ایف بی آر کے متعلقہ افسران ریفنڈز پر پیسے لیتے ہیں چیئرمین ایف بی آر
پاکستان میں 4 کروڑ 30 لاکھ گھر ہیں جن میں سے 40 لاکھ گھروں میں اے سی لگے ہوئے ہیں
چئیرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے ایک بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر کے متعلقہ افسران ریفنڈز پر پیسے لیتے ہیں۔
بدھ کو وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریفنڈ سسٹم کے بارے میں انکشاف کیا کہ ایک سابق ایف بی آر کے افسر سے پوچھا گیا کہ ریفنڈز پر کس حساب سے پیسے لیے جاتے ہیں تو اس افسر نے بتایا کہ جائز ریفنڈز کے کم اور ناجائز ریفنڈز کے زیادہ ہوتے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے میڈیا ٹاک کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صرف12 لوگوں نے اپنے 10ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے ہیں، نان فائلرز کیلیے مختلف اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں، ایمنسٹی اسکیم کا دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا، انسداد اسمگلنگ ہمارا کام ہے۔
کسٹم انٹیلی جنس کو ایک ماہ کیلیے کراچی کے داخلی وخارجی راستوں پر ایکشن کی ہدایت کی گئی ہے، نان رجسٹرڈ بزنس کی بڑی تعداد ہے، قانون سازی کے ذریعے افسران کیلیے اختیارات حاصل کررہے ہیں جو کاروبار رجسٹرڈ نہیں ہوگا اس کاروبار کو سیل بھی کیا جائے گا۔
ایسے کاروبار جس کی سالانہ فروخت 2 کروڑ ہوگی اس پر ایکشن لیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ 90 فیصد افراد ٹیکس نہیں دیتے، پاکستان میں 4 کروڑ 30 لاکھ گھر ہیں جن میں سے 40 لاکھ گھروں میں اے سی لگے ہوئے ہیں، ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح 5 فیصد ہے کیونکہ یہی 5 فیصد لوگ سرمایہ دار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تاجر دوست اسکیم کے ڈیزائن میں مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن اس کا یہ مقصد نہیں ہم پیچھے ہٹ جائیں گے، تاجر برادری سیلز ٹیکس کا قانون تفصیل کے ساتھ پڑھ لے، انھوں نے کہا کہ فلائنگ انوائسز ایک منظم کاروبار بن گیا ہے اور اس کاروبار کی کمپنیاں بھی کھلی ہوئی ہیں۔
یکم جنوری سے تمام گڈز ڈیکلئیریشن پر رینڈملی کام ہوگا، ایک شفاف سسٹم بنا رہے ہیں جو یکم جنوری سے قبل متعارف کرادیا جائے گا۔ تقریب کے دوران چیئرمین ایف بی آر نے ایک افسر کو ٹریڈ باڈی کے مسائل کیلیے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