بیروزگاری کی فیکٹریاں
اب ڈگری ہولڈرز کے حالات یہ ہیں کہ ملک میں ان کے لیے ملازمتوں کے مواقع نہیں ہیں
ہم سنتے آرہے ہیں کہ نوجوان اپنے ماں باپ کے دست و بازو اور بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں اگر ان کی تربیت ہوشمندی کے ساتھ کی جائے۔ جس طرح نوجوان ماں باپ کا سہارا اور سرمایہ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح نوجوان دھرتی ماں کا بھی سرمایہ ہوتے ہیں۔
ملکی ترقی کا دارو مدار اور انحصار نوجوانوں پر ہوتا ہے اگر نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے تو یہ ملکوں کی تقدیریں بدل دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا فضل ہے کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ نااہل و ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی ناقص تعلیمی پالیسی کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے بیروزگاری کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔
انگریز کا بنایا ہوا تعلیمی نظام کلرک اور بابو بنانے کے لیے تھا ملک کی ترقی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بالکل نہیں تھا۔ 90 فیصد طلبا اور والدین یہی خواب دیکھتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری نوکری ملے گی، باقی 10 فیصد پرائیویٹ نوکری کے خواب دیکھتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں نوکری کا حال یہ ہے کہ چند روز قبل پنجاب کے سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی خالی سیٹوں پر مستقل بھرتی کے بجائے چھ ماہ کے لیے عارضی"ٹیچرز" رکھنے کے ایک پروگرام (سی ٹی آئی )کے لیے درخواستیں مانگی گئیں آپ کویہ بات سن کراندازہ ہوجائے گا کہ ملک میں کس قدر بے روزگاری ہے، سات ہزار تین سو 54 سیٹوں کے لیے دو لاکھ سے زائد درخواستیں آگئیں۔
اب ڈگری ہولڈرز کے حالات یہ ہیں کہ ملک میں ان کے لیے ملازمتوں کے مواقع نہیں ہیں اور بیرون ملک ان کی ڈگریاں قابل قبول نہیں تو ڈگریوں کے حصول کے اس گناہ بے لذت کا فائدہ؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں اس فرسودہ نظام تعلیم پر انحصار اور فنی تعلیم پر عدم توجہی کے باعث ملک کی کل آبادی کے تقریباً 60 فیصد حصے پر مشتمل جوان طبقہ آنے والے برسوں میں ملکی معیشت پر بوجھ بننے کے ساتھ ساتھ جرائم کی راہ اختیار کر سکتا ہے بھیانک مستقبل کے علاوہ ہمارا حال بھی ڈراؤنا بنتا جا رہا ہے کیونکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا آئس جیسے نشے کی لعنت میں گرفتار ہونے کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں تقریباً معطل ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے پرائیویٹ اداروں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے نوکری دینے کے بجائے پرانے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے۔ مگر یونیورسٹی پر یونیورسٹی کھل رہی ہے اور ہر سال مزید لاکھوں بیروزگار پیدا ہو رہے ہیں۔
افسوس کہ اپنی غلط تعلیمی پالیسیوں کی وجہ سے ہم اتنی بڑی نوجوان آبادی، انسانی سرمایہ اور ہیومن کیپیٹل کی اکثریت کی خون پیسنے کی کمائی نچوڑنے کے بعد بیروزگاری کے عذاب سے گزار کر ذہنی مریض بنانے میں مصروف ہیں۔ اگر ہم وقت پر کلرکی اور بیروزگاری کی ان فیکٹریوں کے بجائے ٹیکنیکل ایجوکیشن، عصر حاضر میں کمپیوٹر اور سافٹ ویئر کے شارٹ کورسز (20 سالہ ڈگریاں نہیں) اور اسمال اسکیل بزنس کورسز کی طرف جاتے اور نسل نو کو نوکری کی غلامی کے بجائے کاروبار کی طرف راغب کرتے تو آج ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی قابل دید، نوجوان نسل خوشحال اور معاشرتی برائیوں سے دور باعزت روزگار سے رزق حلال کما کر خاندان کا سہارا بنتی۔
پاکستان ہر سال تعلیم پر دو ہزار ارب روپے خرچ کرتا ہے، اگر ہمارے تعلیمی نظام کی سمت درست اور نتائج مثبت ہو تو اس سے کئی گنا زیادہ خرچ ہونے چاہئیں، مگر یہ تعلیمی ادارے صرف بیروزگار اور ذہنی مریض پیدا کر رہے ہیں جو وقت اور پیسے کا ضیاع بھی ہے۔ روزگار تو ایک طرف اگر اتنی بڑی رقم خرچ کرکے ہماری شرح خواندگی58 فیصد سے آگے نہیں بڑھ رہی تو پھر سوال تو اٹھے گا، سوال پرائیویٹ اداروں کے "صنعت کاروں" سے بھی ہوگا اور سوال ریاست کے ذمے داران سے بھی ہوگا، حکومتوں کی تعلیمی پالیسیوں اور ترجیحات پر بھی ہوگا، ایچ ای سی، یونیورسٹیوں اور کالجوں سے بھی ہوگا کہ آخر اس بگاڑ کا ذمے دار کون ہے؟
