امریکی انخلاء سے پہلے ہی معاملات بگڑ گئے
متنازعہ الیکشن، افغانستان عراق کی راہ پر گامزن!
افغانستان میں پانچ اپریل2014ء کو منعقدہ صدارتی انتخابات کے فوری بعد عالمی سطح پر یہ تاثر ابھرا کہ الیکشن نے افغانستان کی تقدیر بدل دی ہے۔
عبداللہ عبداللہ واضح اکثریت کے ساتھ جیتے تو سہی لیکن وہ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرپائے ۔ اس کے باوجود انتخابات کے ''لولی پوپ'' کو افغانستان میں دیر پا قیام امن، سلطانی جمہور کے قیام اور ملک کی ترقی اور خوش حالی کی علامت کے طورپر دیکھا جا رہاہے۔ تاہم یہ تمام خیالات محض''موہوم'' امید ثابت ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات نے افغانستان کا مستقبل مستحکم اور پرامن بنانے کی ضمانت دینے کے بجائے مزید مخدوش کردیا ہے۔
پہلے مرحلے میں حامد کرزئی کے مخالف عبداللہ عبداللہ کی برتری اور دوسرے مرحلے میں انتخابی نتائج میں ڈرامائی تبدیلی اور امریکا مغرب کے ''منظور نظر'' ڈاکٹر اشرف غنی زئی کی کامیابی نے معاملات زیادہ الجھا دیے ہیں۔ 14 جون کو منعقدہ انتخابات اور ان کے نتائج سے ایسے لگ رہا ہے کہ اشرف غنی کو ایک منظم منصوبے کے تحت آگے لایا گیا اور عبداللہ عبداللہ کے قصر صدارت پہنچنے کے خواب چکنا چور کردیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہوا ہے جب امریکا رواں سال کے آخر اور پیش آئند برس کے شروع میں افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ ایسے میں ملک کا سیاسی طورپر عدم استحکام سے دوچارہونا نہایت خطرے کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
سنہ 90ء کے اوائل میں کچھ ایسی ہی صورت اس وقت بھی افغانستان کو درپیش تھی جب گرم پانیوں کی تلاش کے لیے آئے سائبیریا کے سفید ریچھ نے شکست کھاکر افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کیا تو افغانستان کے گلی محلوں میں دسیوں عسکری گروہ مذہبی،لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگے تھے۔ ان کے ''اینٹی تھیسز'' کے نتیجے میں طالبان جیسا مذہبی گروہ وجود میں آیا۔
طالبان کے ملک کے بیشتر حصے پرقبضے تک ہزاروں کی تعداد میں عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور لاکھوں کو گھربار چھوڑنا پڑا تھا۔ افغانستان کے سیاسی پنڈتوں کے نزدیک موجودہ محاذ آرائی بھی کچھ ایسے ہی حالات میں پیدا ہوئی ہے، جب امریکا کی قیادت میں نیٹو فورسز یہاں سے نکل رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا امریکی انخلاء سے افغانستان ایک نئی گرداب بلا کاشکار ہونے جا رہا ہے؟ کیا افغانی اور غیرملکی سیاسی کاری گروں کو اس بگڑتی صورت حال کا ادراک ہے؟
افغانستان کے سیاسی تنازع کی موجودہ تصویرکو ایک دوسرے تناظرمیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ 2011ء میں امریکا نے عراق سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ گوکہ امریکی فوجوں کی واپسی کو ایک سال کا عرصہ لگا مگر جن حالات میں امریکا اور اس کے اتحادی واپس ہوئے وہ دس سال میں عراق کاامن وامان کے حوالے سے بدترین دور تھا۔ القاعدہ کے انڈوں بچوں سے وجود میں آنے والے عسکری گروہ امریکی کٹھ پتلی حکمرانوں کی بینڈ بجا رہے تھے لیکن امریکیوں کو صرف ''محفوظ'' واپسی کی فکر کھائے جارہی تھی۔
چنانچہ امریکی واپس ہوگئے لیکن عراق ایسے عدم استحکام سے دوچار ہوا کہ آج امریکا نواز حکومت بغداد میں اپنی زندگی کے آخری دن گن رہی ہے حالانکہ اسے ایران کی بھی پوری مدد حاصل ہے۔ عراق کے نصف سے زیادہ حصے پر دولت اسلامی عراق وشام(داعش) نے خود ساختہ اسلامی ریاست قائم کررکھی ہے۔ عراق کے موجودہ حالات کو امریکیوں کی واپسی کے بعد کے متوقع نتائج کے طورپر دیکھا جانا چاہیے۔
