بیل گاڑی سے بلٹ ٹرین تک کا سفر

کوسوں دور کا سفر درپیش ہے، اور پا پیادہ وہاں پہنچ پانا امکانات سے ماورا ہے۔ بس پالتو جانوروں کی پشت ہی واحد سہارا ہے۔

بارہ پندرہ چوپایوں پر مشتمل قافلے کی صورت کئی ایام تک یوں ہی چلتے چلتے سالار قافلہ کی خوش خبری جب سنائی دیتی ہے کہ منزل مقصود بس آنے کو ہے، تو اس نوید جاںفزا سے طویل مسافت کی تھکن اور انتظار کی کوفت سہنے والے اہل قافلہ کے پژمردہ چہرے خوشی سے دمک اٹھتے ہیں۔

کئی صدیوں تک یہ قافلے یوں ہی چلتے رہے، کسی نے اہل قافلہ کے دکھ کا مداوا نہ کیا۔ سہولتوں کا رسیا انسانی ذہن بھی شاید ماؤف ہی رہا۔

بے شمار دہائیاں یوں ہی گزرنے پر کسی زیرک نے کمہار کے چاک کو عموداً کھڑا کردیا۔ گویا یہ پہیے کی ابتدا تھی۔

میسو پوٹیما (قدیم عراق) کے آثار قدیمہ سے ملنے والی مٹی کی تختیوں پر مبنی اشکال سے پتا چلتا ہے کہ پہیے کی یہ ایجاد کانسی کے زمانے (3500 سال قبل مسیح) میں قدیمی شہر اُر میں ہوئی۔

حیرت ہے کہ پہیے کو دریافت کرنے والے اُر کے سمیریوں نے اسے روزمرہ کے امور میں استعمال کے قابل بنا کے انسانوں کو راحت فراہم کرنے کے بجائے اسے فوجی رتھوں میں استعمال کر کے راحت کے بجائے باعث آزار بنادیا۔

پھر وقت آگے بڑھتا رہا اور یہ جنگی رتھ، بیل گاڑی کی صورت میں ڈھلتا گیا۔ اب وقت پھر تھم گیا اور یہ بیل گاڑی صدیوں تک اپنے اسی ڈھانچے سے آگے نہ بڑھ سکی۔

انسانی زندگی کے عام سے معمولات میں سے کچھ خاص کشید کرلینا اشرف المخلوقات ہی کا وصف ہے۔

اور اس وصف نے اُسے گرم پانی سے اٹھتی ہوئی معمول کی بھاپ کو اپنا تابع بنالیا۔

یوں بھاپ کی شکل میں وقوع پذیر ہونے والی خودکار حرکت نے ہفتوں کے سفر کو دنوں میں بدل دیا۔

پھر اس کے بعد کی دہائیوں نے انسان کو مزید سہولتوں کا رسیا بنا دیا۔

آسائش کی طلب نے اسے ہزاروں سالوں سے زمین کی گہرائی میں پڑے پیٹرولیم نام کے آتش گیر سیال مادے سے آشنا کروا دیا۔

اب اس نے آتشیں سیال کی چنگاری سے پیدا ہونے والی گیس کو سلنڈر میں قید کر کے اسے قوت میں بدل دیا۔

خود کار حرکت کو اس طرح ایک اور مہمیز مل گئی۔ یوں دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔

اس نئی دریافت سے ذرائع نقل و حمل ایک نئی جہت پانے لگے۔

انسانی قوت کے بغیر خودکار حرکت کرتے بڑے سے ڈیزل انجن، خصوصاً عظیم الجثہ ریلوے انجن کو لوگ باگ ایک عجوبہ اور پر اسرار قوتوں کا حامل شیطانی ہیولہ سمجھ کر ان سے دور رہتے تھے۔

اسی بنا پر غدر کے دنوں میں جب باغیوں نے ایسٹ انڈین ریلوے لائن کے ایک سیکشن پر قبضہ کیا جہاں کئی انجن کھڑے تھے، تو ڈر کے مارے ان دیکھی طاقت سے چلنے والے ان ہیولوں کے قریب جانے کی ہمت کسی کو نہ ہوئی، اور دور ہی دور ہی سے ان پر پتھراؤ کرتے رہے۔

ایک مدت گذرنے پر بالاخر ان شیطانی ہیولوں سے سمجھوتا ہوتا گیا۔ اور بعد میں آنے والی نسلیں تو گویا ان ہیولوں کے سحر میں گرفتار ہی ہوگئیں، کہ ان کے بغیر گذارہ مشکل ہوتا گیا۔

جانوروں کی مدد سے کھینچی جانے والی گاڑیوں اور ڈیڑھ سو سال قبل خود کار انجن کی حامل متعارف ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں فرق کی بنا پر نقل و حمل کے دونوں ذرائع مستعمل ہیں۔ ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود یہ دونوں سلسلے بر صغیر میں آج تک رواں دواں ہیں۔

اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے دنیا ذرائع نقل و حمل کے ذیل میں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، اور یہ دونوں ذرائع ارتقاء کا سفر طے کرتے جدت کی نئی منزلوں کو چھو رہے ہیں!

