عالمی معاشی انٹرنیشنل کیپٹل ازم کا بحران
ترقی یافتہ ممالک میں شرح نمو میں یکسانیت ہے یا شرح نموبہت کم ہے۔
عالمی معاشی نظام میں جہاں مارکیٹ کی اہمیت ہے وہاں قرض لینا اور قرض دینا دونوں اس نظام کا لازمی حصہ ہیں۔ آج کی گلوبل اکانومی کا انحصار قرضوں پر ہے۔اگر غور کیا جائے تو دنیا کا کوئی ملک اور حکومت ایسی نہیں ہے جس پر کسی نہ کسی حوالے سے مالی قرض کا بوجھ نہ ہو۔امریکا جو دنیا کی سب سے بڑی اکانومی ہے 'اس پر بھی قرضوں کا بے تحاشا بوجھ ہے۔یورپ کے ترقی یافتہ ممالک جن میں برطانیہ 'جرمنی'فرانس'اٹلی 'اسپین اور ہالینڈ وغیرہ شامل ہیں'ان ممالک کی حکومتوں نے بھی مختلف حوالوں سے قرضے لے رکھے ہیں۔
حال ہی میں آئی ایم ایف نے اپنی فنانشل مانیٹرنگ رپورٹ شایع کی ہے 'اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال دنیا کا مجموعی سرکاری قرض پہلی مرتبہ ایک ہزار کھرب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے،ایک ہزار کھرب ڈالربہت بڑی رقم ہے جومتعدد خوشحال ملکوں کے بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔اس کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں جس کے مطابق کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر سست شرح نمو کی وجہ سے قرض کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے اوراسی وجہ سے سرکاری اخراجات میں اضافہ ہو جاتاہے۔اب اگر سست شرح نمو میںکمی کے لیے اقدامات کیے جائیں تو بھی قرض کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔نئی منڈیاں تلاش کرنابھی اب کوئی آسان کام نہیں رہا کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں نے منڈیوں پرکنٹرول قائم کر رکھا ہے۔
ان میں پہلے جی فائیو ممالک ہوتے تھے پھریہ بڑھ کر جی سیون ہوئے اور اب جی ایٹ ہونے جا رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ کئی اور معاشی بلاک بھی قائم ہو چکے ہیں۔ان میں آسیان'یورپی یونین'افریقین یونین 'خلیج تعاون کونسل اور شنگھائی تعاون تنظیم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے ریجنل اقتصادی بلاک قائم ہیں۔ لہٰذا اب انٹرنیشنل کیپٹل ازم سے وابستہ ممالک کے لیے معاشی شرح نمو کو بڑھانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
40سال قبل تک چین اور بھارت عالمی اقتصادی طاقتوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوا کرتے تھے لیکن آج یہ ملک عالمی معاشی طاقت بن چکے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی مصنوعات کے لیے منڈیاں تلاش کر رہے ہیں۔ اسی طرح بعض افریقی ممالک بھی جدیدیت کے دور میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں جنوبی افریقہ 'تنزانیہ 'نائیجیریا 'گھانا اور سینیگال شامل ہیں جب کہ شمالی افریقہ میں الجزائر اور مراکش بھی بہتر معیشت والے ملکوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل طاقتور معیشت ہے جب کہ سعودی عرب 'یو اے ای 'قطر اور عمان بھی عالمی کیپٹل کو اپنے ملک میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی ہیں۔
آئی ایم ایف کی حالیہ فنانشل مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق 2024کے اختتام تک عالمی سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے93 فیصد پر پہنچ جائے گا،2030 میں100فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق غالب امکان ہے کہ عالمی قرض کی شرح اندازوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھے گی، اس کی وجہ سب سے بڑی عالمی معیشت امریکا میں زیادہ خرچ کرنے کی خواہش ہے۔ رپورٹ کے مطابق گرین ٹرانزیشن، بڑھتی عمر، سیکیورٹی خدشات اور ترقی کے چیلنجز سے نمٹنے کے باعث اخراجات کا دباؤ بڑھ رہا ہے، عالمی قرض کی سطح میں اضافے کے خدشات امریکی انتخابات سے3 ہفتے قبل سامنے آئے جن میں دونوں صدارتی امیدواروں نے نئے ٹیکس نہ لگانے اور اخراجات میں اضافے کے وعدے کیے ہیں، حالانکہ اس سے امریکی خسارے میں کھربوں ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جنوبی افریقہ اور برازیل سمیت وہ ممالک جہاں قرضوں میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سنگین نتائج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے مسائل اور ترقی پذیر ممالک کے مسائل میں فرق بھی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں شرح نمو میں یکسانیت ہے یا شرح نموبہت کم ہے۔ اس کی وجہ کنسٹرکشن انڈسٹری کا سکڑنا 'عمر رسیدہ افراد کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہونا بلکہ عمر رسیدہ افراد کا صحت مند رہنا شامل ہے۔اسی طرح موٹر وہیکلز 'الیکٹرانک پراڈکٹس کی کھپت کا کم ہونا کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک تو جدید ترین اور برق رفتار ٹرانسپورٹ سسٹم موجود اور فعال ہے اور دوسری طرف لوگوں کے پاس اچھی گاڑیاں بھی موجود ہیں۔
ان گاڑیوں کا معیار چونکہ بہت اچھاہوتا ہے اس لیے یہ ایک عرصے تک سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں ۔ لہٰذا نئی گاڑیاں مارکیٹ میں کم آتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی شرح نمو میں اضافہ بہت کم دیکھنے میں ملتا ہے۔اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک کے مسائل مختلف ہیں۔ ان ممالک کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھاری رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔حکومت کے غیرترقیاتی اخراجات کا حجم زیادہ ہوتا ہے۔ مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے بھی پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ترقی پذیر ملکوں کو قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری طرف ان ممالک کو دفاعی ضروریات کے لیے اپنے بجٹ کا بھاری حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ایک خبر کے مطابق بھارت اور امریکا کے درمیان 320 ارب روپے مالیت کا فوجی معاہدہ طے پاگیا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے کے تحت بھارت کی مسلح افواج کے لیے 31پریڈیٹر ڈرون خریدے جائیں گے۔بھارت کے لیے پریڈیٹر ڈرون کی دیکھ بھال، مرمت، اوورہالنگ کی سہولت بھی قائم کی جائے گی۔اس معاہدے سے بھارتی مسلح افواج کی نگرانی کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور اس کی کل مالیت بڑھ کر 34ہزار 500کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔یہی نہیں بلکہ پاکستان 'سعودی عرب' افریقی ممالک اور ایران وغیرہ اربوں ڈالر اسلحے کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کی ایک وجہ یہ دفاعی اخراجات بھی ہیں۔
عالمی معیشت کو آگے کیسے لے جایا جائے اور عالمی شرح نمو میں اضافہ کیسے ممکن ہو'اس حوالے سے معیشت پر مسلسل تحقیقات کا عمل بھی جاری ہے۔اس بار معیشت کا نوبل انعام ترکیہ کے پروفیسر ڈاکٹر دارون عجم اولو، برطانوی پروفیسر حضرات ڈاکٹر سائمن جانسن اور ڈاکٹر جیمز رابنسن کو اقوام کے درمیان دولت کی عدم مساوات پر تحقیق کرنے پر دیا گیا ہے،نوبل انعام دینے والی جیوری نے کہا کہ یورپی نوآبادکاروں کے متعارف کرائے گئے مختلف سیاسی اور معاشی نظاموں کا جائزہ لے کر تینوں ماہرین اداروں اور خوشحالی کے درمیان تعلق کو ظاہر کرنے میں کامیاب رہے ہیں، سماجی ادارے یہ بتانے میں کس طرح کردار ادا کرتے ہیں کہ کچھ ممالک کیوں ترقی کرتے ہیں جب کہ دوسرے نہیں کرتے۔ دارون عجم اولو، سائمن جانسن اور جیمز رابنسن انعام کا اشتراک کریں گے، جس میں 11 ملین سویڈش کرونر ( 1 ملین ڈالر) کا نقد انعام ہے،57 سالہ عجم اولو میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) میں پروفیسر ہیں جب کہ 64 سالہ رابنسن شکاگو یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
