ ہیں اور صرف انہی کے سامنے کی گئی شادیاں رجسٹرڈ مانی جائیں گی۔
پریسبیٹیرین چرچ لاہور کے ریورنڈ ڈاکٹر مجید ایبل کا کہنا ہے پرسنل لاز چرچ اور مسیحی مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لیکر اور ان کی مشاورت سے بننے چاہیں۔ طلاق اور دوسری شادی مسیحی ایمان اور دینی تعلیم کا حصہ ہے اس حوالے سے قانون سازی کے لیے چرچ سے مشاورت ضروری ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی وکیل اورانسانی حقوق کی کارکن روبیقہ نیامت کہتی ہیں ایسے پاسٹر اورپادری نکاح پڑھا رہے ہیں جن کے پاس این اوسی ہے اور نہ ہی ان کی کوئی رجسٹریشن ہے، ایسے نکاحوں کو مبینہ طور پر رشوت دیکر یونین کونسل میں رجسٹرڈ کروایا جاتا ہے اور پھر نادرا یونین کونسل کے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر اس نکاح کو رجسٹرڈ کرلیتا ہے۔
مسیحی سماجی رہنما سیموئیل پیارا بھی روبیقہ نیامت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مسیحی لڑکیوں کی مذہب تبدیلی اورجبری شادی کے لیے بھی مسیحی میرج ایکٹ کا استعمال کیا جاتا ہے اور جواز بنایا جاتا ہے کہ 13 سالہ مسیحی لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات مسیحی جوڑے کورٹ میرج کے دوران مسلم میرج ایکٹ کے تحت شادی کرلیتے ہیں جس سے بعد میں انہیں اور ان کے بچوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہرضلع میں ایک مسیحی رجسٹرار کی سیٹ مختص ہے لیکن ان کی تعیناتی نہیں کی گئی۔ اسی طرح مسیحی فیملی قوانین میں وراثت کا معاملہ بہت اہم ہے۔ مسیحی پارلیمنٹیرین چونکہ ان کے ووٹوں سے اسمبلی میں نہیں جاتے اس لیے وہ اپنی کمیونٹی کی بجائے اپنی پارٹیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنوری 1981 میں اس وقت کے صدر ضیا الحق کی حکومت نے 1869 کے مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ 7 ختم کر دی۔ اس تبدیلی کے بعد مسیحی جوڑوں میں طلاق صرف اسی صورت میں ممکن تھی جب شوہر یا بیوی میں سے کوئی فرد بدچلنی کا مرتکب ہوا ہو تاہم جون 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے وہ شق دوبارہ بحال کردی لیکن اسی سال اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی گئی جو لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے پاس زیرِ التوا ہے۔
پنجاب کے وزیربرائے اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑہ کا کہنا ہے جس طرح انہوں نے پنجاب میں سکھ میرج ایکٹ منظور کروایا ہے اسی طرح اب سکھ اور ہندو میرج ایکٹ پر کام شروع کردیا گیا ہے ۔ بہت جلد تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ترمیمی مسودہ تیار کرکے صوبائی کابینہ کو پیش کیا جائے گا۔
35 سالہ کومل پرویز لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کی رہائشی ہیں۔ وہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی سن 2011 میں پرویز کھوکھر نامی شخص سے شادی ہوئی تھی ،اب وہ دو بچوں کی ماں ہیں لیکن وہ اپنے شوہر سے علیحدہ زندگی گزار رہی ہیں۔
شادی کے ابتدائی دو ، تین سال بہت اچھے طریقے سے گزرے ، ان کے شوہر گھروں میں رنگ وروغن کا کام کرتے تھے اور ان کا بہت اچھے طریقے سے گزربسر ہورہا تھا لیکن پھر ان کے شوہر نے نشہ شروع کردیا اور آہستہ آہستہ کام بھی چھوڑ دیا'' کومل پرویز نے بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ نشہ کرنے کے لیے ان کے شوہر نے گھر کے برتن اور سامان بیچنا شروع کردیا جس پر ان کا شوہر کے ساتھ جھگڑا ہونا شروع ہو گیا۔ شوہر ان پر تشدد کرتا تھا ۔ ان کی ایک 9 سال کی بیٹی اور سات سال کا بیٹا ہے۔ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتیں لیکن جو پیسے ملتے وہ بھی شوہر چھین لیتا تھا۔
کومل پرویز کہتی ہیں ایسی صورت میں ان کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہوگیا تھا وہ اپنے بچوں کو لیکر اپنے والدین کے پاس آگئیں، یہاں بھی گھروں میں کام کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔ کومل کے بقول ان کے مذہب میں چونکہ شادی کے بعد طلاق نہیں ہوسکتی اس لیے ان کا شوہر انہیں طلاق نہیں دے سکتا اور نہ ہی وہ خلع لے سکتی ہیں۔
