آئینی ترامیم پر پارلیمانی کمیٹی نے 26 نکاتی مسودہ منظور کرلیا
پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے مخالفت کردی، اے این پی کا بائیکاٹ، منظور کیے گئے مسودے سے اتحادی جماعتوں کی ترامیم غائب
26ویں آئینی ترامیم کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے مسودہ منظور کرلیا جسے کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، مسودے میں اتحادی جماعتوں کی تجاویز شامل نہیں کی گئیں، اے این پی نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا جبکہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے مسودے کی مخالفت کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، پی ٹی آئی کے رکن عامر ڈوگر، جے یو آئی ایف کی رکن شاہدہ اختر علی، ن لیگ سے عرفان صدیقی، ایم کیو ایم سے امین الحق، پی پی سے راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمان، رانا تنویر، سینیٹر انوشہ رحمان، چوہدری سالک حسین، اعجاز الحق، خالد حسین مگسی اور دیگر نے شرکت کی۔
پارلیمنٹ ہاؤس آمد پر صحافی نے سوال کیا کہ کیا آئینی ترمیم ہوجائے گی؟ خورشید شاہ نے جواب دیا کہ انشااللہ! پوری کوشش ہوگی، صحافی نے پھر پوچھا کہ آج ہوجائے گی؟ تو جواب دیا کہ جلد بازی اچھی نہیں ہوتی۔
راجہ پرویز اشرف نے صحافیوں کے سوال پر جواب دیا کہ بڑی اچھی اور مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ترامیم کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
زبردستی قانون سازی کرائی جارہی ہے، پی ٹی آئی
اجلاس شروع ہونے پر بیان میں پی ٹی آئی کے رکن عامر ڈوگر نے کہا کہ آئینی ترمیم حکومت کا کام ہے ہم سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں، ہمارے کچھ ممبر پناہ لے رہے ہیں، چادر اور چاردیواری کو پامال کیا جا رہا ہے، زبردستی قانون سازی کرائی جا رہی، مولانا فضل الرحمن ہمارے موقف کے حامی ہیں۔
کمیٹی نے اے این پی کا مسودہ ڈراپ کردیا، عوامی نیشنل پارٹی کا بائیکاٹ
عوامی نیشنل پارٹی کی ترمیم مجوزہ آئینی ڈرافٹ سے ڈراپ کردی گئی، عوامی نیشنل پارٹی کی ترامیم مجوزہ مسودے میں شامل نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے کا نام تبدیل کرنے کی شق شامل نہ کرنے پر اسپیشل کمیٹی اجلاس سے بائیکاٹ کیا ہے اور ایمل ولی خان شریک نہیں ہوئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے کے نام سے خیبر نکال کر پختونخوا تجویز کیا تھا۔
بعدازاں کمیٹی نے ایک مشترکہ مسودہ تشکیل دیتے ہوئے اسے منظور کرلیا تاہم اس میں اتحادی جماعتوں کی جانب سے دی گئی تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے اس مسودے کی مخالفت کردی۔
کمیٹی نے طے کیا کہ مسودہ کل منظوری کے لیے کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا کابینہ سے منظوری کے بعد اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں میں لایا جائے گا۔
آرٹیکل 48 کی اہم ترین ترمیم مسودے میں شامل
حکومت نے قبل ازیں 56 نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اور اب یہ 26 نکاتی رہ گیا ہے، اس میں آرٹیکل 48 میں ترمیم بھی شامل کی گئی ہے جس کے تحت وزیراعظم، صدر اور کابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی گئی کوئی بھی سمری منظور ہوگئی تو وہ آٗئندہ کبھی کسی بھی عدالت، کسی بھی ادارے یا کسی بھی اتھارٹی میں چیلنج نہیں ہوسکے گی اور اس پر کوئی تحقیقات نہیں ہوگی اور نہ اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔
آئینی بینچ سے متعلق تجویز منظور کی گئی ہے کہ نو رکنی بینچ بنایا جائے جبکہ جوڈیشل کمیشن تیرہ رکنی ہوگا، بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی ہوگی جو چیف جسٹس کی تقرری کرے گی جس میں آٹھ اراکین قومی اسمبلی اور چار اراکین سینیٹ سے ہوں گے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال ہوگی، تین سینئر ججز کے نام تعیناتی کے لیے بھیجے جائیں گے۔
سپریم کورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا، آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے، چیف الیکشن کمشنر کی مدت ختم ہونے پر نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تک کام جاری رکھ سکے گا۔
سمندر پار پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی تجویز پر اتفاق ہوا ہے، خورشید شاہ
کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے بتایا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی تجویز پر اتفاق کیا گیا ہے، خصوصی کمیٹی کی جانب سے منظور کیے گئے مسودے کی منظوری کابینہ دے گی، سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق مجھے علم نہیں، مسودے کو منظور کر لیا گیا ہے۔
مسودہ مشترکہ طور پر منظوری کی خبریں بے بنیاد ہیں ہم نے اور جے یو آئی نے مخالفت کی، پی ٹی آئی
اجلاس میں شریک پی ٹی آئی کے رکن عامر ڈوگر نے مشترکہ منظوری کی خبر کو بے بنیاد قرار دے دیا اور کہا کہ منظوری کے وقت تحریک انصاف کی جانب سے میں نے مسودے کی مخالفت کی اس طرح جے یو آئی کی رکن شاہدہ رحمن نے بھی اتفاق نہیں کیا، ہمارا موقف تھا کہ مسودے سے متعلق منظوری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات سے مشروط ہے، کمیٹی سے کہا کہ حتمی منظوری کیلئے اڈیالہ جانا پڑے گا، کمیٹی نے ہماری تجاویز نظر انداز کر کے اپنے طور پر مسودہ منظور کیا، ریکارڈ پر رہنا چاہیے کہ پی ٹی آئی ٹی نے مسودے کی مخالفت کی ہے۔