کم و بیش یہی صورت حال افغانستان میں بنتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ افغانستان میں سیاسی بحران اور انتخابی دھاندلیوں کا ڈرامہ صدر حامد کرزئی کی جانب سے چھوڑا گیا ہے۔ انہوں نے دانستہ طورپر ایسی فضاء پیدا کی تاکہ انہیں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا موقع مل سکے۔ صدارتی انتخابات میں اول درجے پرآنے والے دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے کی حکومتیں تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ''میں نہ مانوں'' جیسے بیانات حامد کرزئی کو مزید ایک سال یا کچھ زیادہ عرصے کے لیے ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
اگرچہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری ہنگامی دورے پر افغانستان پہنچے ہیں۔ کابل ہوائی اڈے پر غیرملکی اخبار نویسوں سے گفتگو میں ان کی بدن بولی سے اندازہ ہوتا تھا کہ امریکا کو افغانستان کے سیاسی بحران کے حل میں کافی دلچسپی ہے، لیکن ان کے انداز گفتگو سے یہ بھی انداز ہورہا تھا کہ امریکا افغانستان میں کسی ایسے شخص کو صدربنانے کا خواہاں ہے جو اپنی تمام ترتوانائیاں امریکی خاکے میں رنگ بھرنے پر صرف کرے۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر اشرف غنی ہی زیادہ موزوں ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ شاید امریکی توقعات پرپورے نہ اتریں کہ ان کا ماضی ''جہاد'' کی حمایت سے ''داغ دار'' رہے۔
امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی زئی نے دوسرے مرحلے میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ ووٹوں کی گنتی اصل مسئلہ نہیں،بوگس ووٹ کئی دوسرے طریقوں سے ڈالے گئے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ جن حلقوں میں پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ کو اکثریت کے ساتھ ووٹ ملے وہاں دوسرے مرحلے میں بیلٹ بکس ہی غائب کردیے گئے ہیں۔ جبکہ اشرف غنی کے اکثریتی حلقوں میں کہیں ایک جگہ بھی بیلٹ بکسوں کی پُراسرار گم شدگی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں آئی۔اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دھاندلی کی شکایات عبداللہ عبداللہ کی جانب سے سامنے آئی ہیں۔اگرچہ اشرف غنی نے بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ انتخابات میں اب جس امیدوار کی بھی فتح ہو تاہم نتائج متنازعہ ہوچکے ہیں، جو مستقبل کے سیاسی تناؤ کی بنیاد بنتے رہیں گے۔
دھاندلی کی شکایات کے بعد کچھ با اثرسیاسی حلقوں کی جانب سے عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان قربتیں بڑھانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ان کوششوںکا مقصد عبداللہ عبداللہ کی زبان کو لگام دینا اور نتائج کو 'جیسے ہیں جو بھی ہیں' کی بنیاد پرقبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ تا دم تحریر عبداللہ عبداللہ نے کسی مفاہمتی عمل میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے تاہم امریکی وزیرخارجہ جان کیری بھی ان سے ملاقات کریں گے، جس کے بعد ان کے موقف میں تبدیلی ممکن ہے۔
امریکی اخبار''نیویارک ٹائمز'' کے مطابق افغانستان میں موجودہ سیاسی بحران امریکا کے لیے سخت آزمائش ہے۔ تیرہ سال تک افغانستان میں''جھک مارنے'' کے باوجود امن کی آشا کا نام ونشان تک نہیں ملتا۔ ایسے میں موجودہ سیاسی بحران کو امریکا کے لیے ایک کڑی آزمائش کے طورپر دیکھا جار ہا ہے۔ جان کیری نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ امریکا کی حقیقی پریشانی کا مظہر ہے۔ موجودہ حالات میں اگر افغانستان عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو امریکیوں کی واپسی محفوظ نہیں بلکہ کشت و خون کے ساتھ ہی ہوگی۔
اشرف غنی امریکا اور مغرب کا منظور نظر؟
