کیا اسرائیل فلسطینیوں سے بنو نضیر کی ذلت کا بدلہ لے رہا ہے

اسرائیل نے ایسا قانون بنادیا کہ فلسطینی اپنے آشیانے اپنے ہاتھوں سے گرانے پر مجبور ہوگئے

یہودیوں نے بنونضیر کا واقعہ نہیں بھلایا۔ (فوٹو: فائل)

یہودی وہ قوم ہے جو حق اور سچ کا علم ہونے کے باوجود محض اپنی انا، نسلی تعصب اور ہٹ دھرمی کے باعثٖ اسے تسلیم نہیں کرتی۔


نبیﷺ کی ہجرت کے وقت مدینے میں آباد یہودی اسلام کی حقانیت اور محمد ﷺ کے نبی ہونے سے پوری طرح باخبر تھے لیکن وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اس وجہ سے ایمان نہیں لائے کہ نبیﷺ کا تعلق یہود سے نہیں بلکہ بنو اسماعیل سے تھا۔ یہود وہ قوم ہے جو علم ہونے کے باوجود گمراہ ہوئی۔


اسرائیل 1948 میں اپنے قیام کے بعد سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑٖ رہا ہے اور حالیہ غزہ جنگ میں اس نے ظلم کے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔


یہود اپنی تاریخ سے پوری طرح باخبر ہیں اور انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ان کے آباء و اجداد کو حجاز سے نکالا اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط کی۔


غزوہ بنو نضیر میں مسلمانوں نے یہود کے قلعوں کا محاصرہ کیا جس کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔ نبیﷺ نے یہود کو جلاوطنی کا حکم دیتے ہوئے انہیں اونٹوں پر اپنا مال و اسباب لے جانے کی اجازت دی۔


اس موقع پر سورۃ الحشر کی یہ آیت نازل ہوئی


هو الذي أخرج الذين كفروا من أهل الكتاب من ديارهم لأول الحشر ۚ ما ظننتم أن يخرجوا ۖ وظنوا أنهم مانعتهم حصونهم من الله فأتاهم الله من حيث لم يحتسبوا ۖ وقذف في قلوبهم الرعب ۚ يخربون بيوتهم بأيديهم وأيدي المؤمنين فاعتبروا يا أولي الأبصار


ترجمہ: وہی تو ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کافروں [١] کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تمہیں یہ خیال بھی نہ تھا کہ وہ (اپنے گھروں سے) نکل جائیں گے [٢] اور وہ یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچالیں [٣] گے۔ مگر اللہ نے ایسے رخ سے انہیں آلیا جس کا انہیں خواب و خیال بھی نہ تھا۔ اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بھی کروانے لگے۔ پس اے اہل بصیرت! عبرت حاصل کرو۔


اب مال کی ہوس میں مبتلا یہود کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ مال نکال کر لے جاسکیں۔ اس کے لیے وہ اپنے مکانوں کی چھتیں اکھاڑ اکھاڑ کر ان کی لکڑیاں اپنے اونٹوں پر لادنے لگے۔ وہ نہ صرف خود ہی اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو مسمار کر رہے تھے بلکہ مسلمان سے بھی مدد مانگ رہے تھے کہ ہمارے گھروں کو مسمار کرنے میں ہماری مدد کرو۔


لگتا ہے اپنی اس ذلت کا بدلہ یہود نہیں بھولے اور آج مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے اس کا بدلہ لے رہے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس جسے مشرقی یروشلم کہا جاتا ہے وہاں اسرائیلی حکومت نے ایسا قانون منظور کیا کہ صدیوں سے آباد فلسطینی مسلمان خود اپنے ہاتھوں اپنے گھر منہدم کرنے پر مجبور ہوگئے۔


یروشلم مقبوضہ فلسطین کے سب سے زیادہ گنجان آباد حصوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اردن سے چھین کر اس پر قبضہ کرلیا تھا لیکن بین الاقوامی سطح پر آج بھی اسے فلسطینی سرزمین سمجھا جاتا ہے اور عالمی برادری بھی اس پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیتی ہے، لیکن اسرائیل کو کسی کی کیا پروا۔



اسرائیل کی جانب سے منظور کردہ قانون کے مطابق وہاں گھر بنانے کےلیے حکومت سے اجازت نامہ لینا ضروری ہے۔ اور یہ قانون ایسا ہے کہ صدیوں سے آباد فلسطینوں کےلیے بھی مکان تعمیر کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ وہ چاہے کتنی ہی درخواستیں دے دیں تمام درخواستوں کو اسرائیل مسترد کردیتا ہے۔


اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2015 میں ایک بھی بلڈنگ پرمٹ جاری نہیں کیا گیا جبکہ 2014 میں صرف ایک پرمٹ جاری کیا گیا تھا۔


اب فلسطینی سر چھپانے کےلیے اپنی آبائی زمین پر گھر تعمیر کرتے ہیں تو اسرائیلی حکومت کچھ عرصے بعد ہی انہیں غیر قانونی قرار دے کر نوٹس جاری کردیتی ہے۔


لیکن اس معاملے میں سب سے اہم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ گھر فلسطینیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے منہدم کرنے پڑتے ہیں۔ دراصل اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو مکان گرانے کا نوٹس بھیجتی ہے کہ مقررہ مدت میں مکان خود گرادیں اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اسرائیلی انتظامیہ خود آکر ان کا گھر توڑے گی اور اس کی فیس بھی خود فلسطینیوں سے ہی وصول کی جائے گی جس کی رقم اتنی زیادہ ہے کہ سن کر کسی بھی شخص کے ہوش اڑ جائیں۔ یہ رقم فلسطینیوں کی عمر بھر کی کمائی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔


جی ہاں یروشلم سٹی اتھارٹیز کی جانب سے فسلطینی خاندان کو ایک گھر منہدم کرنے کا بل ایک لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ اس خوف سے فلسطینی اپنے آشیانے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو خود اپنے ہاتھوں توڑتے ہیں کہ ایسا نہ کرنے کی سزا ان کےلیے زیادہ بھیانک ثابت ہوسکتی ہے۔


اسرائیل میں انسانی حقوق کی تنظیم بتسلیم کے مطابق فلسطینیوں کی گھر تعمیر کرنے کی 95 فیصد درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں جبکہ یہودی آباد کاروں کی گھروں کی تعمیرات کی درخواستوں کی منظوری کا تناسب 100 فیصد ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے یہ کہ قانون محض ارض مقدس سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے منظم منصوبے کے سوا کچھ نہیں۔


ایسے میں فلسطینیوں کے پاس بلااجازت گھروں کی تعمیر کے سوا کوئی راستہ نہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آخرکار کسی نہ کسی روز انہیں خود اپنے ہاتھوں سے اپنے سائبانوں کو گرانا ہی ہوگا۔ ان کی متاع حیات لٹنے کا یہ سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے لیکن عالمی انسانی حقوق کے ٹھیکے دار تماشائی ہیں۔ فلسطینیوں کے گھروں کو اس بے دردی سے منہدم کرنے کے اس سارے گھناؤنے عمل کو دیکھ کر ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہودیوں نے بنونضیر کا واقعہ بھلایا نہیں۔


ایسے میں ایک بار پھر مسلمانوں کو اپنی تاریخ دہرانے اور اسوۂ رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے جہاد کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں قبلہ اول کی آزادی کا خواب پورا ہوگا۔ اسوۂ رسول ﷺ پر عمل کرکے ہی پنجہ یہود سے بیت المقدس آزاد ہوگا اور یہودیوں کی عالمی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story