تنخواہ دار طبقے نے تاجروں سے 1550 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا
تاجروں کی طرف سے نام نہاد تاجر دوست سکیم کے تحت 100 روپے ماہانہ سے کم ٹیکس کی شرح بھی ادا نہیں کی جاتی
پاکستان میں مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کے صرف تین ماہ میں مجموعی طور پر 111 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا ہے جو حکمران جماعت کے منظور نطر تاجروں کے ادا کردہ ٹیکسوں سے 1550 فیصد اور پچھلے مال سال کی نسبت 56 فیصد زیادہ ہے۔
گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تنخواہ دار افراد نے 71 ارب روپے ادا کیے تھے۔ حکومت نے رواں سال جون میں اخراجات میں کمی اور ٹیکس نیٹ کو موثر انداز میں بڑھانے کے بجائے تنخواہ دار افراد پر ٹیکس بوجھ میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔ 28 ارب روپے کا انکم ٹیکس تمام وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین نے ادا کیا ہے جن کی تنخواہوں میں میں20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا ۔
باقی 83 ارب روپے کا انکم ٹیکس نجی شعبے کے ملازمین نے ادا کیا جن کی اکثریت کو سالانہ انکریمنٹ بھی نہیں ملتی،اس کے مقابلے میں ایف بی آر نے تاجروں سے صرف 6.7 بلین روپے جمع کیے۔
حکومت نے بجٹ میں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی امید رکھتے ہوئے سپلائی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2.5 سے 150 فیصد تک بڑھا دی تھی اس کے باجود تاجروں نے بمشکل ایف بی ار کو براہ راست صرف10 لاکھ روپے ٹیکس ہی ادا کیا جو آئی ایم ایف کی جانب سے دئیے گئے ٹارگٹ کا 0.001 فیصد بنتا ہے ۔
رواں مالی سال کی جولائی تا ستمبر سہ ماہی کے لیے تاجر دوست سکیم کے تحت ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس محصولات کا حجم 10 ارب روپے تھا۔ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے حکومت نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر تقریباً 39 فیصد، ایسوسی ایشن کے لیے 44 فیصد اور غیر تنخواہ دار افراد کے لیے 50 فیصد کر دیا۔ جس کو موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے خود غیر منصفانہ قرار دیا۔
حکومت نے ایک شخص کی طرف سے 10 ملین روپے کی سالانہ آمدن پر ادا کیے جانے والے انکم ٹیکس پر 10 فیصد سرچارج بھی لگا دیا تھا۔ ایف بی آر نے وفاقی کابینہ کو بتایا تھا کہ بجٹ میں ٹیکس کی شرح میں اضافے کے بعد رواں مالی سال 2024-25 میں تنخواہ دار طبقے کی جانب سے اضافی ٹیکس حصہ 85 ارب روپے ہو جائے گا لیکن پہلے تین مہینوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے کے صرف اضافی ٹیکسوں کو کم کیا۔
ایف بی آر نیصرف تین ماہ میں 40 ارب روپے اضافی جمع کر لیے ہیں۔آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے قرضہ پیکیج کے حوالے سیرپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف تنخواہ دار افراد پر مزید بوجھ ڈالنے کے لیے مکمل طور پر متفق ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے دستخط میمورنڈم کے مطابق حکومت ٹیکس کی شرح کو معقول بنا کر اور تنخواہ و غیر تنخواہ دار افراد کے لیے ریٹ سلیب کی تعداد کو پانچ کر کے ٹیکس کی پیداوار میں 357 بلین روپے کا اضافہ کر نے کیلئے پرعزم ہے۔
میمورنڈم کے مطابق غیر تنخواہ دار افراد کیلئے5.6 ملین روپے (سالانہ) سے زیادہ کی زیادہ آمدنی پر سلیب کی شرح کو 45 فیصد تک بڑھدیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے اقتصادی میمورنڈم میں کہا کہ تنخواہ دار افراد کے لیے 5 ویں سلیب پر اوپری حد کو کم کر کے 4.1 ملین روپے سالانہ آمدنی کیا جائے گا۔
ایک طرف تنخواہ دار طبقہ اپنی کم ہوتی آمدنی کے باوجود زیادہ ادائیگی کرنے پر مجبور ہے، وہیں تاجروں سے ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ تاجروں کی طرف سے نام نہاد تاجر دوست سکیم کے تحت 100 روپے ماہانہ سے کم ٹیکس کی شرح بھی ادا نہیں کی جاتی۔
