صدیوں پُرانے دور میں زندہ جاراوا قبائل
جزائر انڈمان کے قدیم لوگ، جو جدید دنیا سے تعلق کے خواہش مند ہیں.
ISLAMABAD:
جزائر انڈمان بحر ہند اور خلیج بنگال میں واقع مجموعہ جزائر ہیں، جو مغرب میں جزیرہ نما انڈیا اور شمال اور مشرق میں برما کے درمیان واقع ہیں۔
اکثر جزائر انڈمان اور نکوبار انڈیا کے زیر انتظام ہیں، جب کہ شمال میں واقع چند جزیرے برما کا حصہ ہیں۔ جزائر انڈمان میں آباد مقامی انڈمانی بہ مشکل ایک ہزار جزیروں پر آباد ہیں۔ یہی اس جگہ کے اصل باشندے ہیں۔ 1850کی دہائی میں پہلی بار ان کا بیرونی دنیا یا بیرونی لوگوں سے رابطہ ہوا تھا۔ اس وقت ان کی آبادی کا تخمینہ 7000افراد کا لگایا گیا تھا۔ مگر اس وقت تک یہ لوگ جو پہلے ایک تھے، درج ذیل گروپوں میں تقسیم ہوچکے تھے۔
یہ عظیم انڈمانی، جاراوا، جنگل، اونج اور سینٹینیلیز تھے۔ اس وقت ہم ان میں سے صرف جاراوا قبائل کے بارے میں بات کریں گے۔
جزائر انڈمان میں رہنے والے ان دیسی و مقامی لوگوں کی موجودہ آبادی کا اندازہ 250سے 400 نفوس کے درمیان لگایا گیا ہے۔ ان قبائل کا بیرونی دنیا سے کوئی ٹھوس قسم کا رابطہ یا واسطہ نہیں رہا ہے۔ انہوں نے خود کو بیرونی دنیا سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ اسی لیے ان کے معاشرے، ثقافت اور رسوم و رواج کے بارے میں بہت کم معلومات مل سکی ہیں اور انہیں بہت کم سمجھا گیا ہے۔ جاراوا کا مطلب ان کی مقامی زبان میں ''غیرملکی'' یا ''دشمن لوگ'' ہے۔
ان جزائر میں آباد دیگر دیسی لوگوں کی طرح انڈمانی لوگ بھی ہزاروں سال سے ان جزائر میں رہتے چلے آرہے ہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں ان کے قیام کی مدت اس سے بھی کہیں زیادہ ہو جو تاریخ داں بتاتے ہیں۔ جزائر انڈمان اس قدر قدیم ہیں کہ عہد وسطیٰ سے بیرونی لوگ یا بیرونی دنیا ان کے بارے میں جانتی تھی۔ تاہم یہاں جدید دور سے پہلے بہت کم لوگ آیا کرتے تھے۔ یہاں کے بیرونی لوگوں یا اقوام سے بہت کم تعلق استوار ہوتے تھے۔ اگر لوگ ان جزائر پر آتے یا یہاں آباد لوگوں سے ملتے تھے، تو ان سے انہوں نے کبھی ٹھوس بنیادوں پر تعلقات استوار نہیں کیے، بلکہ ان تعلقات کی نوعیت غیرمستقل یا عارضی ہوتی تھی۔ ان لوگوں یعنی جاراوا قبائل نے اپنی تاریخ کے بڑے حصے کے دوران اگر کبھی کسی سے قریبی روابط استوار کیے تو وہ صرف ان کے اپنے جیسے دیگر انڈمانی گروپ ہی تھے۔
گویا ان جزائر کی آبادیوں نے باقی دنیا سے الگ تھلگ طویل دور پر مشتمل زندگی گزاری ہے۔ اسی لیے نہ تو انہوں نے بیرونی دنیا کا کوئی اثر قبول کیا اور نہ انہیں اس کا کوئی موقع مل سکا۔ ان پر بیرونی دنیا کے مختلف گروہوں کی ثقافتوں کا کوئی اثر بالکل نظر نہیں آتا۔ لیکن اس بات کے کچھ شواہد ضرور ملے ہیں کہ جاراوا لوگ یہاں پہلے سے موجود جِن گل jingleقبیلے کو اپنا جد امجد قرار دیتے تھے، مگر اب یہ قبیلہ ناپید ہوچکا ہے۔ بعض تاریخ دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ صدیوں یا ہزاروں سال پہلے مذکورہ بالا جن گل قبیلے سے ہی ان لوگوں کے مختلف گروپ یا شاخیں نکلی تھیں۔
تاہم جاراوا قبیلہ اپنے ہی بنیادی اور جد امجد جن گل قبیلے پر کچھ اس طرح غالب آگیا کہ اس نے تعداد میں اس قبیلے کو بہت پیچھے چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں جن گل قبیلے کو لوگوں نے فراموش کردیا اور ہر طرف جاراوا ہی دکھائی دینے لگے۔ جاراوا قبیلے کے جد امجد جن گل قبیلے کو Aka Beaبھی کہا جاتا تھا۔ خیال ہے کہ یہ قبیلہ 1931تک یعنی انڈیا کی آزادی سے کوئی سولہ سال پہلے معدومیت کا شکار ہوگیا۔
ابتدائی آبادیاں:
انیسویں صدی سے پہلے جاراوا کا اصل وطن جنوبی انڈمان جزائر کے جنوب مشرقی حصے یا پھر قریبی چھوٹے ٹاپو اور جزیرے تھے۔ اس کے بعد جب برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کیا تو اس کے آغاز میں ان لوگوں کی تعداد کافی کم ہوگئی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ 1789 کے فوراً بعد یہاں کی آبادی یعنی جاراوا کا بہت بڑا حصہ کسی وبائی مرض کا شکار ہوکر ختم ہوگیا تھا۔ پھر صرف یہی مرض ان لوگوں کی موت کا سبب نہیں بنا تھا، بلکہ انڈمان کے بڑے بڑے قبیلے بھی اسی طرح کی بیماریوں اور شراب نوشی کی کثرت کے باعث مسلسل مرتے چلے گئے۔
رہی سہی کسر برطانوی تباہ کاریوں نے پوری کردی، جس کے باعث یہ قبیلہ اپنا وجود کھوتا چلا گیا۔ اس کے بعد صورت حال ایسی ہوئی کہ دیگر قبائل کو یہاں گھسنے کے لیے مغربی علاقے بالکل کھلے مل گئے، جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان علاقوں کو جاراوا قبائل نے آہستہ آہستہ اپنا نیا وطن بنانا شروع کردیا۔ پھر انڈیا اور برما کے آباد کاروں کی ہجرت یا نقل مکانی بھی یہاں آبادی کی کثرت کا سبب بنی۔ واضح رہے کہ یہ نقل مکانی لگ بھگ دو صدیوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور اس میں بعد کے عرصے میں خاصی تیزی آتی چلی گئی۔
1997میں یہاں کی آبادیوں سے بیرونی لوگوں کے روابط قائم ہونے شروع ہوئے۔ اس سے پہلے یہ قبائل اس بات کے لیے مشہور تھے کہ یہ لوگ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے اور یہ کہ اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے حوالے سے بہت جنونی، پرجوش و پرعزم ہیں، اسی لیے یہ بیرونی قوموں اور لوگوں سے فاصلہ رکھنے کے قائل ہیں۔
بنیادی طور پر یہ یعنی جاراوا قبائل پرامن ہیں اور کسی بھی دوسرے قبیلے پر حملہ کرنے یا اس پر قابض ہونے کے عزائم نہیں رکھتے۔ یہ الگ تھلگ رہنے والے لوگ ہیں اور کسی بھی گروپ کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مگر 1998 میں ان کے انداز اور حکمت عملی میں تبدیلی آئی اور ان لوگوں نے نہ صرف بیرونی دنیا سے تعلقات بڑھانے شروع کردیے، بلکہ دوسرے لوگوں سے ملنے میں خوشی بھی محسوس کرنے لگے۔ اب یہ لوگ دوسرے لوگوں اور اقوام سے ملنا پسند کرتے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ گھل مل کر رہنا چاہتے ہیں، انہیں اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں، مگر خود ان کے پاس جاتے ہوئے یہ قبائل اب بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
بالخصوص اپنے ہاں آنے والے سیاحوں کے ساتھ یہ مضبوط روابط قائم کرنے کے خواہش مند ہیں، ان سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ ایک بدقسمتی یہ لگی ہوئی ہے کہ یہ ماضی میں جن ہول ناک بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں، وہ بیماریاں آج بھی اپنے اندر خطرناک وبائی اثرات رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان سے ملنے جلنے والے ان بیماریوں میں یقینی طور پر مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی ایک بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ وہ دوسروں سے مل کر رہنا چاہتے ہیں، مگر مل نہیں پاتے۔ تاہم جاراوا قبائل پھر بھی دوسروں کے ساتھ دوستی کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی انڈمانی قبیلوں میں صرف سینٹینیلیز ایسے ہیں جو الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں اور وہ اپنے اس فیصلے پر آج بھی سختی سے عمل پیرا ہیں۔ ان کا معاشرہ، ان کی ثقافت اور ان کی روایات جاراوا سے تھوڑی بہت مختلف ہیں، مگر مجموعی طور پر وہ ان جیسے ہی ہیں۔