بہرحال یہ بات بھی طے ہے کہ تمام تر تحقیقات کے باوجود انٹرنیشنل کیپٹل ازم بحران کا شکار ہے ۔پیپر کرنسی کے پھیلاؤ کی وجہ سے امیر ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔لیکن اب ٹیکنالوجی کی کمرشل لائزیشن کی وجہ سے اس شرح میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ اب بٹ کوئینز اور کرپٹو کرنسی وغیرہ نے سرمائے کی حرکت پذیری کی رفتار کو غیر معمولی حد تک تیز کر دیا ہے۔ اس وجہ سے سرمایہ میں اضافے کی رفتار بھی غیر معمولی حد تک تیز ہو گئی ہے۔ صنعتی دور کے آغاز میںمیٹل کرنسی کی وجہ سے طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہوا تھا تاہم ایک مڈل کلاس فیملی کے لیے امیر ہونے کا پروسیس کم از کم ایک ڈیڑھ صدی پر محیط ہوتا تھا۔ خاندان کی تیسری نسل مسلسل ترقی کرتے ہوئے امراء کی فہرست میں جگہ پانے میں کامیاب ہوتی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب گولڈ اور دیگر میٹلز کی کرنسی کو پیپر کرنسی میں تبدیل کیا گیا تو امیر ہونے کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا 'اب ایک مڈل کلاس خاندان دوسری نسل میں امیر ہوجاتا تھا لیکن انفرمیشن اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی آمد اور ٹیکنالوجی کی کمرشل لائزیشن کی وجہ سے امیر ہونے کی شرح رفتار غیر معمولی طور پر بڑھی ہے۔
اب کالج اور یونیورسٹی کا کوئی طالب علم کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مہارت کی بنا پر چند برسوں میں ارب پتی بن جاتا ہے۔ اس کی مثال ایلون مسک اور دیگر سوشل میڈیا ایپس کے مالکان ہیں۔بہرحال ان مسائل کو حل کرنا آسان نہیں ہے۔ خصوصاً دنیا کے پسماندہ ممالک اب ترقی کی رفتارمیں اور دولت کے حجم میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کے لیے آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ترقی پذیر ملکوں کی اکثریت دہشت گردی 'خانہ جنگی اور انڈرورلڈ مافیا کی جنگی کارروائیوں کا شکار ہے۔عالمی معیشت کو بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر انٹرنیشنل کیپٹل ازم آگے نہیں بڑھ سکتا۔
حال ہی میں آئی ایم ایف نے اپنی فنانشل مانیٹرنگ رپورٹ شایع کی ہے 'اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال دنیا کا مجموعی سرکاری قرض پہلی مرتبہ ایک ہزار کھرب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے،ایک ہزار کھرب ڈالربہت بڑی رقم ہے جومتعدد خوشحال ملکوں کے بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔اس کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں جس کے مطابق کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر سست شرح نمو کی وجہ سے قرض کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے اوراسی وجہ سے سرکاری اخراجات میں اضافہ ہو جاتاہے۔اب اگر سست شرح نمو میںکمی کے لیے اقدامات کیے جائیں تو بھی قرض کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔نئی منڈیاں تلاش کرنابھی اب کوئی آسان کام نہیں رہا کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں نے منڈیوں پرکنٹرول قائم کر رکھا ہے۔
ان میں پہلے جی فائیو ممالک ہوتے تھے پھریہ بڑھ کر جی سیون ہوئے اور اب جی ایٹ ہونے جا رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ کئی اور معاشی بلاک بھی قائم ہو چکے ہیں۔ان میں آسیان'یورپی یونین'افریقین یونین 'خلیج تعاون کونسل اور شنگھائی تعاون تنظیم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے ریجنل اقتصادی بلاک قائم ہیں۔ لہٰذا اب انٹرنیشنل کیپٹل ازم سے وابستہ ممالک کے لیے معاشی شرح نمو کو بڑھانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
