شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقبل

شنگھائی تعاون تنظیم گو ایک نئی عالمی تنظیم ہے مگر اس نے بہت جلد اپنی جانب بین الاقوامی توجہ مبذول کرا لی ہے۔ روس۔ یوکرین جنگ، روس اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ، چین، امریکا کے تعلقات میں جنم لیتے اختلافات اور امریکی انتخابات کی حساسیت کے تناظر میں اس عالمی تنظیم کی اہمیت اور وقعت بڑھ رہی ہے۔ اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی سلامتی کے فریم ورک سے نکل کر طاقتور جیو پولیٹیکل ادارے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

روس کے اتحادی بیلاروس کا اس تنظیم سے الحاق یوریشیا میں گروپ بندی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی قیادت میں مغرب کا مقابلہ کرنے کی طرف ایک قدم بڑھانے کی نمائندگی کرتا ہے۔ مشرقی یورپ میں واقع یورپی ملک، بیلاروس کا انضمام عیاں کرتا ہے کہ اب چین کی توجہ قومی سلامتی سے کے دائرے سے نکل اس جانب مبذول ہو رہی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو ایک متنوع اور بااثر یوریشین تنظیم کی صورت ڈھال دیا جائے۔ اس توسیع نے نہ صرف اس کی جغرافیائی اور جغرافیائی سیاسی رسائی میں اضافہ کیا بلکہ اس کی عالمی حیثیت کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ تنظیم کو خطّے سے باہر کے ممالک سے بھی رکنیت کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ان میں مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔ اگرچہ کسی ملک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ گلوبل ساؤتھ کی یہ دلچسپی دنیا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ’’خاندان‘‘ سے بڑھتی ہوئی کشش و اپیل ظاہر کرتی اور تنظیم کے مستقبل میں متعدد سمتوں میں توسیع کا اشارہ دیتی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس تزک واحتشام سے منعقد ہو رہے ہیں۔ ہر اجلاس رکن ممالک کے تعاون میں اضافہ کر دیتا ہے جو خاص طور پہ چین اور روس کے نقطہ نظر سے بڑھتی ہوئی عالمی دشمنیوں اور جاری تنازعات کے ماحول میں بہت اہم ہے۔ مغربی طاقتوں کی معاشی پالیسیاں اور مفاداتی سیاست ان عالمی تنازعات کو جنم دے رہی ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ مغرب کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نئی قوت سامنے آئے۔ اور شنگھائی تعاون تنظیم بتدریج یہ قوت بن سکتی ہے۔

مغربی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ چین و بھارت کی باہمی چپقلش شنگھائی تعاون تنظیم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مثال کے طور پر تنظیم کے پچھلے سربراہی اجلاس میں بھی بھارت کی طرف سے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر شریک ہوئے تھے اور وزیراعظم مودی غیرحاضر رہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد مودی نے ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ ماہرین کے نزدیک اس طرح مودی نے عیاں کیا کہ وہ چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعات اور علاقائی حریف کے طور پر بھارت کی پوزیشن کے بارے میں خدشات رکھتے ہیں۔