مگر لگتا یوں ہے کہ بحیثیت قوم، جدت طرازی کے اس قافلے سے ہم بچھڑ چکے ہیں، ہم کہیں کھو گئے ہیں۔

اب قدیم رستوں کی طرف ہم جا نہیں سکتے، اور آگے کے راستے سجھائی نہیں دیتے۔

در اصل آزادی سے قبل کراچی میں مروج عوامی ٹرانسپورٹ کے جاری منظم نظام کو اپ گریڈ کرنے کے بجائے ہم اسے تنزلی کی طرف لے گئے۔

بس اور ٹرام کی صورت میں اس وقت محدود شہر کے کنارے ایک دوسرے سے مربوط تھے۔ سڑک کے لیول پر اندر دھنسی ہوئی پٹریوں پر ریل کے ڈبے کے مانند دوڑتی یہ ٹرام، بولٹن مارکیٹ کے مین جنکشن سے کیماڑی، گاندھی گارڈن، چاکیواڑہ اور صدر تک چلتی تھیں۔ اندرون شہر کی سواری کی ضرورتیں تقریباً اتنی ہی تھیں۔ اور شہر سے باہر منگھو پیر، ماری پور، گڈاپ، ملیر اور کلفٹن جانے کے لیے بس سروسی موجود تھی شہر کے اندر چھوٹے فاصلوں کو سمیٹنے کے لیے سائیکل رکشہ کی شکل میں سستی اور آرام دہ سواری دستیاب تھی۔

پھر 1960ء کے بعد شہر کی وسعت پھیلی تو کے آر ٹی سی، ایس آرٹی سی اور اومنی بس جیسے تجربے کیے، جو بتدریج ناکامی پر متنج ہوئے۔

گزرے پچاس ساٹھ سالوں میں حکومتوں نے عوامی ضرورت کے اس بنیادی شعبے کو مکمل نظر انداز کیے رکھا، جس کے نتائج آج ہم کراچی کی سڑکوں پر سواری کے حصول اور اس میں سفر کے اعصاب شکن مناظر کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

آج کے بگڑے ہوئے ٹرانسپورٹ نظام کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ کراچی کے باسیوں نے ایک صدی یا اس سے بھی کچھ قبل کیماڑی، اس کے آس پاس پھیلے سمندری ساحلوں کے علاوہ لیاری، منگھو پیر اور ملیر جیسی بظاہر دور دراز بستیوں کو نقل و حمل کے کن ذرائع سے مربوط کیے رکھا۔

1885ء تک ملیر، لانڈھی اور منگھوپیر جیسے دورافتادہ اور شہر سے باہر کے زرعی علاقوں تک پہنچنے اور وہاں سے شہر تک ایک دو افراد کے لیے گھوڑے یا اونٹ کی سواری مستعمل تھی۔ یہ گھوڑے یا اونٹ سوار شہر کے قدیم علاقوں میں دیگر ضروریات کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے آتے جاتے۔

کراچی کی سڑکیں ابھی تک کسی اجتماعی، سواری سے آشنا نہیں ہوئی تھیں۔

بڑھتی ہوئی شہری آبادی کو نقل و حمل کے سستے، سہل اور جدید ذرائع مہیا کرنے کے لیے 1885ء میں انگریز انتظامیہ نے کراچی کی سڑکوں پر بس اور ٹراموے چلانے کا فیصلہ کیا۔

لوہے کی پٹری پر چلتی دو منزلہ ٹرام پہلے اسٹیم انجن سے چلائی گئی۔ انجن کے ناقابل برداشت شور کے سبب انجنوں کو بند کرکے انہیں گھوڑوں کی مدد سے کھینچا جانے لگا۔ اور بالاٰخر 1909ء میں ان ٹراموں میں پٹرول انجن نصب کر دیا گیا۔

ان ہی دنوں نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے شہر کے نواحی اور دور دراز کے علاقوں مثلاً منگھو پیر، ماری پور گڈاپ، ملیر، گذری اور کلفٹن تک رسائی کے لئے بڑی بسوں کی سروس مہیا کی۔

