مریم نواز شریف: مخالفتوں کے درمیان آگے بڑھتے قدم

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 18 اکتوبر 2024
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ساڑھے تین عشرے قبل جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان اور عالمِ اسلام کی پہلی منتخب وزیر اعظم بنیں تو پاکستان میں اُنہیں کئی شدید اور سنگین مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُن کے راستے میں ایسی بڑی بڑی رکاوٹیں ڈالی گئیں کہ لگتا تھا محترمہ اِنہیں کبھی عبور نہیں کر سکیں گی۔ ایک صوبائی حکومت اور اس کے سربراہ تو تلوار سونت کر اُن کے مقابل آ کھڑے ہُوئے تھے۔

لاہور اور کراچی کے نصف درجن مشہور ہفت روزہ جرائد منفی پروپیگنڈہ میں بے نیام اور بے نقاب ہو کر اُن پر حملہ آور تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مگر سب محاذوں پر کھڑے تیر اندازوں اور دشنام طرازوں کا نہائت بہادری ، جرأت اور استقامت سے مقابلہ کیا ۔ ساڑھے تین عشرے گزرنے کے باوجود مگر لگتا ہے ہمارے سیاسی ، ذہنی اور نفسیاتی حالات نہیں بدلے ہیں۔ آج2024 میں پنجاب کی منتخب خاتون وزیر اعلیٰ، محترمہ مریم نواز شریف، کو بھی ویسے ہی متنوع چیلنجنگ حالات کا سامنا ہے جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو دو بار وزیر اعظم منتخب ہو کر کرنا پڑا تھا۔

مثال کے طور پر وزیر اعلیٰ کے پی جناب علی امین گنڈا پور کے محترمہ مریم نواز شریف کے خلاف بیانات کی بوچھاڑ۔ علی امین صاحب کو مریم نواز شریف کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہ ہوتی اگر کچھ عرصہ قبل اُن کے رہبر و رہنما ایک جلسے میں محترمہ مریم نواز کے بارے قابلِ گرفت گفتگو نہ کرتے۔کہا جا سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے محترمہ مریم نواز شریف کے خلاف جو ابتدا کی تھی، وہ دراصل اپنے پیروکاروں کو شہ دینے کے مترادف تھی۔ اِس ضمن میں علی امین گنڈا پور صاحب اپنے بانی کے صحیح جانشیں ثابت ہو رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر جناب علی امین نے 8ستمبر 2024 کو سنگجانی (راولپنڈی) میں محترمہ مریم نواز شریف کے بارے جو اسلوبِ گفتگو اختیار کیا، وہ کسی بھی رُخ اور اعتبار سے مناسب نہیں تھا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے پیروکار اور جملہ وابستگان نے اِس پر اظہارِ تاسف نہیں کیا۔

پی ٹی آئی میں بیرسٹر گوہر خان، شعیب شاہین، علی ظفر ، سلمان اکرم راجہ ایسے شائستہ اور مہذب لوگ بھی موجود ہیں اور یہ سب محترم و مکرم شخصیات ’’سنگجانی‘‘ کے جلسے اور اسٹیج پر موجود تھیں ، مگر وائے افسوس کسی نے بھی علی امین گنڈا پور صاحب کی گرفت نہیں کی ۔ شائد ایسا نہ کرکے سبھی اپنے بانی لیڈر کی نظروں میں’’ سرخرو‘‘ ہونے کے متمنی ہیں ۔

یہ رویہ کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں ہے ۔سنگجانی جلسے کی تقاریر اتنی قابلِ اعتراض تھیں کہ خبریں ہیں کہ وفاقی حکومت اِنہی تقریروں کی بنیاد پر مقررین کے خلاف ضابطہ فوجداری کے سیکشن 196کے تحت مقدمات قائم کرنے کا سوچ رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پارٹی کے اندر سے اور بانی پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ذمے داروں کا زبانی احتساب بھی نہ ہونے سے دوسروں کو بھی شہ ملتی ہے ۔ اور یوں یہ اسلوبِ گفتگو ایک زنجیری تعامل (Chain Reaction) کی طرح آگے بڑھتا ، پھیلتا اور پھولتا ہے ۔ اور ہُوا بھی ایسا ہی ۔ ابھی سنگجانی والے الفاظ کی باز گشت تھمی بھی نہ تھی کہ علی امین صاحب نئے انداز و ادا سے ایک بار پھر وزیر اعلیٰ پنجاب، محترمہ مریم نواز شریف، پر برس پڑے ۔