عقل تو یہی بتاتی ہے کہ ہمارے معاشی بگاڑ کی ذمے داری اس فرسودہ نظام تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک ہم ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر وسائل فنی تعلیم پر نہیں لگائیں گے بات نہیں بنے گی۔
پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق ملک میں فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کے 1600کے قریب ادارے ہیں، لیکن ان میں سے چند ہی بین الاقوامی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ 24 کروڑ آبادی کے ملک میں فنی تعلیم کے اداروں کی تعداد پر تو" اونٹ کے منہ میں زیرے" والی مثال بھی بے وقعت دکھائی دے رہی ہے۔ حکومتوں نے کبھی بھی فنی تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ کے مطابق فنی تعلیم کے اداروں میں قابل اور تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان ہے۔ اور فنی تعلیم پر نوجوانوں کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ دونوں بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ برین ڈرین ایک اور سنگین مسئلہ ہے ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق ٹیلنٹ کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کے لحاظ سے پاکستان 137 ممالک میں 122 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت سے ہنر مند کارکن ملک چھوڑ رہے ہیں جس سے معیشت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے تجربات ہمارے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک مثال ضرور دینا چاہوں گا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کچھ اہم لوگوں کی ہلاکتوں کا معاملہ جب ہٹلر کے سامنے آیا تو ہٹلر نے تاریخی الفاظ سے اپنی قوم کی راہنمائی کی، اس نے کہا ''جاؤ، چھپا سکتے ہوتو اپنے اساتذہ کو کہیں چھپا دو، اگر تمہارے اساتذہ بچ گئے تو وہ ایسے اہم اور ذہین لوگوں کو دوبارہ تعلیم دے کر تمہاری صفوں میں شامل کر دیں گے''۔ ذرا سوچئے دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ و برباد ہوجانے والے جرمنی نے پاکستان سے امداد مانگی، پھراس مشکل گھڑی کے بعد اس قوم نے ساری توجہ اپنے تعلیمی نظام اور انفرااسٹرکچر کو ترقی دینے پر لگا دی۔ آج جرمنی اپنے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں سے ایک ٹکا بھی کما کر اپنی معیشت میں شامل نہیں کرتا بلکہ تعلیمی نظام کی ترقی اور کامیابی پر خرچ کرتا ہے۔
جرمنی کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آنے والے دنیا بھر کے طالب علم مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسی جرمن تعلیمی نظام نے اوڈی، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو، ووکس ویگن جیسی عظیم کاروں کو بنانے والے ماہرین پیدا کیے، جنھوں نے جرمنی کا لوہا پوری دنیا میں منوا کر معاشی قوت بنوایا اور ایک ہم ہیں جنھیں دنیاجاہل قوم اور ناکام ریاست قرار دے کر ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہم کبھی لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے نام پر اربوں جھونک دیتے ہیں، کبھی پیلی ٹیکسی کے لیے خزانہ کھول دیا جاتا ہے، تو کبھی بے مقصد یوتھ لون اسکیم کے نام پر سو ارب روپے داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اگر اتنا سرمایہ فنی تعلیم کے شعبے میں لگائیں تو ان نیلی پیلی اسکیموں کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔
اس وقت ملک بدترین معاشی مسائل کا شکار ہے، دیوالیہ پن کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے، مانگ تانگ کر ہم اپنے آپ کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہے ہیں، بے روز گاروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ایسے حالات میں روایتی نظام تعلیم مسائل کا حل نہیں بلکہ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلے ہی ہمارے وسائل محدود ہیں انھیں اس بھٹی میں جھونکنے کے بجائے ٹیکنیکل اداروں پر خرچ کریں، ڈگریوں کی سپلائی مکمل بند کرکے میٹرک کے بعد نوجوانوں کو یک سالہ اور دو سالہ فنی کورسز کرائیں تاکہ جلدی روزگار ملے۔