اکتوبر کے وسط تک تاجروں کی طرف سے ٹوٹل ٹیکس کی مد میں صرف 1.2 ملین روپے کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد اس مالی سال میں عام حکومتی ٹیکس محصولات کو جی ڈی پی کے 12.3 فیصد تک مضبوط کرنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ تنخواہ دار افراد پر مزید بوجھ پڑے گا۔
گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تنخواہ دار افراد نے 71 ارب روپے ادا کیے تھے۔ حکومت نے رواں سال جون میں اخراجات میں کمی اور ٹیکس نیٹ کو موثر انداز میں بڑھانے کے بجائے تنخواہ دار افراد پر ٹیکس بوجھ میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔ 28 ارب روپے کا انکم ٹیکس تمام وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین نے ادا کیا ہے جن کی تنخواہوں میں میں20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا ۔
باقی 83 ارب روپے کا انکم ٹیکس نجی شعبے کے ملازمین نے ادا کیا جن کی اکثریت کو سالانہ انکریمنٹ بھی نہیں ملتی،اس کے مقابلے میں ایف بی آر نے تاجروں سے صرف 6.7 بلین روپے جمع کیے۔
حکومت نے بجٹ میں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی امید رکھتے ہوئے سپلائی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2.5 سے 150 فیصد تک بڑھا دی تھی اس کے باجود تاجروں نے بمشکل ایف بی ار کو براہ راست صرف10 لاکھ روپے ٹیکس ہی ادا کیا جو آئی ایم ایف کی جانب سے دئیے گئے ٹارگٹ کا 0.001 فیصد بنتا ہے ۔
رواں مالی سال کی جولائی تا ستمبر سہ ماہی کے لیے تاجر دوست سکیم کے تحت ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس محصولات کا حجم 10 ارب روپے تھا۔ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے حکومت نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر تقریباً 39 فیصد، ایسوسی ایشن کے لیے 44 فیصد اور غیر تنخواہ دار افراد کے لیے 50 فیصد کر دیا۔ جس کو موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے خود غیر منصفانہ قرار دیا۔
حکومت نے ایک شخص کی طرف سے 10 ملین روپے کی سالانہ آمدن پر ادا کیے جانے والے انکم ٹیکس پر 10 فیصد سرچارج بھی لگا دیا تھا۔ ایف بی آر نے وفاقی کابینہ کو بتایا تھا کہ بجٹ میں ٹیکس کی شرح میں اضافے کے بعد رواں مالی سال 2024-25 میں تنخواہ دار طبقے کی جانب سے اضافی ٹیکس حصہ 85 ارب روپے ہو جائے گا لیکن پہلے تین مہینوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے کے صرف اضافی ٹیکسوں کو کم کیا۔
ایف بی آر نیصرف تین ماہ میں 40 ارب روپے اضافی جمع کر لیے ہیں۔آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے قرضہ پیکیج کے حوالے سیرپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف تنخواہ دار افراد پر مزید بوجھ ڈالنے کے لیے مکمل طور پر متفق ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے دستخط میمورنڈم کے مطابق حکومت ٹیکس کی شرح کو معقول بنا کر اور تنخواہ و غیر تنخواہ دار افراد کے لیے ریٹ سلیب کی تعداد کو پانچ کر کے ٹیکس کی پیداوار میں 357 بلین روپے کا اضافہ کر نے کیلئے پرعزم ہے۔
میمورنڈم کے مطابق غیر تنخواہ دار افراد کیلئے5.6 ملین روپے (سالانہ) سے زیادہ کی زیادہ آمدنی پر سلیب کی شرح کو 45 فیصد تک بڑھدیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے اقتصادی میمورنڈم میں کہا کہ تنخواہ دار افراد کے لیے 5 ویں سلیب پر اوپری حد کو کم کر کے 4.1 ملین روپے سالانہ آمدنی کیا جائے گا۔
ایک طرف تنخواہ دار طبقہ اپنی کم ہوتی آمدنی کے باوجود زیادہ ادائیگی کرنے پر مجبور ہے، وہیں تاجروں سے ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ تاجروں کی طرف سے نام نہاد تاجر دوست سکیم کے تحت 100 روپے ماہانہ سے کم ٹیکس کی شرح بھی ادا نہیں کی جاتی۔
اکتوبر کے وسط تک تاجروں کی طرف سے ٹوٹل ٹیکس کی مد میں صرف 1.2 ملین روپے کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد اس مالی سال میں عام حکومتی ٹیکس محصولات کو جی ڈی پی کے 12.3 فیصد تک مضبوط کرنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ تنخواہ دار افراد پر مزید بوجھ پڑے گا۔