ڈاکٹر اشرف غنی زئی پانچ اپریل کے صدارتی دنگل میں عبداللہ عبداللہ کے بعد دوسرے نمبر پررہے۔ حامد کرزئی کا ہم قبیلہ ہونے کی بناء پرحامد کرزئی کے بھائی عبدالقیوم کرزئی اشرف غنی کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ شروع میں لگ رہا تھا کہ حکمران دھڑے کا وزن اشرف غنی کے پلڑے میں ہے، تاہم حامد کرزئی کی مغرب نواز پالیسیوں سے نالاں عوام نے عبداللہ عبداللہ کو نسبتاً زیادہ اعتدال پسند خیال کیا اوران کی کھلی حمایت کی تھی۔
نتائج جب حامد کرزئی اور امریکیوں کی مرضی کے مطابق نہ آئے تو درپردہ ہاتھ کو استعمال کرکے اشرف غنی کو بھاری اکثریت سے جتوا دیاگیا ہے۔ اگرچہ حتمی اور سرکاری نتائج کااعلان بائیس جولائی کو ہوگا تاہم اس وقت تک افغانستان کی سیاست میں کوئی ''انہونی'' ہوسکتی ہے۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں وقت لگ سکتا ہے۔ اگر غیرملکی مبصرین کی نگرانی میں جانچ پڑتال کرائی گئی تو نتائج کافی حد تک بدل سکتے ہیں، لیکن یہ کام دوبارہ کرزئی سرکار کو سونپا گیا اشرف غنی کی جیت اور افغان عوام کی ہار یقینی ہوگی۔
جہاں تک اشرف غنی کے خیالات اور افکار و نظریات کا تعلق ہے تو وہ امریکا اور مغرب کے یکساں منظور نظرہیں۔ وہ امریکا سے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی مالیاتی اداروں میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اہلیہ لبنانی نژاد عیسائی خاتون ہیں۔موصوف نے امریکا اور افغانستان کے درمیان اس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کا بھی اعلان کررکھا ہے جس پر موجودہ صدرحامد کرزئی دستخط کرنے سے انکاری رہے ہیں۔ یہ معاہدہ امریکیوں کو اس امرکی ضمانت دے گا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے افغان شہریوں کے گھروں میں گھس کر تلاشی لے سکیں گے۔
ان کے مد مقابل عبداللہ عبداللہ جہادی پس منظر کے حامل ہیں۔ نسلی طورپر وہ تاجک اور پختون ہیں۔ تاہم آج کل کے حالات میں وہ پختونوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ یادرہے کہ ملک کی پختون آبادی ہی امریکیوں کے خلاف مزاحمت میں سب سے آگے ہے۔ ماضی میںبھی عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد کے مقتول کمانڈر احمد شاہ مسعود کے مقرب خاص رہ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دور میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ افغان مجاہدین کا علاج اور اس کا فخریہ اظہار کرتے رہے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ کے جہادی پس منظر اور ڈاکٹر اشرف غنی کے مغربی میلان وہ بنیادی وجوہات ہیںجن کی بناء پر امریکا اور مغرب دونوں کو الگ الگ انداز میں ڈیل کر رہاہے ۔ افغانستان کی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات صرف ایک بہانہ ہیں ورنہ صدر وہی بنے گا جسے امریکا چاہے گا۔ امریکا نے اپنی مرضی سے حامد کرزئی کو صدر بنایا اور وہ پچھلے دس سال سے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ امریکیوں کو ایسے ہی شخص کی تلاش ہے جو افغانستان میں کرپشن کی سیاست کے ساتھ ساتھ امریکیوں کی مالا جپتا رہے۔ عبداللہ عبداللہ اس باب میں امریکیوں کے اعتماد پر پورے اترتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس مقصد کے لیے انہیں اشرف غنی ہی فیورٹ ہوسکتے ہیں۔
ماضی کی نسبت عبداللہ عبداللہ کا اب پاکستان کے بارے میں نقطہ نظر کسی حد تک اعتدال پسندانہ ہے جبکہ اشرف غنی بھارت کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں پاکستان کی مخالفت کی قیمت پر ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں پاکستان کے خلاف افغانستان کے ''شکایتی ٹٹو'' کے طور پر شہرت پا چکے ہیں وہ اگلے پانچ سال اقتدار میں رہ کر اسلام آباد کے خلاف زہر افشانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ ظاہر ہے اگر ایسا ہوا تو نئی افغان قیادت کو طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حمایت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ نتیجتاً پاکستان کی ہمدردیاں افغان طالبان سے زیادہ ہوں گی اور دونوں طرف کی آگ زیادہ شدت اختیار کرے گی۔
پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ''ضرب عضب'' فوجی آپریشن گوکہ ایک الگ موضوع ہے مگرموجودہ حالات میں اسے افغانستان کے سیاسی منظرنامے سے مربوط سمجھا جا رہا ہے۔ افغانستان میں جتنی اہمیت وہاں کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو حاصل ہے اتنی ہی اہمیت ضرب عضب اور اس کے افغانستان کی سلامتی پر مضمرات کوبھی حاصل ہے۔ کابل میں ان دنوں بحث کا یہ اہم موضوع ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے فرار کے بعد طالبان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہوگا۔
طالبان افغانستان کے پاکستان کی سرحد سے متصل صوبہ کنڑ، پکتیا اور پکیتکا کو دوسرا شمالی وزیرستان بنانا چاہتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان تینوں سرحدی صوبوں پرافغان اور ایساف سیکیورٹی فورسز کا کوئی کنٹرول نہیں۔ حکومتی عمل داری سے باہر ہونے کی بناء پر پاکستان سے طالبان عناصر کے فرار کے بعد یہ علاقے ہی ان کا اگلا مرکز بن رہے ہیں۔ضرب عضب آپریشن کے دوران طالبان کے مبینہ ٹھکانوں سے جو لٹریچر ملا ہے، وہ بھی طالبان کی سرحد پار موجودگی کی چغلی کھاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے نتائج ایسے وقت میں تنازع کا شکار ہوئے ہیں جب ملک داخلی سلامتی کے ایک خطرناک دور کی جانب بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔موجودہ حالات میں امریکا، افغان حکومت، صدارتی امیدوار اور پاکستان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو نہایت احتیاط سے کام لینا ہوگا ورنہ افغانستان ایک نیا عراق بھی بن سکتا ہے۔
عبداللہ عبداللہ واضح اکثریت کے ساتھ جیتے تو سہی لیکن وہ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرپائے ۔ اس کے باوجود انتخابات کے ''لولی پوپ'' کو افغانستان میں دیر پا قیام امن، سلطانی جمہور کے قیام اور ملک کی ترقی اور خوش حالی کی علامت کے طورپر دیکھا جا رہاہے۔ تاہم یہ تمام خیالات محض''موہوم'' امید ثابت ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات نے افغانستان کا مستقبل مستحکم اور پرامن بنانے کی ضمانت دینے کے بجائے مزید مخدوش کردیا ہے۔
پہلے مرحلے میں حامد کرزئی کے مخالف عبداللہ عبداللہ کی برتری اور دوسرے مرحلے میں انتخابی نتائج میں ڈرامائی تبدیلی اور امریکا مغرب کے ''منظور نظر'' ڈاکٹر اشرف غنی زئی کی کامیابی نے معاملات زیادہ الجھا دیے ہیں۔ 14 جون کو منعقدہ انتخابات اور ان کے نتائج سے ایسے لگ رہا ہے کہ اشرف غنی کو ایک منظم منصوبے کے تحت آگے لایا گیا اور عبداللہ عبداللہ کے قصر صدارت پہنچنے کے خواب چکنا چور کردیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہوا ہے جب امریکا رواں سال کے آخر اور پیش آئند برس کے شروع میں افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ ایسے میں ملک کا سیاسی طورپر عدم استحکام سے دوچارہونا نہایت خطرے کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
سنہ 90ء کے اوائل میں کچھ ایسی ہی صورت اس وقت بھی افغانستان کو درپیش تھی جب گرم پانیوں کی تلاش کے لیے آئے سائبیریا کے سفید ریچھ نے شکست کھاکر افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کیا تو افغانستان کے گلی محلوں میں دسیوں عسکری گروہ مذہبی،لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگے تھے۔ ان کے ''اینٹی تھیسز'' کے نتیجے میں طالبان جیسا مذہبی گروہ وجود میں آیا۔