مزید برآں اپنی خارجہ پالیسی کی خودمختاری دکھاتے ہوئے بھارت کواڈ گروپنگ (Quadrilateral Security Dialogue) میں زور شور سے شریک ہوا جس کے ارکان میں امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں۔ پھر ماہ جون میں جی سیون کے سربراہی اجلاس میں بھی مودی پُرتپاک انداز میں شریک ہوئے۔ ان حالات اور واقعات سے عیاں ہے کہ بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں حالاںکہ اسے اس سے کئی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ظاہری تناؤ کے باوجود بھارت مسلسل روس کے ساتھ مضبوط دوطرفہ تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کیوںکہ بھارت دنیا کی اس بڑی طاقت کو اقتصادی، توانائی ، جغرافیائی اور فوجی تعاون کے لیے بہت اہم سمجھتا ہے۔ اس صورت حال کے معنی یہ ہیں کہ بھارت ایک نازک توازن برقرار رکھتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ جُڑا رہے گا۔ یہی وجہ ہے، وہ شاید نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وزیرخارجہ پاکستان بھجوانے پر مجبور ہو گیا۔ گو یہ بھی آشکارا ہے کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان برف کچھ پگھل گئی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے سبھی ارکان ممالک کے لیے طویل مدتی استحکام ایک مرکزی موضوع ہے، لیکن حال ہی میں ہونے والے سربراہی اجلاسوں میں دستخط کی گئی دستاویزات ایک توسیع شدہ ایجنڈے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اب اس ایجنڈے میں توانائی، سرمایہ کاری، ڈیجیٹل معیشت، مقامی کرنسی کی آباد کاری، ماحولیاتی تحفظ، معلومات کی حفاظت اور خوراک کی حفاظت جیسے شعبوں میں تعاون اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانا شامل ہو گیا ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک کی یہ وسیع تر ہوتی توجہ کئی معاملات اور شعبوں میں پیچیدہ باہمی انحصار کی آئینہ دار ہے جو جدید بین الاقوامی حکمت عملی کی وضاحت کرتی ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر روس اور چین مل کے شنگھائی تعاون تنظیم کی عالمی حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی چین تنظیم کے ذریعے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنی دوستانہ بات چیت اور تعلقات کو تیزتر بنا رہا ہے۔ تاریخی طور پر چین نے اپنے دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر اقتصادی طور پر، جیسا کہ چین۔کرغزستان، ازبکستان ریلوے، ایس سی او بینک اور ایس سی او کے بین الاقوامی سڑک نقل و حمل کے معاہدے جیسے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ ماضی میں یہ کوشش روس کے روایتی طور پر محتاط موقف کی وجہ سے محدود رہی تھی، لیکن اب خاص طور پر روس، یوکرین تنازع نے وسطی ایشیا میں روسی اثرورسوخ میں کسی حد تک کمی کردی ہے۔ مزید برآں روس اب خود چاہتا ہے کہ چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان زیادہ مضبوط تعلقات جنم لیں اور ان کے باہمی معاشی و ثقافتی معاہدے انجام پائیں۔

جب 2001 ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے صرف چھے رکن تھے۔ آج اس کے دس رکن بن چکے ہیں جب کہ مزید کئی ممالک مستقبل میں اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ماضی کی یہ چھوٹی سی تنظیم اب ایک مضبوط بین علاقائی اور بین الاقوامی تنظیم بن گئی ہے، جس میں 2024 ء تک 10 مکمل ارکان، 14 ڈائیلاگ پارٹنر، اور دو مبصرین شامل ہیں۔ یہ وسیع نیٹ ورک نہ صرف تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثر کو ظاہر کرتا ہے بلکہ عالمی اقتصادی اور سیاسی مرکز کشش ثقل کی مشرق کی طرف وسیع تر تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہے۔

2010 ء میں شنگھائی تعاون تنظیم نے نئے ارکان کو داخل کرنے کے طریقہ کار کی منظوری دی تھی۔ 2011 ء میں، ترکی نے ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی جو اسے 2013 ء میں حاصل ہوا ۔ یاد رہے، ترکی نیٹو کا رکن اور یورپی یونین کا امیدوار ملک ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب کا پھر بیان آیا کہ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں مکمل رکنیت کے بدلے یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی امیدواری ترک کرنے کے امکان پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔ اس امر کو 21 نومبر 2016 ء کو دوبارہ تقویت ملی، جب یورپی پارلیمنٹ نے ترکی کے ساتھ الحاق کے مذاکرات کو معطل کرنے کے لیے متفقہ طور پر ووٹ دیا۔

دو دن بعد 23 نومبر 2016 ء کے دن ترکی کو 2017ء کی مدت کے لیے ایس سی او انرجی کلب کی چیئرمین شپ دے دی گئی۔ اس اقدام نے ترکی کو پہلا ایسا ملک بنا دیا جس نے مکمل رکنیت کے بغیر تنظیم کے کسی کلب کی سربراہی کی۔ 2022ء میں تنظیم کے بائیسویں سربراہی اجلاس میں ترک صدر نے کہا کہ ترکی شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت کا درجہ حاصل کرلے گا۔ 11 جولائی 2024 ء کو ترکی کے صدر رجب طیب نے امریکی نیوز ویک میگزین کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ وہ نیٹو میں ترکی کی رکنیت کو شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھتے۔

اس دوران آذربائیجان کی وزارت خارجہ کے ترجمان آیخان حاجی زادہ کا یہ بیان سامنے آیا کہ ان کی ریاست کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کا درجہ ملنے کی توقع ہے۔ بعد ازآں جمہوریہ قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے آستانہ میں 3 جولائی 2024 کو جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف سے ملاقات کے دوران انکشاف کیا تھا کہ آذربائیجان شاید کچھ دیر بعد ایس سی او کا مکمل رکن بن جائے گا۔