کومل پرویز کی طرح کئی ایسی مسیحی خواتین یا مرد ہوں گے جنہیں اپنے شوہر/ بیوی کی طرف سے اس طرح کے سلوک اور رویوں کا سامنا ہے لیکن ان میں طلاق نہیں ہوسکتی۔
1869 کے مسیحی طلاق ایکٹ کی رو سے مسیحی جوڑوں میں طلاق کے لیے بدچلنی، دوسری شادی یا ریپ کو بنیاد بنایا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ شوہر یا بیوی کے مذہب تبدیل کرنے کی صورت میں بھی طلاق ممکن ہے۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا '' پاکستان میں رائج ڈیڑھ سوسال پرانے مسیحی شادی اور طلاق کے قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ میرج ایکٹ میں نکاح کے وقت لڑکے کی کم ازکم عمر 16 سال اور لڑکی کی 13 سال ہے ، اسی طرح ایک شق یہ بھی ہے کہ مغرب کے بعد مسیحی جوڑوں کا نکاح نہیں ہوسکتا، یہ قوانین ہمارے موجودہ ملکی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے کرسیچن میرج ایکٹ 1872 میں ترمیم کرکے شادی کے لیے لڑکے اورلڑکی کی عمر کی حد 18 سال کردی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے مسیحی رہنماؤں کی مشاورت سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
مسیحی برادری کو یہ بھی شکایت ہے کہ مسیحی نوجوانوں کے نکاح پڑھانے والوں کی رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ پنجاب کے 20 اضلاع میں 150 پادری اور بشپ پنجاب حکومت سے لائسنس یافتہ ہیں اور صرف انہی کے سامنے کی گئی شادیاں رجسٹرڈ مانی جائیں گی۔
پریسبیٹیرین چرچ لاہور کے ریورنڈ ڈاکٹر مجید ایبل کا کہنا ہے پرسنل لاز چرچ اور مسیحی مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لیکر اور ان کی مشاورت سے بننے چاہیں۔ طلاق اور دوسری شادی مسیحی ایمان اور دینی تعلیم کا حصہ ہے اس حوالے سے قانون سازی کے لیے چرچ سے مشاورت ضروری ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی وکیل اورانسانی حقوق کی کارکن روبیقہ نیامت کہتی ہیں ایسے پاسٹر اورپادری نکاح پڑھا رہے ہیں جن کے پاس این اوسی ہے اور نہ ہی ان کی کوئی رجسٹریشن ہے، ایسے نکاحوں کو مبینہ طور پر رشوت دیکر یونین کونسل میں رجسٹرڈ کروایا جاتا ہے اور پھر نادرا یونین کونسل کے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر اس نکاح کو رجسٹرڈ کرلیتا ہے۔
مسیحی سماجی رہنما سیموئیل پیارا بھی روبیقہ نیامت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مسیحی لڑکیوں کی مذہب تبدیلی اورجبری شادی کے لیے بھی مسیحی میرج ایکٹ کا استعمال کیا جاتا ہے اور جواز بنایا جاتا ہے کہ 13 سالہ مسیحی لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات مسیحی جوڑے کورٹ میرج کے دوران مسلم میرج ایکٹ کے تحت شادی کرلیتے ہیں جس سے بعد میں انہیں اور ان کے بچوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہرضلع میں ایک مسیحی رجسٹرار کی سیٹ مختص ہے لیکن ان کی تعیناتی نہیں کی گئی۔ اسی طرح مسیحی فیملی قوانین میں وراثت کا معاملہ بہت اہم ہے۔ مسیحی پارلیمنٹیرین چونکہ ان کے ووٹوں سے اسمبلی میں نہیں جاتے اس لیے وہ اپنی کمیونٹی کی بجائے اپنی پارٹیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنوری 1981 میں اس وقت کے صدر ضیا الحق کی حکومت نے 1869 کے مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ 7 ختم کر دی۔ اس تبدیلی کے بعد مسیحی جوڑوں میں طلاق صرف اسی صورت میں ممکن تھی جب شوہر یا بیوی میں سے کوئی فرد بدچلنی کا مرتکب ہوا ہو تاہم جون 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے وہ شق دوبارہ بحال کردی لیکن اسی سال اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی گئی جو لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے پاس زیرِ التوا ہے۔
پنجاب کے وزیربرائے اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑہ کا کہنا ہے جس طرح انہوں نے پنجاب میں سکھ میرج ایکٹ منظور کروایا ہے اسی طرح اب سکھ اور ہندو میرج ایکٹ پر کام شروع کردیا گیا ہے ۔ بہت جلد تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ترمیمی مسودہ تیار کرکے صوبائی کابینہ کو پیش کیا جائے گا۔