وائس چانسلرز کی تقرری سے جڑے مسائل

سلمان عابد  جمعـء 18 اکتوبر 2024
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے جڑے معاملات یا مسائل کافی سنگین ہیں۔ حکومت ہو یا فیصلہ ساز ادارے، مسائل حل کرنے کے بجائے الجھانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ بنیادی وجہ اقربا پروری، ذاتی دوستیاں ، سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں۔ ہر دور کی حکومت یہی کہتی چلی آرہی ہے کہ ہماری ترجیحات میرٹ، شفافیت اور کارکردگی ہیں جب کہ اگرصرف پچھلے بیس برس کے حقائق کی چھان بین کی جائے تو پتہ چل جائے کہ اعلیٰ تعلیم کے نام پر کتنے نالائقوں کو نوازا گیا ہے۔ پنجاب میں سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری ہمیشہ سے ہی جوڑ توڑ کا کھیل رہی ہے ، ایڈہاک یعنی قائم مقام وائس چانسلرز کو تعینات کرنا بھی دراصل اسی کھیل کا حصہ ہے۔

ایسے فیصلے یقینی طور پر شفافیت سے محروم ہوتے ہیں۔ بہرحال موجودہ پنجاب حکومت نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب کی تمام جامعات جہاں قائم مقام وائس چانسلرز کام کررہے تھے، وہاں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل شروع کردیاہے۔ اس مقصد کے لیے تین سرچ کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی ۔ان تینوں میں مختلف درجہ بندی کے تحت جامعات کا چناؤ کیا گیا اور سرچ کمیٹیوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ میرٹ پر مستقل وائس چانسلرز کی تقرری کو یقینی بنائیں ۔ اب ان اہم عہدوں کو حاصل کرنا، سب کی ترجیح ہوتی ہے، اس لیے جوڑ توڑ کا عمل بھی شروع ہوتا ہے، منفی اطلاعات اور خبریں بھی پھیلائی جاتی ہیں لہذا اب بھی ایسا ہورہا ہے اور یہ ایک فطری بات ہے۔ ظاہراً وائس چانسلر بننے کے لیے سب اپنا اپنا زور لگاتے ہیں۔

عہدے کم اور امیدوار زیادہ ہوتے ہیں اور تمام امیدوار کسی نہ کسی حوالے سے بااثر بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے قیاس آرائیوں، منفی و مثبت اطلاعات کا سیلاب آتا ہے۔جسے عہدہ مل جاتا ہے، اس کے حامی کہتے ہیں کہ فیصلہ میرٹ پر ہوا ہے ، جو محروم رہ جاتے ہیں، ان کی نظر میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں، دوستیاں کام آئی ہیں، جیسی خبریں گشت کرتی ہیں ۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی اور عہدے سے محروم رہنے والے کہہ رہے ہیں کہ سرچ کمیٹیوں میں کئی لوگ اعلیٰ تعلیم کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے اور انھیں نہ تعلیمی ادارے چلانے کا کوئی تجربہ ہے ۔ کوئی کہتا ہے، سرچ کمیٹیوں میں بیوروکریسی کا غلبہ تھا ۔ پھر گورنر پنجاب کی باتوں سے ایسی خبروں کو مہمیز ملی ۔ جیسے وزیراعلی اورگورنر کے درمیان سردجنگ ہو رہی ہے ۔

اصولی طور پر ہمیں وائس چانسلرز کی تقرری کے موجودہ نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنی ہیں اور نظام کو زیادہ موثر اور شفاف بنانا ہے اور شفافیت واضح طور پر نظر بھی آنا چاہیے ۔ جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کا نظام بہت سی تبدیلیاں چاہتا ہے تاکہ منفی پراپیگنڈے کی گنجائش ختم ہوجائے ۔اس میں ہمیں پانچ بڑے اقدامات کرنے ہوںگے جن میں اول، سرچ کمیٹی صوبائی حکومت کے حکم کی بنیاد پر تشکیل دی جانی چاہیے۔