طالبان کے ملک کے بیشتر حصے پرقبضے تک ہزاروں کی تعداد میں عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور لاکھوں کو گھربار چھوڑنا پڑا تھا۔ افغانستان کے سیاسی پنڈتوں کے نزدیک موجودہ محاذ آرائی بھی کچھ ایسے ہی حالات میں پیدا ہوئی ہے، جب امریکا کی قیادت میں نیٹو فورسز یہاں سے نکل رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا امریکی انخلاء سے افغانستان ایک نئی گرداب بلا کاشکار ہونے جا رہا ہے؟ کیا افغانی اور غیرملکی سیاسی کاری گروں کو اس بگڑتی صورت حال کا ادراک ہے؟
افغانستان کے سیاسی تنازع کی موجودہ تصویرکو ایک دوسرے تناظرمیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ 2011ء میں امریکا نے عراق سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ گوکہ امریکی فوجوں کی واپسی کو ایک سال کا عرصہ لگا مگر جن حالات میں امریکا اور اس کے اتحادی واپس ہوئے وہ دس سال میں عراق کاامن وامان کے حوالے سے بدترین دور تھا۔ القاعدہ کے انڈوں بچوں سے وجود میں آنے والے عسکری گروہ امریکی کٹھ پتلی حکمرانوں کی بینڈ بجا رہے تھے لیکن امریکیوں کو صرف ''محفوظ'' واپسی کی فکر کھائے جارہی تھی۔
چنانچہ امریکی واپس ہوگئے لیکن عراق ایسے عدم استحکام سے دوچار ہوا کہ آج امریکا نواز حکومت بغداد میں اپنی زندگی کے آخری دن گن رہی ہے حالانکہ اسے ایران کی بھی پوری مدد حاصل ہے۔ عراق کے نصف سے زیادہ حصے پر دولت اسلامی عراق وشام(داعش) نے خود ساختہ اسلامی ریاست قائم کررکھی ہے۔ عراق کے موجودہ حالات کو امریکیوں کی واپسی کے بعد کے متوقع نتائج کے طورپر دیکھا جانا چاہیے۔
کم و بیش یہی صورت حال افغانستان میں بنتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ افغانستان میں سیاسی بحران اور انتخابی دھاندلیوں کا ڈرامہ صدر حامد کرزئی کی جانب سے چھوڑا گیا ہے۔ انہوں نے دانستہ طورپر ایسی فضاء پیدا کی تاکہ انہیں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا موقع مل سکے۔ صدارتی انتخابات میں اول درجے پرآنے والے دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے کی حکومتیں تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ''میں نہ مانوں'' جیسے بیانات حامد کرزئی کو مزید ایک سال یا کچھ زیادہ عرصے کے لیے ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
اگرچہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری ہنگامی دورے پر افغانستان پہنچے ہیں۔ کابل ہوائی اڈے پر غیرملکی اخبار نویسوں سے گفتگو میں ان کی بدن بولی سے اندازہ ہوتا تھا کہ امریکا کو افغانستان کے سیاسی بحران کے حل میں کافی دلچسپی ہے، لیکن ان کے انداز گفتگو سے یہ بھی انداز ہورہا تھا کہ امریکا افغانستان میں کسی ایسے شخص کو صدربنانے کا خواہاں ہے جو اپنی تمام ترتوانائیاں امریکی خاکے میں رنگ بھرنے پر صرف کرے۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر اشرف غنی ہی زیادہ موزوں ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ شاید امریکی توقعات پرپورے نہ اتریں کہ ان کا ماضی ''جہاد'' کی حمایت سے ''داغ دار'' رہے۔
امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی زئی نے دوسرے مرحلے میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ ووٹوں کی گنتی اصل مسئلہ نہیں،بوگس ووٹ کئی دوسرے طریقوں سے ڈالے گئے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ جن حلقوں میں پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ کو اکثریت کے ساتھ ووٹ ملے وہاں دوسرے مرحلے میں بیلٹ بکس ہی غائب کردیے گئے ہیں۔ جبکہ اشرف غنی کے اکثریتی حلقوں میں کہیں ایک جگہ بھی بیلٹ بکسوں کی پُراسرار گم شدگی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں آئی۔اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دھاندلی کی شکایات عبداللہ عبداللہ کی جانب سے سامنے آئی ہیں۔اگرچہ اشرف غنی نے بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ انتخابات میں اب جس امیدوار کی بھی فتح ہو تاہم نتائج متنازعہ ہوچکے ہیں، جو مستقبل کے سیاسی تناؤ کی بنیاد بنتے رہیں گے۔
