حکمرانی کیا چیز ہے؟ کاش یہ ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہوجائے تو انہیں رات کو نیند بھی نہ آئے اور کھانا پینا تک بھول جائیں۔ میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس علم کی کمی ہے یا اسلام سے دوری؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی نہیں پڑھے؟ اگر کسی نے پڑھے بھی ہیں تو وہ ان پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے پیارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اس کے حکمرانوں میں اسلام والی کوئی بات نظر نہیں آتی اور یہ کہتے ہیں کہ یہ عوام کی حکومت ہے، مگر عوام اپنے لب سے کوئی گلہ کرے تو یہ حکمران اس کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کےلیے خاموش کروا دیتے ہیں؛ اور آئندہ کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ وہ حکمرانوں کے خلاف اپنی آواز بلند کر سکے۔
حضرت عمر فاروقؓ کی حکمرانی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک بار آپؓ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو راستے میں ایک جھونپڑی دیکھی۔ آپؓ وہاں تشریف لے گئے۔ وہاں ایک بوڑھی عورت تھی۔ آپؓ نے اس سے پوچھا کہ عمرؓ کہاں ہیں؟ اس عورت نے کہا کہ وہ شام کے سفر پر روانہ ہوگئے ہیں۔ آپؓ نے اس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ عمرؓ کیسا حکمران ہے؟ تو اس عورت نے حضرت عمر فاروقؓ کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ عمر کی طرف سے مجھے آج تک کوئی چیز نہیں ملی۔ آپؓ نے فرمایا کہ عمرؓ کو اتنی دور کا علم کہاں سے ہوگا؟ تو عورت نے کہا کہ اگر عمرؓ کو اتنی دور کا علم نہیں تو وہ حکمرانی کیوں کر رہا ہے؟ یہ بات سن کر حضرت عمر فاروقؓ رونے لگے اور جتنی ہوسکتی تھی، اس عورت کی مدد کی۔
آپؓ کی حکمرانی کے خلاف صرف ایک عورت نے احتجاج کیا اور آپؓ بہت زیادہ پریشان ہوئے، یہاں تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر آجاتے ہیں اور اپنی جانیں ضائع کر دیتے ہیں مگر ان حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ حکمران جمہوریت بچارہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کی ان کو کوئی ضرورت نہیں۔ عوام نہ بھی ہوں تو کوئی بات نہیں، جمہوریت ضرور ہونی چاہیے کیونکہ جمہوریت کا ''لاء'' عوام پر نہیں لاگو ہوتا، یہ ''لاء'' تو خالی زمین پر بھی لاگو ہوجاتا ہے۔ جب بھی بھوک اور تنگ دستی سے ستائے ہوئے لوگ کسی سہارے کی آواز پر باہر نکلتے ہیں تو حکمرانوں کو یہ لوگ صرف چند لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ مگر ان حکمرانوں کو اپنی کوئی بھی غلطی نظر نہیں آتی۔
یہ حکمران ان لو گوں کو قصوروار سمجھتے ہیں جن لو گوں نے ان کے خلاف جا کر اپنے لیے روٹی، کپڑا، مکان، گیس اور بجلی مانگی، اپنے جینے کا حق مانگا۔ ان عوام کو یہ علم نہیں کہ یہ سب بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ سب چیزیں حکمرانوں کےلیے ہیں، عوام کےلیے نہیں۔ وہ زمانہ گیا جب ساری ساری رات جاگ کر حکمران اپنی رعایا کے بارے میں سوچا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو مجھے اس کا بھی حساب دینا ہوگا۔
آج کی گنگا الٹی ہے، آج کے دور میں حکمران ہر طرح کی پرسکون نیند سوتے ہیں اور رعایا ساری ساری رات جاگتی ہے اور سارا سارا دن مزدوری کرتی ہے، پھر بھی ان حکمرانوں کو کبھی شرم نہیں آتی۔ یہ اپنا لوٹا ہوا مال پاکستان میں اپنی رعایا کو نہیں دینا چاہتے کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کے عوام خودکفیل اور خوشحال ہوجائیں ورنہ ان کی حکمرانی ختم ہوجائے گی۔ ہمارے مال میں کوئی کمی نہ ہو جائے، اس مال کو تو ہر روز زیادہ ہی ہونا ہے چاہے عوام کا خون ہی کیوں نہ نچوڑنا پڑے۔
آج ہمارے ملک میں اگر عوام کا شعور بیدار ہوجائے تو بہت سے حکمرانوں کی حکمرانی راتوں رات ختم ہوجائے۔ اس لیے تو حکمران ڈرتے ہیں کہ عوام کا شعور بیدار ہوگیا تو اُن کی حکمرانی کا کیا بنے گا؟ اسی لیے تو عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔ عوام جائیں تو کس طرف جائیں؟ عوام کو کوئی بھی در نظر نہیں آتا۔ اس اندھیر نگری میں اپنا حق مانگنے نکلیں تو بغاوت اور اگر صبر کرتے ہیں تو افلاس و تنگ دستی عوام کا مقدر۔
عوام اور حکمرانوں میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے۔ عوام کی آواز پہنچے بھی تو کہاں تک پہنچے؟ آج کے حکمران پاکستان کے ان حالات کا ذمے دار پہلے والی حکومتوں کو قرار دیتے ہیں اور پہلے والی حکومتیں اس حکومت کو ذمے دار قرار دیتی ہیں۔ کوئی بھی حکمران ہو یا سیاستدان، پاکستانی عوام کی حالت کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عوام کی بنیادی ضروریات کو نظرانداز کرکے کبھی وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کی جاتی ہیں تو کبھی گاڑیاں، ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کو دن بدن زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا گیا ہے۔ گیس، پٹرول اور بجلی اس حکومت سے کنٹرول نہیں ہو پارہی اور بیرونی ممالک ہماری کوئی بھی مدد کرنے کو تیار نہیں۔
موروثی سیاست کے خلاف بولنے والے خود ان ہی سیاستدانوں کی صف میں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنے ہی خاندان کو نوازا جا رہا ہے۔ تمام رشتے دار حکومت اور پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ عوامی ٹیکس کا ناجائز استعمال سابقہ حکومتوں کی طرح اس حکومت میں بھی کیا جارہا ہے۔ اسلامی قوانین اور خلفائے راشدین کی مثالیں دینے والے تخت و تاج ملتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
غیر ضروری اور فروعی مسائل کو چھوڑ کر ہر پل، ہر لمحہ عوام پر توجہ دی جائے تو تب کہیں جاکر حقیقی مسائل حل ہوں گے ورنہ حالات پہلے سے بھی خراب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جب تک ہم عوام کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کریں گے، تب تک ہم کسی بھی صورت ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