یکم اکتوبر2024ء کو علی امین گنڈا پور صاحب نے پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ کو ہدف بناتے ہُوئے کہا:’’مریم نواز شریف عورت کارڈ استعمال کررہی ہیں ۔ نواز شریف جب سزا کے بعد بیرونِ ملک چلے گئے تھے تو مریم نواز پنجاب میں جلسے کررہی تھیں اور ہم نے (حکومت میں ہوتے ہُوئے) اُنہیں کبھی نہیں روکا تھا۔ پی ٹی آئی کی خواتین جیلوں میں ہیں ۔کیا وہ عورتیں نہیں ؟ کیا پورے پاکستان میں ایک عورت مریم نواز ہی رہ گئی ہیں؟ ۔‘‘پی ٹی آئی کی جیلوں میں پڑی خواتین کے حوالے سے علی امین صاحب کا شکوہ بجا ہو سکتا ہے ، مگر اُن کا اندازِ شکوہ درست نہیں ہے ۔ اِس میں درشتی اور سنگینی ہے ۔ اگر وہ یہی لہجہ ڈی آئی خان میں بروئے کار ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف بھی اپنائیں تو بات بھی ہے۔ اِس (سخت) لہجے سے دہشت گردوں کی ہمتیں توڑی جا سکتی ہیں، مگر وہاں تو علی امین صاحب نے مسلسل اور پُر اسرار خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔

ابھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف علی امین گنڈا پور صاحب کے محولہ بالا بیان کی جھاگ بیٹھی بھی نہیں تھی کہ اُن کے تتبع اور پیروی میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواکے مشیر اطلاعات ، بیرسٹر محمد علی سیف خان، نے یوں تان توڑی :’’ وزیر اعلیٰ پنجاب (محترمہ) مریم نواز شریف کے احکامات پر جیل میں (محترمہ) بشریٰ بی بی کو تنگ کیا جارہا ہے ۔ باپردہ خاتون کی کیمروں کے سامنے تلاشی لے کر تضحیک کی جارہی ہے ۔ مریم نواز کی حکومت میں پی ٹی آئی کی خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

مریم نواز اتنا ظلم کریں کہ کل پھر برداشت بھی کر سکیں۔‘‘بیرسٹر سیف خان صاحب کا یہ دھمکی آمیز اندازِ گفتگو مناسب نہیں ہے۔ بیرسٹر سیف خان کے بعد 2اکتوبر کو کے پی اسمبلی میں کھڑے ہو کر صوبائی وزیر برائے ہائر ایجوکیشن، مینا خان آفریدی، نے محترمہ مریم نواز شریف کے خلاف نہائت بیہودہ اور لغو تقریر کی ۔پی ٹی آئی کے یہ مقتدرین ایسا کرکے دراصل پنجاب کی انتظامیہ اور پنجاب کی چیف ایگزیکٹو کو اپنے دباؤ میں لانا چاہتے ہیں۔ اِن متنوع دباؤ میں دھمکی اور دھونس کے عناصر بھی بین السطور شامل ہیں۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں،یکے بعد دیگرے، جلسوں کا اہتمام کرکے پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہے تاکہ اُنہیں من پسند انداز میں پنجاب بھر میں من پسند کھیل کھیلنے کی اجازت مل جائے ۔ ایسا شائد فی الحال ممکن نہیں ہے ۔

ہم نے اپنے ایک سابقہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی ایک ایسی ’’مستقل مزاج‘‘ مکھی ہے جسے آپ لاکھ اُڑائیں مگر وہ پھر گھوم گھام کر آپ کے منہ، ناک اور کان پر پھر آ بیٹھتی ہے اور آپ تنگ آ جاتے ہیں ۔پی ٹی آئی کی مستقل مزاجی تو ہم آپ نے دیکھ ہی لی ہے ۔ وہ پنجاب پر حملہ آور ہے اور خیبر پختونخوا کے جملہ سرکاری وسائل بھی پنجاب میں منعقعدہ جلوسوں میں استعمال کررہی ہے ۔

اِس کے وزیر اعلیٰ ، علی امین گنڈا پور صاحب، نے دھڑلّے سے کہہ دیا ہے کہ ’’مَیں منتخب وزیر اعلیٰ ہُوں ۔ اپنے صوبے کے وسائل ڈنکے کی چوٹ پر استعمال کروں گا۔‘‘ مطلب یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ’’حکمتِ عملی‘‘ سے دستکش نہیں ہوگی۔ ایسے میں پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ پنجاب کیا کریں ؟ہمارا مشورہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف، کو اپنے جملہ مخالفین و حاسدین کے پے در پے حملوں سے لاپروا ہو کر پنجاب کے عوام کی خدمت میں جُٹے رہنا چاہیے ۔

پچھلے سات مہینوں کے دوران اُنھوں نے پنجاب کے طول و عرض میں جو لاتعداد اور قابلِ فخر منصوبوں کا نیا اجرا کیا ہے ، یہ عوامی خدمات اپنے منہ سے بول رہی ہیں ۔ اِن خدمات سے مستفید ہونے والے عوام اپنی وزیر اعلیٰ سے خوش بھی ہیں اور اُن کے لیے دعا گو بھی ۔ یہ دُعائیں ، ستائشیں اور تعریفیں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے اطمینان بخش ہونی چاہئیں۔وہ ایک سیاسی جماعت کے سوشل اینڈ کی وارئیرز کے خلاف جس طرح بروئے کار ہیں، اِس کے مثبت نتائج جلد برآمد ہوں گے۔ 16اکتوبر 2024ء کو محترمہ مریم نواز شریف نے لاہور میں تقریباً ایک گھنٹہ جو پریس کانفرنس کی ہے، اِس میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