دھاندلی کی شکایات کے بعد کچھ با اثرسیاسی حلقوں کی جانب سے عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان قربتیں بڑھانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ان کوششوںکا مقصد عبداللہ عبداللہ کی زبان کو لگام دینا اور نتائج کو 'جیسے ہیں جو بھی ہیں' کی بنیاد پرقبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ تا دم تحریر عبداللہ عبداللہ نے کسی مفاہمتی عمل میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے تاہم امریکی وزیرخارجہ جان کیری بھی ان سے ملاقات کریں گے، جس کے بعد ان کے موقف میں تبدیلی ممکن ہے۔
امریکی اخبار''نیویارک ٹائمز'' کے مطابق افغانستان میں موجودہ سیاسی بحران امریکا کے لیے سخت آزمائش ہے۔ تیرہ سال تک افغانستان میں''جھک مارنے'' کے باوجود امن کی آشا کا نام ونشان تک نہیں ملتا۔ ایسے میں موجودہ سیاسی بحران کو امریکا کے لیے ایک کڑی آزمائش کے طورپر دیکھا جار ہا ہے۔ جان کیری نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ امریکا کی حقیقی پریشانی کا مظہر ہے۔ موجودہ حالات میں اگر افغانستان عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو امریکیوں کی واپسی محفوظ نہیں بلکہ کشت و خون کے ساتھ ہی ہوگی۔
اشرف غنی امریکا اور مغرب کا منظور نظر؟
ڈاکٹر اشرف غنی زئی پانچ اپریل کے صدارتی دنگل میں عبداللہ عبداللہ کے بعد دوسرے نمبر پررہے۔ حامد کرزئی کا ہم قبیلہ ہونے کی بناء پرحامد کرزئی کے بھائی عبدالقیوم کرزئی اشرف غنی کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ شروع میں لگ رہا تھا کہ حکمران دھڑے کا وزن اشرف غنی کے پلڑے میں ہے، تاہم حامد کرزئی کی مغرب نواز پالیسیوں سے نالاں عوام نے عبداللہ عبداللہ کو نسبتاً زیادہ اعتدال پسند خیال کیا اوران کی کھلی حمایت کی تھی۔
نتائج جب حامد کرزئی اور امریکیوں کی مرضی کے مطابق نہ آئے تو درپردہ ہاتھ کو استعمال کرکے اشرف غنی کو بھاری اکثریت سے جتوا دیاگیا ہے۔ اگرچہ حتمی اور سرکاری نتائج کااعلان بائیس جولائی کو ہوگا تاہم اس وقت تک افغانستان کی سیاست میں کوئی ''انہونی'' ہوسکتی ہے۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں وقت لگ سکتا ہے۔ اگر غیرملکی مبصرین کی نگرانی میں جانچ پڑتال کرائی گئی تو نتائج کافی حد تک بدل سکتے ہیں، لیکن یہ کام دوبارہ کرزئی سرکار کو سونپا گیا اشرف غنی کی جیت اور افغان عوام کی ہار یقینی ہوگی۔
جہاں تک اشرف غنی کے خیالات اور افکار و نظریات کا تعلق ہے تو وہ امریکا اور مغرب کے یکساں منظور نظرہیں۔ وہ امریکا سے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی مالیاتی اداروں میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اہلیہ لبنانی نژاد عیسائی خاتون ہیں۔موصوف نے امریکا اور افغانستان کے درمیان اس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کا بھی اعلان کررکھا ہے جس پر موجودہ صدرحامد کرزئی دستخط کرنے سے انکاری رہے ہیں۔ یہ معاہدہ امریکیوں کو اس امرکی ضمانت دے گا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے افغان شہریوں کے گھروں میں گھس کر تلاشی لے سکیں گے۔
