چار پولیس اہلکاروں کا قتل کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں میں نے قتل نہیں کیا عزیر بلوچ
اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میرا اس قتل اور مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں، عدالت میں بیان ریکارڈ
گینگ وار کے سرغنہ عزیر جان بلوچ نے پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں بیان ریکارڈ کرادیا اور کہا ہے کہ کلمہ پڑھ کر اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے قتل نہیں کیا اور میرا اس قتل اور مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت کے روبرو پولیس اہلکار سمیت چار افراد کے اغوا اور قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل الزام سے انکار کردیا۔ عزیر بلوچ، رینجرز اہلکار سمیت 3 ملزمان کے بیانات قلمبند کرادیئے گئے۔
عدالت نے عزیر بلوچ سے استفسار کیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ نے مقتول کو قتل کیا؟ عزیر بلوچ نے بیان دیا کہ میں کلمہ پڑھ کر اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے قتل نہیں کیا، میرا اس قتل اور مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ پولیس کے مطابق رینجرز اہلکار سمیت دیگر 2 ملزمان نے مقتولین کو اغوا کرکے آپ کے حوالے کیا اور آپ نے قتل کیا؟ عزیر بلوچ نے کہا کہ میں نے ان دونوں ملزمان کو نہیں جانتا، میں نے انہیں کورٹ میں ہی پہلی بار دیکھا تھا، میرا ان دونوں ملزمان سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے ملزم شیر افسر اور ریاض سرور کے بیانات بھی ریکارڈ کیے۔ عدالت نے ملزمان سے استفسار کیا کہ آپ دونوں پر الزام ہے کہ آپ نے مقتولین کو اغوا کرکے عزیر بلوچ کے حوالے کیا تھا؟
دونوں ملزمان نے بیان میں کہا کہ نہیں! ہم مرنے والے کسی فرد کو نہیں جانتے اور نہ ہی ہم نے انہیں اغوا کیا تھا، ہم پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں، ہم عزیر بلوچ کو بھی نہیں جانتے تھے، صرف میڈیا پر عزیر بلوچ کے بارے میں سنا تھا ہم نے بھی عزیر بلوچ کو پہلی بار اس کورٹ میں ہی دیکھا تھا۔
وکیل صفائی عابد زمان ایڈوکیٹ نے موقف اپنایا کہ میرے موکل سے متعلق غلط مقدمہ درج کیا گیا، اس مقدمہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں پولیس کی جانب سے کوئی ٹھوس شواہد بھی پیش نہیں کیے گئے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر وکلا طرفین سے حتمی دلائل طلب کرلئے۔ حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔
پولیس کے مطابق یکم اگست 2010ء کو پولیس اہلکار لالہ امین، شیر افضل خان اور غازی خان سمیت چار افراد کا قتل ہوا تھا۔ مقتولین کو میوہ شاہ قبرستان کے پاس سے رینجرز اہلکار سمیت دیگر ملزمان نے اغوا کرکے عزیر بلوچ کے حوالے کیا۔ عزیر بلوچ نے اپنے ساتھیوں سکندر عرف سکو، سرور بلوچ اور اکبر بلوچ کے ساتھ مل کر قتل کیا تھا۔
ملزمان نے مقتولین کو قتل کرکے لاشوں کو قبرستان میں دفنا دیا تھا۔ عزیر بلوچ کے ساتھی سکندر عرف سکو، سرور بلوچ اور اکبر بلوچ مقابلے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ملزمان کیخلاف تھانہ نیو ٹاؤن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت کے روبرو پولیس اہلکار سمیت چار افراد کے اغوا اور قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل الزام سے انکار کردیا۔ عزیر بلوچ، رینجرز اہلکار سمیت 3 ملزمان کے بیانات قلمبند کرادیئے گئے۔
عدالت نے عزیر بلوچ سے استفسار کیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ نے مقتول کو قتل کیا؟ عزیر بلوچ نے بیان دیا کہ میں کلمہ پڑھ کر اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے قتل نہیں کیا، میرا اس قتل اور مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ پولیس کے مطابق رینجرز اہلکار سمیت دیگر 2 ملزمان نے مقتولین کو اغوا کرکے آپ کے حوالے کیا اور آپ نے قتل کیا؟ عزیر بلوچ نے کہا کہ میں نے ان دونوں ملزمان کو نہیں جانتا، میں نے انہیں کورٹ میں ہی پہلی بار دیکھا تھا، میرا ان دونوں ملزمان سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے ملزم شیر افسر اور ریاض سرور کے بیانات بھی ریکارڈ کیے۔ عدالت نے ملزمان سے استفسار کیا کہ آپ دونوں پر الزام ہے کہ آپ نے مقتولین کو اغوا کرکے عزیر بلوچ کے حوالے کیا تھا؟
دونوں ملزمان نے بیان میں کہا کہ نہیں! ہم مرنے والے کسی فرد کو نہیں جانتے اور نہ ہی ہم نے انہیں اغوا کیا تھا، ہم پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں، ہم عزیر بلوچ کو بھی نہیں جانتے تھے، صرف میڈیا پر عزیر بلوچ کے بارے میں سنا تھا ہم نے بھی عزیر بلوچ کو پہلی بار اس کورٹ میں ہی دیکھا تھا۔
وکیل صفائی عابد زمان ایڈوکیٹ نے موقف اپنایا کہ میرے موکل سے متعلق غلط مقدمہ درج کیا گیا، اس مقدمہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں پولیس کی جانب سے کوئی ٹھوس شواہد بھی پیش نہیں کیے گئے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر وکلا طرفین سے حتمی دلائل طلب کرلئے۔ حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔
پولیس کے مطابق یکم اگست 2010ء کو پولیس اہلکار لالہ امین، شیر افضل خان اور غازی خان سمیت چار افراد کا قتل ہوا تھا۔ مقتولین کو میوہ شاہ قبرستان کے پاس سے رینجرز اہلکار سمیت دیگر ملزمان نے اغوا کرکے عزیر بلوچ کے حوالے کیا۔ عزیر بلوچ نے اپنے ساتھیوں سکندر عرف سکو، سرور بلوچ اور اکبر بلوچ کے ساتھ مل کر قتل کیا تھا۔
ملزمان نے مقتولین کو قتل کرکے لاشوں کو قبرستان میں دفنا دیا تھا۔ عزیر بلوچ کے ساتھی سکندر عرف سکو، سرور بلوچ اور اکبر بلوچ مقابلے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ملزمان کیخلاف تھانہ نیو ٹاؤن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