40سال قبل تک چین اور بھارت عالمی اقتصادی طاقتوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوا کرتے تھے لیکن آج یہ ملک عالمی معاشی طاقت بن چکے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی مصنوعات کے لیے منڈیاں تلاش کر رہے ہیں۔ اسی طرح بعض افریقی ممالک بھی جدیدیت کے دور میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں جنوبی افریقہ 'تنزانیہ 'نائیجیریا 'گھانا اور سینیگال شامل ہیں جب کہ شمالی افریقہ میں الجزائر اور مراکش بھی بہتر معیشت والے ملکوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل طاقتور معیشت ہے جب کہ سعودی عرب 'یو اے ای 'قطر اور عمان بھی عالمی کیپٹل کو اپنے ملک میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی ہیں۔
آئی ایم ایف کی حالیہ فنانشل مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق 2024کے اختتام تک عالمی سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے93 فیصد پر پہنچ جائے گا،2030 میں100فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق غالب امکان ہے کہ عالمی قرض کی شرح اندازوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھے گی، اس کی وجہ سب سے بڑی عالمی معیشت امریکا میں زیادہ خرچ کرنے کی خواہش ہے۔ رپورٹ کے مطابق گرین ٹرانزیشن، بڑھتی عمر، سیکیورٹی خدشات اور ترقی کے چیلنجز سے نمٹنے کے باعث اخراجات کا دباؤ بڑھ رہا ہے، عالمی قرض کی سطح میں اضافے کے خدشات امریکی انتخابات سے3 ہفتے قبل سامنے آئے جن میں دونوں صدارتی امیدواروں نے نئے ٹیکس نہ لگانے اور اخراجات میں اضافے کے وعدے کیے ہیں، حالانکہ اس سے امریکی خسارے میں کھربوں ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جنوبی افریقہ اور برازیل سمیت وہ ممالک جہاں قرضوں میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سنگین نتائج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے مسائل اور ترقی پذیر ممالک کے مسائل میں فرق بھی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں شرح نمو میں یکسانیت ہے یا شرح نموبہت کم ہے۔ اس کی وجہ کنسٹرکشن انڈسٹری کا سکڑنا 'عمر رسیدہ افراد کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہونا بلکہ عمر رسیدہ افراد کا صحت مند رہنا شامل ہے۔اسی طرح موٹر وہیکلز 'الیکٹرانک پراڈکٹس کی کھپت کا کم ہونا کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک تو جدید ترین اور برق رفتار ٹرانسپورٹ سسٹم موجود اور فعال ہے اور دوسری طرف لوگوں کے پاس اچھی گاڑیاں بھی موجود ہیں۔
ان گاڑیوں کا معیار چونکہ بہت اچھاہوتا ہے اس لیے یہ ایک عرصے تک سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں ۔ لہٰذا نئی گاڑیاں مارکیٹ میں کم آتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی شرح نمو میں اضافہ بہت کم دیکھنے میں ملتا ہے۔اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک کے مسائل مختلف ہیں۔ ان ممالک کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھاری رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔حکومت کے غیرترقیاتی اخراجات کا حجم زیادہ ہوتا ہے۔ مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے بھی پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ترقی پذیر ملکوں کو قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری طرف ان ممالک کو دفاعی ضروریات کے لیے اپنے بجٹ کا بھاری حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ایک خبر کے مطابق بھارت اور امریکا کے درمیان 320 ارب روپے مالیت کا فوجی معاہدہ طے پاگیا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے کے تحت بھارت کی مسلح افواج کے لیے 31پریڈیٹر ڈرون خریدے جائیں گے۔بھارت کے لیے پریڈیٹر ڈرون کی دیکھ بھال، مرمت، اوورہالنگ کی سہولت بھی قائم کی جائے گی۔اس معاہدے سے بھارتی مسلح افواج کی نگرانی کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور اس کی کل مالیت بڑھ کر 34ہزار 500کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔یہی نہیں بلکہ پاکستان 'سعودی عرب' افریقی ممالک اور ایران وغیرہ اربوں ڈالر اسلحے کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کی ایک وجہ یہ دفاعی اخراجات بھی ہیں۔