ان کے مد مقابل عبداللہ عبداللہ جہادی پس منظر کے حامل ہیں۔ نسلی طورپر وہ تاجک اور پختون ہیں۔ تاہم آج کل کے حالات میں وہ پختونوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ یادرہے کہ ملک کی پختون آبادی ہی امریکیوں کے خلاف مزاحمت میں سب سے آگے ہے۔ ماضی میںبھی عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد کے مقتول کمانڈر احمد شاہ مسعود کے مقرب خاص رہ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دور میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ افغان مجاہدین کا علاج اور اس کا فخریہ اظہار کرتے رہے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ کے جہادی پس منظر اور ڈاکٹر اشرف غنی کے مغربی میلان وہ بنیادی وجوہات ہیںجن کی بناء پر امریکا اور مغرب دونوں کو الگ الگ انداز میں ڈیل کر رہاہے ۔ افغانستان کی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات صرف ایک بہانہ ہیں ورنہ صدر وہی بنے گا جسے امریکا چاہے گا۔ امریکا نے اپنی مرضی سے حامد کرزئی کو صدر بنایا اور وہ پچھلے دس سال سے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ امریکیوں کو ایسے ہی شخص کی تلاش ہے جو افغانستان میں کرپشن کی سیاست کے ساتھ ساتھ امریکیوں کی مالا جپتا رہے۔ عبداللہ عبداللہ اس باب میں امریکیوں کے اعتماد پر پورے اترتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس مقصد کے لیے انہیں اشرف غنی ہی فیورٹ ہوسکتے ہیں۔
ماضی کی نسبت عبداللہ عبداللہ کا اب پاکستان کے بارے میں نقطہ نظر کسی حد تک اعتدال پسندانہ ہے جبکہ اشرف غنی بھارت کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں پاکستان کی مخالفت کی قیمت پر ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں پاکستان کے خلاف افغانستان کے ''شکایتی ٹٹو'' کے طور پر شہرت پا چکے ہیں وہ اگلے پانچ سال اقتدار میں رہ کر اسلام آباد کے خلاف زہر افشانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ ظاہر ہے اگر ایسا ہوا تو نئی افغان قیادت کو طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حمایت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ نتیجتاً پاکستان کی ہمدردیاں افغان طالبان سے زیادہ ہوں گی اور دونوں طرف کی آگ زیادہ شدت اختیار کرے گی۔
پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ''ضرب عضب'' فوجی آپریشن گوکہ ایک الگ موضوع ہے مگرموجودہ حالات میں اسے افغانستان کے سیاسی منظرنامے سے مربوط سمجھا جا رہا ہے۔ افغانستان میں جتنی اہمیت وہاں کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو حاصل ہے اتنی ہی اہمیت ضرب عضب اور اس کے افغانستان کی سلامتی پر مضمرات کوبھی حاصل ہے۔ کابل میں ان دنوں بحث کا یہ اہم موضوع ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے فرار کے بعد طالبان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہوگا۔
طالبان افغانستان کے پاکستان کی سرحد سے متصل صوبہ کنڑ، پکتیا اور پکیتکا کو دوسرا شمالی وزیرستان بنانا چاہتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان تینوں سرحدی صوبوں پرافغان اور ایساف سیکیورٹی فورسز کا کوئی کنٹرول نہیں۔ حکومتی عمل داری سے باہر ہونے کی بناء پر پاکستان سے طالبان عناصر کے فرار کے بعد یہ علاقے ہی ان کا اگلا مرکز بن رہے ہیں۔ضرب عضب آپریشن کے دوران طالبان کے مبینہ ٹھکانوں سے جو لٹریچر ملا ہے، وہ بھی طالبان کی سرحد پار موجودگی کی چغلی کھاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے نتائج ایسے وقت میں تنازع کا شکار ہوئے ہیں جب ملک داخلی سلامتی کے ایک خطرناک دور کی جانب بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔موجودہ حالات میں امریکا، افغان حکومت، صدارتی امیدوار اور پاکستان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو نہایت احتیاط سے کام لینا ہوگا ورنہ افغانستان ایک نیا عراق بھی بن سکتا ہے۔