دو تین افراد کو اندرون شہر کی مسافت کے لیے سائیکل رکشا موجود تھے۔ ساتھ ہی آٹو رکشا بھی اپنی جگہ بنا رہے تھے۔

خاندان بھر کو قریب ترین تفریحی مقامات مثلاً فیریئر ہال، زولوجیکل گارڈن، جہانگیر پارک وغیرہ تک پہنچنے کے لئے گھوڑا گاڑی (وکٹوریہ) جیسی شاہی سواری موجود تھی۔

1960 ء میں سائیکل رکشا پر حکومت کی جانب سے پابندی لگا دی گئی تو اس کا خلاء دھیرے دھیرے آٹو رکشا نے پُر کیا۔ کالی پیلی ٹیکسیاں بھی متعارف ہونے لگیں۔

غرض کہ آبادی کے رفتہ رفتہ بڑھتے تناسب سے حکومت اور نجی شعبہ، دونوں کے تال میل سے آمد و رفت کے وسیلوں کی قلت اور بے ہنگم صورت حال پیدا نہ ہوئی۔

ساتھ ہی مال بردار ٹرانسپورٹ بھی طلب اور رسد کے توازن کے ساتھ جاری رہا۔

تالپوروں کے ابتدائی دور میں کراچی کی مال بردار ٹرانسپورٹ کا انحصار بڑی حد تک زراعتی اشیاء سے وابستہ تھا، اور یہ آمد و رفت اونٹوں، اونٹ گاڑیوں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے انجام پاتی تھی۔

ان زراعتی اشیاء میں سبزی ترکاری، پھل، جوار، باجرہ اور گھاس شامل تھیں۔ یہ اشیاء لیاری ندی کے کناروں کی زرعی زمینوں، منگھوپیر، زولوجیکل گارڈن (چڑیا گھر) کے اطراف میں پھیلے باغات اور ملیر کی زرخیز زمینوں سے کراچی کی واحد سبزی و فروٹ منڈی لی مارکیٹ پر اترتی تھیں۔

اور پھر 1839ء میں انگریزوں کی آمد کے کچھ عرصے بعد کیماڑی کی بندرگاہ بھی فعال ہونے لگی۔ یوں مال بردار ٹرانسپورٹ کے لیے ایک اور دروازہ کھل گیا۔

بندرگاہ سے جانے اور یہاں اترنے والی اشیاء چوںکہ حجم اور تعداد میں زیادہ تھیں، تو ان کے لیے اونٹ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ لاریاں (ٹرک) بھی متعارف ہونے لگے۔

قیام پاکستان سے قبل کراچی، زرعی اور صنعتی رجحان کا حامل ایک ملا جُلا شہر تھا۔

اور قیام پاکستان کے بعد یہ شہر صنعتی قالب میں ڈھلنے لگا، تو صنعت اور صنعتی مزدوروں کی رہائش کے لئے زمین کی کھپت بڑھتی گئی، یوں منگھوپیر، لیاری ندی کے اطراف مثلاً چڑیا گھر کے اطراف سے ہوتے لسبیلہ، تین ہٹی، جیل اور اس سے آگے کی زرعی زمینوں پر لہراتے کھیت اور باغات کو اجاڑ کر ان پر چھوٹی موٹی صنعتیں اور عمارات کھڑی کردی گئیں۔

اب بیل گاڑی، گدھا گاڑی اور اونٹ گاڑی کے سنگ سنگ ننھے منے مال بردار ٹرک (سوزوکیاں)، بڑے ٹرک اور ٹرالر شہر کی سڑکوں پر نمودار ہونے لگے۔

اور انیس سو ستر کے قریب مسافروں کے لیے ویگینز سڑکوں پر آگئیں۔

سوزوکی لوڈرز، ویگینز اور ٹرالرز کی صورت میں سڑکوں پر آنے والے ٹرانسپورٹ کے ان جدید ذرائع کو انتظامیہ کنٹرول نہ کر سکی۔ اور یوں ٹریفک قوانین کی پامالی نے شہریوں کو اذیت میں مبتلا کردیا۔

اکیسویں صدی میں دنیا ہر شعبے میں نئی منزلوں کی طرف گامزن ہے۔ جبکہ ہم ٹرانسپورٹ سمیت ہر شعبے میں تنزلی کی طرف گام زن ہیں۔

ایسے میں یہ سوچ ابھرتی ہے کہ جدت طرازی کے قافلے سے کیا واقعتاً ہم بچھڑ چکے ہیں، کیا ہم کھو گئے ہیں۔

جائیں تو جائیں کہاں، کہ اب قدیم راستوں کی طرف ہم جا نہیں سکتے، اور آگے کے رستے سجھائی نہیں دیتے۔