عالمی معیشت کو آگے کیسے لے جایا جائے اور عالمی شرح نمو میں اضافہ کیسے ممکن ہو'اس حوالے سے معیشت پر مسلسل تحقیقات کا عمل بھی جاری ہے۔اس بار معیشت کا نوبل انعام ترکیہ کے پروفیسر ڈاکٹر دارون عجم اولو، برطانوی پروفیسر حضرات ڈاکٹر سائمن جانسن اور ڈاکٹر جیمز رابنسن کو اقوام کے درمیان دولت کی عدم مساوات پر تحقیق کرنے پر دیا گیا ہے،نوبل انعام دینے والی جیوری نے کہا کہ یورپی نوآبادکاروں کے متعارف کرائے گئے مختلف سیاسی اور معاشی نظاموں کا جائزہ لے کر تینوں ماہرین اداروں اور خوشحالی کے درمیان تعلق کو ظاہر کرنے میں کامیاب رہے ہیں، سماجی ادارے یہ بتانے میں کس طرح کردار ادا کرتے ہیں کہ کچھ ممالک کیوں ترقی کرتے ہیں جب کہ دوسرے نہیں کرتے۔ دارون عجم اولو، سائمن جانسن اور جیمز رابنسن انعام کا اشتراک کریں گے، جس میں 11 ملین سویڈش کرونر ( 1 ملین ڈالر) کا نقد انعام ہے،57 سالہ عجم اولو میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) میں پروفیسر ہیں جب کہ 64 سالہ رابنسن شکاگو یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
بہرحال یہ بات بھی طے ہے کہ تمام تر تحقیقات کے باوجود انٹرنیشنل کیپٹل ازم بحران کا شکار ہے ۔پیپر کرنسی کے پھیلاؤ کی وجہ سے امیر ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔لیکن اب ٹیکنالوجی کی کمرشل لائزیشن کی وجہ سے اس شرح میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ اب بٹ کوئینز اور کرپٹو کرنسی وغیرہ نے سرمائے کی حرکت پذیری کی رفتار کو غیر معمولی حد تک تیز کر دیا ہے۔ اس وجہ سے سرمایہ میں اضافے کی رفتار بھی غیر معمولی حد تک تیز ہو گئی ہے۔ صنعتی دور کے آغاز میںمیٹل کرنسی کی وجہ سے طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہوا تھا تاہم ایک مڈل کلاس فیملی کے لیے امیر ہونے کا پروسیس کم از کم ایک ڈیڑھ صدی پر محیط ہوتا تھا۔ خاندان کی تیسری نسل مسلسل ترقی کرتے ہوئے امراء کی فہرست میں جگہ پانے میں کامیاب ہوتی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب گولڈ اور دیگر میٹلز کی کرنسی کو پیپر کرنسی میں تبدیل کیا گیا تو امیر ہونے کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا 'اب ایک مڈل کلاس خاندان دوسری نسل میں امیر ہوجاتا تھا لیکن انفرمیشن اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی آمد اور ٹیکنالوجی کی کمرشل لائزیشن کی وجہ سے امیر ہونے کی شرح رفتار غیر معمولی طور پر بڑھی ہے۔
اب کالج اور یونیورسٹی کا کوئی طالب علم کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مہارت کی بنا پر چند برسوں میں ارب پتی بن جاتا ہے۔ اس کی مثال ایلون مسک اور دیگر سوشل میڈیا ایپس کے مالکان ہیں۔بہرحال ان مسائل کو حل کرنا آسان نہیں ہے۔ خصوصاً دنیا کے پسماندہ ممالک اب ترقی کی رفتارمیں اور دولت کے حجم میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کے لیے آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ترقی پذیر ملکوں کی اکثریت دہشت گردی 'خانہ جنگی اور انڈرورلڈ مافیا کی جنگی کارروائیوں کا شکار ہے۔عالمی معیشت کو بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر انٹرنیشنل کیپٹل ازم آگے نہیں بڑھ سکتا۔