آج جاراوا کے لوگوں میں اس حد تک لچک آچکی ہے کہ اب یہ بیرونی دنیا سے مستقل رابطے میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی آبادیاں اور بستیاں ان مخصوص علاقوں کے سروں اور کناروں پر واقع ہیں، جہاں مہذب دنیا نے اپنے لیے نئی نئی تفریح گاہیں یا سیرگاہیں بنائی ہیں۔ ان کے ذریعے وہ بیرونی دنیا کے ساتھ روز مرہ رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں انڈمان ٹرنک روڈ بھی واقع ہے۔ یہاں گودیوں کے ساتھ ساتھ بازار بھی ہیں اور اسپتال بھی۔ یہ سب بڑی شاہ راہ کے ساتھ اور تفریح گاہوں کے قریب بستیوں اور آبادیوں میں واقع ہیں۔ اب تو بعض اوقات ان قبائل کے کچھ بچے بھی یہاں کے اسکولوں میں نظر آنے لگے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قبائل اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان قبائل سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دیگر بچوں کے ساتھ تعلیم دلوائیں۔
گریٹ انڈمان ٹرنک روڈ:
حالیہ برسوں میں جاراوا قبائل کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس وقت سامنے آیا جب گریٹ انڈمان ٹرنک روڈ کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ شاہ راہ ان کے نئے مغربی جنگل کے ساتھ ساتھ 1970کی دہائی میں تعمیر ہونی شروع ہوئی تھی۔ 1997 کے اواخر میں جاراوا نے اپنے جنگلات میں آنا شروع کردیا، تاکہ وہ قریبی بستیوں اور آبادیوں کو دیکھ بھی سکیں اور ان کے لوگوں سے مل سکیں۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ مگر پھر ان کی بدقسمتی ان کے آڑے آگئی اور چند مہینوں کے اندر اندر ہی وہاں خسرہ کا مہلک اور وبائی مرض پھوٹ پڑا۔
بعد میں 2006میں جاراوا میں ایک بار پھر خسرہ کی وبا پھیل گئی، تاہم اس بار اس کی شدت میں کچھ کمی دکھائی دی، کیوں کہ علاقے میں اس حوالے سے اموات کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔
ہائی وے کی تعمیر تو اس علاقے کے لوگوں کی سہولت کے لیے کی گئی ہے، لیکن اس کی وجہ سے یہاں کچھ مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی شاہ راہ کی وجہ سے یہاں ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہوگئی، جس کا جی چاہا اس نے یہاں قبضہ جمالیا۔ پھر جاراوا کے قیمتی جانوروں کا غیرقانونی شکار بھی عام ہوگیا اور ساتھ ساتھ یہاں کی زمینوں کو جس انداز سے بیرونی لوگوں نے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا، اس سے مقامی آبادیوں اور لوگوں کی حق تلفی ہونی شروع ہوگئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کلکتہ کے ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک مقدمہ بھی دائر کردیا گیا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس علاقے کی زمینوں اور جنگلوں پر یہاں رہنے والوں کا حق ہے۔
بیرونی لوگوں کا نہیں۔ بعدمیں یہ کیس پبلک انٹریسٹ لٹی گیشن یا PIL کی حیثیت سے سپریم کورٹ آف انڈیا تک جا پہنچا۔ اس کے بعد سوسائٹی فار انڈمان اینڈ نکوبار ایکولوجی، دی بومبے نیچرک ہسٹری سوسائٹی اور پونا بیسڈ کلپا ورشک نامی سوسائٹی بھی اس پیٹیشن میں شامل ہوگئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کی 2001میں ہائی کورٹ نے ایک بے مثال فیصلہ سنایا، جس کے تحت اس نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ جاراوا قبائل کو پورا پورا تحفظ دے اور ان لوگوں کے علاقوں میں تجاوزات کو بھی روکے اور انہیں سکون سے رہنے دیا جائے۔ ہائی کورٹ نے بیماری سے بچائو کے لیے ان لوگوں سے رابطے محدود کرنے کی ہدایت بھی کی اور یہ فیصلہ بھی سنایا کہ وہاں کوئی بھی ایسا نیا پروگرام شروع نہ کیا جائے جس میں جاراوا لوگوں کے کسی بھی علاقے میں کاٹ چھانٹ شامل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے ہائی وے کی توسیع کے تمام منصوبے فوری طور پر روکنے کا حکم دیا، بلکہ ان پر پابندی عائد کردی۔
سیاحت کا اثر:
یہاں کا ایک بہت بڑا مسئلہ سیاحت ہے۔ یہاں انڈیا کے علاوہ بیرون ملک سے بھی بہت سے سیاح بڑے ذوق و شوق سے آتے ہیں۔ وہ یہاں کے علاقوں کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور جاراوا قبائل سے بھی ملنا چاہتے ہیں۔ مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے تمام سیاحتی امور پرائیویٹ کمپنیاں چلارہی ہیں۔ یہاں آنے والے لوگ ان لوگوں کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور بڑی دل چسپی کے ساتھ ان کی تصویریں بھی کھینچتے ہیں۔ یہاں آنے والے سبھی سیاح مقامی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں، اس کے باوجود ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جاراوا قبائل کے ساتھ بات چیت کریں، ان سے تبادلۂ خیال کریں، ان کی بات سمجھنے کی کوشش کریں یا انہیں اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کریں۔ یہ جاراوا لوگ اکثر ہائی وے کے کناروں پر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔
مگر یہ سب انڈین قانون کے تحت غیرقانونی ہے۔ مارچ 2008میں دی ٹورزم ڈپارٹمنٹ آف دی انڈمان اور نکوبار ایڈمنسٹریشن نے ٹور آپریٹرز کو اس حوالے سے ایک تازہ وارننگ جاری کی کہ وہ جاراوا کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی کوشش نہ کریں، نہ ہی ان کی تصاویر کھینچیں، ان کی سرزمین سے گزرتے ہوئے اپنی گاڑیاں درمیان میں نہ روکیں اور نہ ہی انہیں اپنی گاڑیوں میں لفٹ دیں، یہ تمام کام پروٹیکشن آف ابورجینل ٹرابس ریگولیشن 1956 کے تحت ممنوع ہیں۔ اگر کسی نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ تاہم دیکھا اور کہا جارہا ہے کہ ان تمام قوانین کی کھل کر دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ، کیوں کہ 500 سے بھی زیادہ سیاح ہر روز جاراوا کو دیکھنے آتے ہیں اور اس کام میں ان کی معاونت پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ تیکنیکی طور یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ عمل جائز ہے اور اس طرح کے روز مرہ اور مسلسل رابطوں کے ذریعے جاراوا اور ٹور آپریٹرز کے درمیان ریزرو ایریاز میں مضبوط تعلقات استوار کیے جارہے ہیں۔
2006 میں انڈین ٹریول کمپنی بیئر فوٹ نے جاراوا ریزرو سے کوئی تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک تفریح گاہ قائم کی تھی۔ ایسا کیوں ہوا، اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ ایک حالیہ عدالتی کیس بنا، جو انڈمان اتھارٹیز کے ایک چھوٹے سے سیکشن نے کیا تھا۔ وہ لوگ اس تفریح گاہ کے قیام کو روکنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کے لیے کلکتہ ہائی کورٹ کی ایک رولنگ کے خلاف اپیل کی تھی، جس نے مذکورہ تفریح گاہ کو جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ بیئر فوٹ نے یہ کیس جیت لیا تھا۔بعض انڈین ٹورزم کمپنیاں جاراوا کے طرز زندگی کے لیے خطرات پیدا کررہی ہیں۔ وہ سیاحوں کو دور دراز اور تنہا مقامات کے بہت قریب لارہی ہیں۔
یہاں پہنچ کر کاروانوں سے مقامی لوگوں کے لیے خوراک اچھالی جاتی ہے۔2012میں ایک سیاح کی بنائی گئی ایک وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک پولیس مین ایک مقامی عورت کو رقص کرنے پر مجبور کررہا ہے۔
انڈیا کی 2001کی مردم شماری کے مطابق انڈمان میں مجموعی طور پر صرف 240 جاراوا ہی باقی بچے ہیں، جن میں سے 236کے مذہب کے خانے میں لکھا ہے:''انہوں نے مذہب کے بارے میں نہیں بتایا۔'' اور چار نے مذہب کے خانے میں اپنا مذہب ہندو لکھوایا تھا۔ دیگر قبائل کے مقابلے میں ایسے قبیلے جو ابھی تک رابطے میں نہیں آئے، ان میں جاراوا کی تعداد زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر 43 انڈمانیوں میں سے 41 ہندو تھے اور 2عیسائی۔ 2001 میں شمار کیے گئے تمام انتالیس سینٹینالیز کا مذہبی وابستگی کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ 96 میں سے صرف 5ہندو تھے اور باقی کے مذہب کا کچھ پتا نہیں تھا۔ بہرحال دور قدیم میں زندہ رہنے والے یہ لوگ آج بھی اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں اور اپنی اقدار اور ثقافت سے پیار کرتے ہیں۔