چھوٹے سطح پر کاروباری ہنر سکھائیں، سافٹ ویئر، کمپیوٹر ڈیزائننگ اور آے آئی کے کورسز کروائیں اور کاروبار شروع کرنے کے لیے بلا سود قرضے اہلیت کی بنیاد پر دینا شروع کریں۔ اگر ہم نے نوجوانوں کے دماغ سے نوکری کا خمار اتار کر ان کو کاروبار کی طرف راغب کیا تو ہمارے دن بدل جائیں گے اور اگر نہیں تو ہمارا بیڑا غرق کرنے کے لیے یہی کالج اور یونیورسٹیاں اور بیروزگار ڈگری ہولڈرز کافی ہیں۔
ملکی ترقی کا دارو مدار اور انحصار نوجوانوں پر ہوتا ہے اگر نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے تو یہ ملکوں کی تقدیریں بدل دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا فضل ہے کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ نااہل و ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی ناقص تعلیمی پالیسی کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے بیروزگاری کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔
انگریز کا بنایا ہوا تعلیمی نظام کلرک اور بابو بنانے کے لیے تھا ملک کی ترقی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بالکل نہیں تھا۔ 90 فیصد طلبا اور والدین یہی خواب دیکھتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری نوکری ملے گی، باقی 10 فیصد پرائیویٹ نوکری کے خواب دیکھتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں نوکری کا حال یہ ہے کہ چند روز قبل پنجاب کے سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی خالی سیٹوں پر مستقل بھرتی کے بجائے چھ ماہ کے لیے عارضی"ٹیچرز" رکھنے کے ایک پروگرام (سی ٹی آئی )کے لیے درخواستیں مانگی گئیں آپ کویہ بات سن کراندازہ ہوجائے گا کہ ملک میں کس قدر بے روزگاری ہے، سات ہزار تین سو 54 سیٹوں کے لیے دو لاکھ سے زائد درخواستیں آگئیں۔
اب ڈگری ہولڈرز کے حالات یہ ہیں کہ ملک میں ان کے لیے ملازمتوں کے مواقع نہیں ہیں اور بیرون ملک ان کی ڈگریاں قابل قبول نہیں تو ڈگریوں کے حصول کے اس گناہ بے لذت کا فائدہ؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں اس فرسودہ نظام تعلیم پر انحصار اور فنی تعلیم پر عدم توجہی کے باعث ملک کی کل آبادی کے تقریباً 60 فیصد حصے پر مشتمل جوان طبقہ آنے والے برسوں میں ملکی معیشت پر بوجھ بننے کے ساتھ ساتھ جرائم کی راہ اختیار کر سکتا ہے بھیانک مستقبل کے علاوہ ہمارا حال بھی ڈراؤنا بنتا جا رہا ہے کیونکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا آئس جیسے نشے کی لعنت میں گرفتار ہونے کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں تقریباً معطل ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے پرائیویٹ اداروں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے نوکری دینے کے بجائے پرانے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے۔ مگر یونیورسٹی پر یونیورسٹی کھل رہی ہے اور ہر سال مزید لاکھوں بیروزگار پیدا ہو رہے ہیں۔
افسوس کہ اپنی غلط تعلیمی پالیسیوں کی وجہ سے ہم اتنی بڑی نوجوان آبادی، انسانی سرمایہ اور ہیومن کیپیٹل کی اکثریت کی خون پیسنے کی کمائی نچوڑنے کے بعد بیروزگاری کے عذاب سے گزار کر ذہنی مریض بنانے میں مصروف ہیں۔ اگر ہم وقت پر کلرکی اور بیروزگاری کی ان فیکٹریوں کے بجائے ٹیکنیکل ایجوکیشن، عصر حاضر میں کمپیوٹر اور سافٹ ویئر کے شارٹ کورسز (20 سالہ ڈگریاں نہیں) اور اسمال اسکیل بزنس کورسز کی طرف جاتے اور نسل نو کو نوکری کی غلامی کے بجائے کاروبار کی طرف راغب کرتے تو آج ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی قابل دید، نوجوان نسل خوشحال اور معاشرتی برائیوں سے دور باعزت روزگار سے رزق حلال کما کر خاندان کا سہارا بنتی۔
پاکستان ہر سال تعلیم پر دو ہزار ارب روپے خرچ کرتا ہے، اگر ہمارے تعلیمی نظام کی سمت درست اور نتائج مثبت ہو تو اس سے کئی گنا زیادہ خرچ ہونے چاہئیں، مگر یہ تعلیمی ادارے صرف بیروزگار اور ذہنی مریض پیدا کر رہے ہیں جو وقت اور پیسے کا ضیاع بھی ہے۔ روزگار تو ایک طرف اگر اتنی بڑی رقم خرچ کرکے ہماری شرح خواندگی58 فیصد سے آگے نہیں بڑھ رہی تو پھر سوال تو اٹھے گا، سوال پرائیویٹ اداروں کے "صنعت کاروں" سے بھی ہوگا اور سوال ریاست کے ذمے داران سے بھی ہوگا، حکومتوں کی تعلیمی پالیسیوں اور ترجیحات پر بھی ہوگا، ایچ ای سی، یونیورسٹیوں اور کالجوں سے بھی ہوگا کہ آخر اس بگاڑ کا ذمے دار کون ہے؟
عقل تو یہی بتاتی ہے کہ ہمارے معاشی بگاڑ کی ذمے داری اس فرسودہ نظام تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک ہم ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر وسائل فنی تعلیم پر نہیں لگائیں گے بات نہیں بنے گی۔
پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق ملک میں فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کے 1600کے قریب ادارے ہیں، لیکن ان میں سے چند ہی بین الاقوامی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ 24 کروڑ آبادی کے ملک میں فنی تعلیم کے اداروں کی تعداد پر تو" اونٹ کے منہ میں زیرے" والی مثال بھی بے وقعت دکھائی دے رہی ہے۔ حکومتوں نے کبھی بھی فنی تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ کے مطابق فنی تعلیم کے اداروں میں قابل اور تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان ہے۔ اور فنی تعلیم پر نوجوانوں کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ دونوں بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ برین ڈرین ایک اور سنگین مسئلہ ہے ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق ٹیلنٹ کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کے لحاظ سے پاکستان 137 ممالک میں 122 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت سے ہنر مند کارکن ملک چھوڑ رہے ہیں جس سے معیشت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے تجربات ہمارے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک مثال ضرور دینا چاہوں گا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کچھ اہم لوگوں کی ہلاکتوں کا معاملہ جب ہٹلر کے سامنے آیا تو ہٹلر نے تاریخی الفاظ سے اپنی قوم کی راہنمائی کی، اس نے کہا ''جاؤ، چھپا سکتے ہوتو اپنے اساتذہ کو کہیں چھپا دو، اگر تمہارے اساتذہ بچ گئے تو وہ ایسے اہم اور ذہین لوگوں کو دوبارہ تعلیم دے کر تمہاری صفوں میں شامل کر دیں گے''۔ ذرا سوچئے دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ و برباد ہوجانے والے جرمنی نے پاکستان سے امداد مانگی، پھراس مشکل گھڑی کے بعد اس قوم نے ساری توجہ اپنے تعلیمی نظام اور انفرااسٹرکچر کو ترقی دینے پر لگا دی۔ آج جرمنی اپنے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں سے ایک ٹکا بھی کما کر اپنی معیشت میں شامل نہیں کرتا بلکہ تعلیمی نظام کی ترقی اور کامیابی پر خرچ کرتا ہے۔
جرمنی کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آنے والے دنیا بھر کے طالب علم مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسی جرمن تعلیمی نظام نے اوڈی، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو، ووکس ویگن جیسی عظیم کاروں کو بنانے والے ماہرین پیدا کیے، جنھوں نے جرمنی کا لوہا پوری دنیا میں منوا کر معاشی قوت بنوایا اور ایک ہم ہیں جنھیں دنیاجاہل قوم اور ناکام ریاست قرار دے کر ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہم کبھی لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے نام پر اربوں جھونک دیتے ہیں، کبھی پیلی ٹیکسی کے لیے خزانہ کھول دیا جاتا ہے، تو کبھی بے مقصد یوتھ لون اسکیم کے نام پر سو ارب روپے داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اگر اتنا سرمایہ فنی تعلیم کے شعبے میں لگائیں تو ان نیلی پیلی اسکیموں کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔
اس وقت ملک بدترین معاشی مسائل کا شکار ہے، دیوالیہ پن کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے، مانگ تانگ کر ہم اپنے آپ کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہے ہیں، بے روز گاروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ایسے حالات میں روایتی نظام تعلیم مسائل کا حل نہیں بلکہ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلے ہی ہمارے وسائل محدود ہیں انھیں اس بھٹی میں جھونکنے کے بجائے ٹیکنیکل اداروں پر خرچ کریں، ڈگریوں کی سپلائی مکمل بند کرکے میٹرک کے بعد نوجوانوں کو یک سالہ اور دو سالہ فنی کورسز کرائیں تاکہ جلدی روزگار ملے۔
چھوٹے سطح پر کاروباری ہنر سکھائیں، سافٹ ویئر، کمپیوٹر ڈیزائننگ اور آے آئی کے کورسز کروائیں اور کاروبار شروع کرنے کے لیے بلا سود قرضے اہلیت کی بنیاد پر دینا شروع کریں۔ اگر ہم نے نوجوانوں کے دماغ سے نوکری کا خمار اتار کر ان کو کاروبار کی طرف راغب کیا تو ہمارے دن بدل جائیں گے اور اگر نہیں تو ہمارا بیڑا غرق کرنے کے لیے یہی کالج اور یونیورسٹیاں اور بیروزگار ڈگری ہولڈرز کافی ہیں۔