بیوروکریسی سمیت سابق وائس چانسلرزاوراعلیٰ تعلیم سے جڑے ماہرین بھی رکن ہوں تاکہ کمیٹی میں مختلف ممبران کا توازن قائم ہو ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صوبائی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی صوبے میں پانچ برس کے لیے مستقل سرچ کمیٹی کی تشکیل کردے اور اسی سرچ کمیٹی کی مدد سے جہاں بھی جامعات میں وائس چانسلرز کی نشست خالی ہو اسے فوری طور پر مستقل وائس چانسلر مل سکے تاکہ ایڈہاک پالیسی کا خاتمہ ہو اور لمبے عرصہ تک جامعات کو بغیر مستقل وائس چانسلر کے چلانے کی حوصلہ شکنی ہو۔دوئم، وائس چانسلرز کے امیدواروں کا ایک بڑا پول ہونا چاہیے اور اس کا بھی ایک شفافیت پر مبنی جانچ پڑتال کا نظام ہو تاکہ وہی لوگ امیدوار بنیں جو اس کی اہلیت بھی رکھتے ہوں ۔

اسی طرح وائس چانسلر بننے کے لیے یہ شرط بھی ہونی چاہیے کہ وہ تین سے زیادہ مرتبہ اس عہدے پر نہ ہو تاکہ نئے لوگوں کو بھی وائس چانسلر بننے کا موقع مل سکے ۔سوئم، سرچ کمیٹی کو ہی زیادہ خود مختار اور بااختیار بنایا جائے اور اسی کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کی پابندی صوبائی حکومت پر عائد ہونی چاہیے ۔سرچ کمیٹی جسے بھی پہلے نمبر پر نامزد کرے وہی وائس چانسلر بننے کا اہل ہونا چاہیے۔ سرچ کمیٹی کی جانب سے تین ناموں کی منظوری اوراس کے بعد صوبائی وزیر اعلی کا یہ اختیار کہ وہ ان تین ناموں میں سے کسی ایک نام کو حتمی شکل دے گی، ختم ہونا چاہیے ۔وزیر اعلی یا گورنر کی جانب سے نامزد کردہ افراد کے بعد میں انٹرویو کرنا یا ان کی سیاسی اہلیت کو بنیاد بنا کر مسترد کرنا جیسے عمل کو ہر صورت روکا جانا چاہیے۔

چہارم،جامعات کی سطح پر موجود سنڈیکیٹ میں سرکاری ایم پی اے کی شمولیت پر بھی مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ ان کی شمولیت جامعات کے نظام میں سیاسی طور پر مداخلت کو جنم دیتی ہے اور دباؤ ڈال کر اپنی من مانیاں کرتے ہیں ۔پنجم، جو بھی مستقل وائس چانسلر بنے تو اس کی کارکردگی کے مڈٹرم نظام کو بھی سرچ کمیٹیوں کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ بننے والے وائس چانسلرز پر اپنی کارکردگی اور شفافیت کو برقرار رکھنے کا دباؤ ہو اور بہتر کارکردگی نہ دکھانے والے وائس چانسلرز کا احتساب بھی ممکن ہوسکے ۔

اب کہا جا رہا ہے کہ بہت سی جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرری کا دوبارہ اشتہار دیا جائے گا اور خواتین کی جامعات ہیں ان کی تقرریوں کو بھی انٹرویوز کے بعد روک دیا گیا ہے اور اب وہ جامعات بھی ایڈہاک پالیسی کے تحت چل رہی ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ دوبارہ اشتہار کو دے کر ہم کہاں سے وائس چانسلر کی تقرری کو یقینی بنائیں گے اور کیونکر موجودہ امیدواروں میں سے کوئی بہتر امیدوار سرچ کمیٹی کو نہیں ملا اور اب کیسے مل سکے گا۔

اس وقت ہماری جامعات یقینی طور پر نہ صرف مالی بحران کا شکار ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم سے جڑے معاملات، تعلیمی معیارات، تحقیق کا فقدان یا عملی طور پر تحقیق کے لیے فکری آزادیوں کا نہ ہونا ، سیاسی بنیادوں پر جامعات کو چلانے کا نظام یا ایڈہاک پالیسی اور ڈگریوں کی اہمیت یا صنعتوں اور جامعات کا باہمی تعلق ، روائتی تعلیم کے مقابلے میں جدید نظام کی کمی ، تعلیم کی ڈگری کے ساتھ طلبہ وطالبات میں مہارتوں کی کمی سمیت جامعات کی گورننس اور شفافیت کے مسائل سرفہرست ہیں۔ ان کا علاج سیاسی بنیادوں کی بجائے میرٹ اور اہلیت پر وائس چانسلرز کی تقرری سے جڑا ہوا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