جزائر انڈمان بحر ہند اور خلیج بنگال میں واقع مجموعہ جزائر ہیں، جو مغرب میں جزیرہ نما انڈیا اور شمال اور مشرق میں برما کے درمیان واقع ہیں۔
اکثر جزائر انڈمان اور نکوبار انڈیا کے زیر انتظام ہیں، جب کہ شمال میں واقع چند جزیرے برما کا حصہ ہیں۔ جزائر انڈمان میں آباد مقامی انڈمانی بہ مشکل ایک ہزار جزیروں پر آباد ہیں۔ یہی اس جگہ کے اصل باشندے ہیں۔ 1850کی دہائی میں پہلی بار ان کا بیرونی دنیا یا بیرونی لوگوں سے رابطہ ہوا تھا۔ اس وقت ان کی آبادی کا تخمینہ 7000افراد کا لگایا گیا تھا۔ مگر اس وقت تک یہ لوگ جو پہلے ایک تھے، درج ذیل گروپوں میں تقسیم ہوچکے تھے۔
یہ عظیم انڈمانی، جاراوا، جنگل، اونج اور سینٹینیلیز تھے۔ اس وقت ہم ان میں سے صرف جاراوا قبائل کے بارے میں بات کریں گے۔
جزائر انڈمان میں رہنے والے ان دیسی و مقامی لوگوں کی موجودہ آبادی کا اندازہ 250سے 400 نفوس کے درمیان لگایا گیا ہے۔ ان قبائل کا بیرونی دنیا سے کوئی ٹھوس قسم کا رابطہ یا واسطہ نہیں رہا ہے۔ انہوں نے خود کو بیرونی دنیا سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ اسی لیے ان کے معاشرے، ثقافت اور رسوم و رواج کے بارے میں بہت کم معلومات مل سکی ہیں اور انہیں بہت کم سمجھا گیا ہے۔ جاراوا کا مطلب ان کی مقامی زبان میں ''غیرملکی'' یا ''دشمن لوگ'' ہے۔
ان جزائر میں آباد دیگر دیسی لوگوں کی طرح انڈمانی لوگ بھی ہزاروں سال سے ان جزائر میں رہتے چلے آرہے ہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں ان کے قیام کی مدت اس سے بھی کہیں زیادہ ہو جو تاریخ داں بتاتے ہیں۔ جزائر انڈمان اس قدر قدیم ہیں کہ عہد وسطیٰ سے بیرونی لوگ یا بیرونی دنیا ان کے بارے میں جانتی تھی۔ تاہم یہاں جدید دور سے پہلے بہت کم لوگ آیا کرتے تھے۔ یہاں کے بیرونی لوگوں یا اقوام سے بہت کم تعلق استوار ہوتے تھے۔ اگر لوگ ان جزائر پر آتے یا یہاں آباد لوگوں سے ملتے تھے، تو ان سے انہوں نے کبھی ٹھوس بنیادوں پر تعلقات استوار نہیں کیے، بلکہ ان تعلقات کی نوعیت غیرمستقل یا عارضی ہوتی تھی۔ ان لوگوں یعنی جاراوا قبائل نے اپنی تاریخ کے بڑے حصے کے دوران اگر کبھی کسی سے قریبی روابط استوار کیے تو وہ صرف ان کے اپنے جیسے دیگر انڈمانی گروپ ہی تھے۔
گویا ان جزائر کی آبادیوں نے باقی دنیا سے الگ تھلگ طویل دور پر مشتمل زندگی گزاری ہے۔ اسی لیے نہ تو انہوں نے بیرونی دنیا کا کوئی اثر قبول کیا اور نہ انہیں اس کا کوئی موقع مل سکا۔ ان پر بیرونی دنیا کے مختلف گروہوں کی ثقافتوں کا کوئی اثر بالکل نظر نہیں آتا۔ لیکن اس بات کے کچھ شواہد ضرور ملے ہیں کہ جاراوا لوگ یہاں پہلے سے موجود جِن گل jingleقبیلے کو اپنا جد امجد قرار دیتے تھے، مگر اب یہ قبیلہ ناپید ہوچکا ہے۔ بعض تاریخ دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ صدیوں یا ہزاروں سال پہلے مذکورہ بالا جن گل قبیلے سے ہی ان لوگوں کے مختلف گروپ یا شاخیں نکلی تھیں۔
تاہم جاراوا قبیلہ اپنے ہی بنیادی اور جد امجد جن گل قبیلے پر کچھ اس طرح غالب آگیا کہ اس نے تعداد میں اس قبیلے کو بہت پیچھے چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں جن گل قبیلے کو لوگوں نے فراموش کردیا اور ہر طرف جاراوا ہی دکھائی دینے لگے۔ جاراوا قبیلے کے جد امجد جن گل قبیلے کو Aka Beaبھی کہا جاتا تھا۔ خیال ہے کہ یہ قبیلہ 1931تک یعنی انڈیا کی آزادی سے کوئی سولہ سال پہلے معدومیت کا شکار ہوگیا۔
ابتدائی آبادیاں:
انیسویں صدی سے پہلے جاراوا کا اصل وطن جنوبی انڈمان جزائر کے جنوب مشرقی حصے یا پھر قریبی چھوٹے ٹاپو اور جزیرے تھے۔ اس کے بعد جب برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کیا تو اس کے آغاز میں ان لوگوں کی تعداد کافی کم ہوگئی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ 1789 کے فوراً بعد یہاں کی آبادی یعنی جاراوا کا بہت بڑا حصہ کسی وبائی مرض کا شکار ہوکر ختم ہوگیا تھا۔ پھر صرف یہی مرض ان لوگوں کی موت کا سبب نہیں بنا تھا، بلکہ انڈمان کے بڑے بڑے قبیلے بھی اسی طرح کی بیماریوں اور شراب نوشی کی کثرت کے باعث مسلسل مرتے چلے گئے۔
رہی سہی کسر برطانوی تباہ کاریوں نے پوری کردی، جس کے باعث یہ قبیلہ اپنا وجود کھوتا چلا گیا۔ اس کے بعد صورت حال ایسی ہوئی کہ دیگر قبائل کو یہاں گھسنے کے لیے مغربی علاقے بالکل کھلے مل گئے، جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان علاقوں کو جاراوا قبائل نے آہستہ آہستہ اپنا نیا وطن بنانا شروع کردیا۔ پھر انڈیا اور برما کے آباد کاروں کی ہجرت یا نقل مکانی بھی یہاں آبادی کی کثرت کا سبب بنی۔ واضح رہے کہ یہ نقل مکانی لگ بھگ دو صدیوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور اس میں بعد کے عرصے میں خاصی تیزی آتی چلی گئی۔
1997میں یہاں کی آبادیوں سے بیرونی لوگوں کے روابط قائم ہونے شروع ہوئے۔ اس سے پہلے یہ قبائل اس بات کے لیے مشہور تھے کہ یہ لوگ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے اور یہ کہ اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے حوالے سے بہت جنونی، پرجوش و پرعزم ہیں، اسی لیے یہ بیرونی قوموں اور لوگوں سے فاصلہ رکھنے کے قائل ہیں۔
بنیادی طور پر یہ یعنی جاراوا قبائل پرامن ہیں اور کسی بھی دوسرے قبیلے پر حملہ کرنے یا اس پر قابض ہونے کے عزائم نہیں رکھتے۔ یہ الگ تھلگ رہنے والے لوگ ہیں اور کسی بھی گروپ کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مگر 1998 میں ان کے انداز اور حکمت عملی میں تبدیلی آئی اور ان لوگوں نے نہ صرف بیرونی دنیا سے تعلقات بڑھانے شروع کردیے، بلکہ دوسرے لوگوں سے ملنے میں خوشی بھی محسوس کرنے لگے۔ اب یہ لوگ دوسرے لوگوں اور اقوام سے ملنا پسند کرتے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ گھل مل کر رہنا چاہتے ہیں، انہیں اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں، مگر خود ان کے پاس جاتے ہوئے یہ قبائل اب بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
بالخصوص اپنے ہاں آنے والے سیاحوں کے ساتھ یہ مضبوط روابط قائم کرنے کے خواہش مند ہیں، ان سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ ایک بدقسمتی یہ لگی ہوئی ہے کہ یہ ماضی میں جن ہول ناک بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں، وہ بیماریاں آج بھی اپنے اندر خطرناک وبائی اثرات رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان سے ملنے جلنے والے ان بیماریوں میں یقینی طور پر مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی ایک بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ وہ دوسروں سے مل کر رہنا چاہتے ہیں، مگر مل نہیں پاتے۔ تاہم جاراوا قبائل پھر بھی دوسروں کے ساتھ دوستی کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی انڈمانی قبیلوں میں صرف سینٹینیلیز ایسے ہیں جو الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں اور وہ اپنے اس فیصلے پر آج بھی سختی سے عمل پیرا ہیں۔ ان کا معاشرہ، ان کی ثقافت اور ان کی روایات جاراوا سے تھوڑی بہت مختلف ہیں، مگر مجموعی طور پر وہ ان جیسے ہی ہیں۔
آج جاراوا کے لوگوں میں اس حد تک لچک آچکی ہے کہ اب یہ بیرونی دنیا سے مستقل رابطے میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی آبادیاں اور بستیاں ان مخصوص علاقوں کے سروں اور کناروں پر واقع ہیں، جہاں مہذب دنیا نے اپنے لیے نئی نئی تفریح گاہیں یا سیرگاہیں بنائی ہیں۔ ان کے ذریعے وہ بیرونی دنیا کے ساتھ روز مرہ رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں انڈمان ٹرنک روڈ بھی واقع ہے۔ یہاں گودیوں کے ساتھ ساتھ بازار بھی ہیں اور اسپتال بھی۔ یہ سب بڑی شاہ راہ کے ساتھ اور تفریح گاہوں کے قریب بستیوں اور آبادیوں میں واقع ہیں۔ اب تو بعض اوقات ان قبائل کے کچھ بچے بھی یہاں کے اسکولوں میں نظر آنے لگے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قبائل اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان قبائل سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دیگر بچوں کے ساتھ تعلیم دلوائیں۔
گریٹ انڈمان ٹرنک روڈ:
حالیہ برسوں میں جاراوا قبائل کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس وقت سامنے آیا جب گریٹ انڈمان ٹرنک روڈ کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ شاہ راہ ان کے نئے مغربی جنگل کے ساتھ ساتھ 1970کی دہائی میں تعمیر ہونی شروع ہوئی تھی۔ 1997 کے اواخر میں جاراوا نے اپنے جنگلات میں آنا شروع کردیا، تاکہ وہ قریبی بستیوں اور آبادیوں کو دیکھ بھی سکیں اور ان کے لوگوں سے مل سکیں۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ مگر پھر ان کی بدقسمتی ان کے آڑے آگئی اور چند مہینوں کے اندر اندر ہی وہاں خسرہ کا مہلک اور وبائی مرض پھوٹ پڑا۔
بعد میں 2006میں جاراوا میں ایک بار پھر خسرہ کی وبا پھیل گئی، تاہم اس بار اس کی شدت میں کچھ کمی دکھائی دی، کیوں کہ علاقے میں اس حوالے سے اموات کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔
ہائی وے کی تعمیر تو اس علاقے کے لوگوں کی سہولت کے لیے کی گئی ہے، لیکن اس کی وجہ سے یہاں کچھ مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی شاہ راہ کی وجہ سے یہاں ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہوگئی، جس کا جی چاہا اس نے یہاں قبضہ جمالیا۔ پھر جاراوا کے قیمتی جانوروں کا غیرقانونی شکار بھی عام ہوگیا اور ساتھ ساتھ یہاں کی زمینوں کو جس انداز سے بیرونی لوگوں نے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا، اس سے مقامی آبادیوں اور لوگوں کی حق تلفی ہونی شروع ہوگئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کلکتہ کے ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک مقدمہ بھی دائر کردیا گیا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس علاقے کی زمینوں اور جنگلوں پر یہاں رہنے والوں کا حق ہے۔
بیرونی لوگوں کا نہیں۔ بعدمیں یہ کیس پبلک انٹریسٹ لٹی گیشن یا PIL کی حیثیت سے سپریم کورٹ آف انڈیا تک جا پہنچا۔ اس کے بعد سوسائٹی فار انڈمان اینڈ نکوبار ایکولوجی، دی بومبے نیچرک ہسٹری سوسائٹی اور پونا بیسڈ کلپا ورشک نامی سوسائٹی بھی اس پیٹیشن میں شامل ہوگئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کی 2001میں ہائی کورٹ نے ایک بے مثال فیصلہ سنایا، جس کے تحت اس نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ جاراوا قبائل کو پورا پورا تحفظ دے اور ان لوگوں کے علاقوں میں تجاوزات کو بھی روکے اور انہیں سکون سے رہنے دیا جائے۔ ہائی کورٹ نے بیماری سے بچائو کے لیے ان لوگوں سے رابطے محدود کرنے کی ہدایت بھی کی اور یہ فیصلہ بھی سنایا کہ وہاں کوئی بھی ایسا نیا پروگرام شروع نہ کیا جائے جس میں جاراوا لوگوں کے کسی بھی علاقے میں کاٹ چھانٹ شامل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے ہائی وے کی توسیع کے تمام منصوبے فوری طور پر روکنے کا حکم دیا، بلکہ ان پر پابندی عائد کردی۔
سیاحت کا اثر:
یہاں کا ایک بہت بڑا مسئلہ سیاحت ہے۔ یہاں انڈیا کے علاوہ بیرون ملک سے بھی بہت سے سیاح بڑے ذوق و شوق سے آتے ہیں۔ وہ یہاں کے علاقوں کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور جاراوا قبائل سے بھی ملنا چاہتے ہیں۔ مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے تمام سیاحتی امور پرائیویٹ کمپنیاں چلارہی ہیں۔ یہاں آنے والے لوگ ان لوگوں کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور بڑی دل چسپی کے ساتھ ان کی تصویریں بھی کھینچتے ہیں۔ یہاں آنے والے سبھی سیاح مقامی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں، اس کے باوجود ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جاراوا قبائل کے ساتھ بات چیت کریں، ان سے تبادلۂ خیال کریں، ان کی بات سمجھنے کی کوشش کریں یا انہیں اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کریں۔ یہ جاراوا لوگ اکثر ہائی وے کے کناروں پر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔
مگر یہ سب انڈین قانون کے تحت غیرقانونی ہے۔ مارچ 2008میں دی ٹورزم ڈپارٹمنٹ آف دی انڈمان اور نکوبار ایڈمنسٹریشن نے ٹور آپریٹرز کو اس حوالے سے ایک تازہ وارننگ جاری کی کہ وہ جاراوا کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی کوشش نہ کریں، نہ ہی ان کی تصاویر کھینچیں، ان کی سرزمین سے گزرتے ہوئے اپنی گاڑیاں درمیان میں نہ روکیں اور نہ ہی انہیں اپنی گاڑیوں میں لفٹ دیں، یہ تمام کام پروٹیکشن آف ابورجینل ٹرابس ریگولیشن 1956 کے تحت ممنوع ہیں۔ اگر کسی نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ تاہم دیکھا اور کہا جارہا ہے کہ ان تمام قوانین کی کھل کر دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ، کیوں کہ 500 سے بھی زیادہ سیاح ہر روز جاراوا کو دیکھنے آتے ہیں اور اس کام میں ان کی معاونت پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ تیکنیکی طور یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ عمل جائز ہے اور اس طرح کے روز مرہ اور مسلسل رابطوں کے ذریعے جاراوا اور ٹور آپریٹرز کے درمیان ریزرو ایریاز میں مضبوط تعلقات استوار کیے جارہے ہیں۔
2006 میں انڈین ٹریول کمپنی بیئر فوٹ نے جاراوا ریزرو سے کوئی تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک تفریح گاہ قائم کی تھی۔ ایسا کیوں ہوا، اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ ایک حالیہ عدالتی کیس بنا، جو انڈمان اتھارٹیز کے ایک چھوٹے سے سیکشن نے کیا تھا۔ وہ لوگ اس تفریح گاہ کے قیام کو روکنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کے لیے کلکتہ ہائی کورٹ کی ایک رولنگ کے خلاف اپیل کی تھی، جس نے مذکورہ تفریح گاہ کو جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ بیئر فوٹ نے یہ کیس جیت لیا تھا۔بعض انڈین ٹورزم کمپنیاں جاراوا کے طرز زندگی کے لیے خطرات پیدا کررہی ہیں۔ وہ سیاحوں کو دور دراز اور تنہا مقامات کے بہت قریب لارہی ہیں۔
یہاں پہنچ کر کاروانوں سے مقامی لوگوں کے لیے خوراک اچھالی جاتی ہے۔2012میں ایک سیاح کی بنائی گئی ایک وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک پولیس مین ایک مقامی عورت کو رقص کرنے پر مجبور کررہا ہے۔
انڈیا کی 2001کی مردم شماری کے مطابق انڈمان میں مجموعی طور پر صرف 240 جاراوا ہی باقی بچے ہیں، جن میں سے 236کے مذہب کے خانے میں لکھا ہے:''انہوں نے مذہب کے بارے میں نہیں بتایا۔'' اور چار نے مذہب کے خانے میں اپنا مذہب ہندو لکھوایا تھا۔ دیگر قبائل کے مقابلے میں ایسے قبیلے جو ابھی تک رابطے میں نہیں آئے، ان میں جاراوا کی تعداد زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر 43 انڈمانیوں میں سے 41 ہندو تھے اور 2عیسائی۔ 2001 میں شمار کیے گئے تمام انتالیس سینٹینالیز کا مذہبی وابستگی کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ 96 میں سے صرف 5ہندو تھے اور باقی کے مذہب کا کچھ پتا نہیں تھا۔ بہرحال دور قدیم میں زندہ رہنے والے یہ لوگ آج بھی اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں اور اپنی اقدار اور ثقافت سے پیار کرتے ہیں۔