سوشل میڈیا کا جادو بے قابو
دو سال قبل سری لنکا میں ہونے والے مظاہروں میں بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا عمل دخل تھا۔
سوشل میڈیا کا لفظ بجائے خود خوبصورت اور معصوم معنی رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے دنیا بھر میں لوگوں کے باہمی روابط اور معلومات کے تبادلے کا انداز ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کی رسائی دنیا بھر میں اکثریت کے ہاتھوں اور ذہنوں تک ہے، تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران سوشل میڈیا سے یا اس کے سبب بہت کچھ ایسا رونما ہوا جو'' سوشل'' نہ تھا بلکہ بہت صورتوں میں حیرت انگیز تباہی اور مصائب کا باعث بنا۔
گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک نجی کالج کے کیمپس کے بارے میں ایک خبر کی پوسٹ نے ایسی ہی آگ لگائی۔ یہ معاملہ عین اس وقت ہوا جب اسلام آباد میں شنگھائی تعاون کانفرنس ہو رہی تھی۔سوشل میڈیا ہی کے طفیل یہ احتجاج دوسرے شہروں تک پھیل گیا۔
نجی کالج کی انتظامیہ شروع دن سے ہی ایسے کسی وقوعے سے انکاری تھی۔ معاملہ ہائی لائٹ ہوا تو پولیس نے بھی اپنے تئیں تحقیقات کے نتیجے میں نجی کالج انتظامیہ کے موقف کو صحیح جانا۔ پنجاب حکومت کو اس میں واضح طور پر اپنے سیاسی حریف کا ہاتھ نظر آیا۔ احتجاج مزید شہروں تک پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر حکومت پنجاب نے جمعے اور ہفتے کو تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا، امتحانی پیپرز ملتوی کیے اور صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔
حقیقت کیا ہے؟ یہ سامنے آنی چاہیے۔امن و امان نافذ کرنے والے اداروں کا پختہ یقین ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ بلکہ مختلف افواہوں کو جوڑ کر باضابطہ منصوبہ بندی کے تحت ٹرینڈ چلائے گئے۔ چند نوجوانوں سے بات ہوئی تو وہ اس حکومتی موقف کو ماننے سے انکاری ہیں ۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اٹھنے والے اس طوفان سے یہ حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا کی رسائی کس قدر وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ دوسرے یہ کہ جنریشن زی اور عوام کا اعتماد اور یقین بالعموم سوشل میڈیا پر اس حد تک ہے کہ تحقیق اور چھان پھٹک کا تردد کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، یا شاید یہ تن آسانی کا نتیجہ ہے کہ گھنٹوں اسکرین سکرول کرتے ہوئے ہم دھیرے دھیرے غیر محسوس انداز میں ہر شئیر کی جانے والی پوسٹ پر یقین کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس اندھے یقین کے سبب دنیا بھر میں دانستہ نا دانستہ یا منصوبہ بندی کے تحت اس کا بھرپور اور خوفناک استعمال اور نتائج سامنے آئے ہیں۔ چند ہفتے قبل برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں ایک ہولناک واقعہ ہوا۔ ایک امیگرینٹ نوجوان نے چاقو سے طالبات پر حملہ کیا۔سوشل میڈیا پر ملزم کی شناخت مسلمان ظاہر کی گئی اور پورے یقین کے ساتھ اس کے مذہب اور اس کی شناخت بھی پوسٹ کر دی گئی۔ ٹرینڈ اس تیزی سے بنا کہ دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ بھر میں اسلام و فوبیا کی خوفناک پرتشدد لہر اٹھی۔ حکومت نے سختی سے اس لہر کو کچلا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ ملزم مسلمان نہ تھا۔ تاہم سوشل میڈیا کی پوسٹ اور لوگوں کے انداز و یقین اور انتہا پسندوں نے اس ٹرینڈ کو اپنے مقصد کے لیے یوں استعمال کیا کہ اربوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا اور مسلمان کمیونٹی کو بلا وجہ خوف اور مورد الزام ہونا پڑا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے حالیہ سالوں میں انتہائی اہم تبدیلیاں بھی بڑی سرعت کے ساتھ نمایاں ہوئیں اور انھوں نے سماج اور سیاست پر انقلابی تبدیلیاں رونما کیں۔ بنگلہ دیش کے حالیہ مظاہرین روایتی سیاستدان نہ تھے۔طلبہ کے ذریعے شروع ہوئی تحریک سوشل میڈیا ہی کی بدولت سے اس قدر منظم ہوئی کہ ناقابل یقین حد تک موثر اور کامیاب ہوئی۔
دو سال قبل سری لنکا میں ہونے والے مظاہروں میں بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا عمل دخل تھا۔
تھوڑا یادداشت پیچھے لے جائیں تو عرب اسپرنگ میں بھی عوام کا غم و غصہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے منظم ہوا اور زبردست سیاسی مزاحمت کی صورت میں سامنے آیا۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ سوشل میڈیا کی حیرت انگیز رسائی اور اس پر لوگوں کے اندھا دھند یقین کو مفاد پرستوں نے انتہائی چالاکی اور عیاری سے استعمال بھی کیا۔
2016میں امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مداخلت کے ڈانڈے بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملائے گئے۔معاملہ کی نوعیت ترقی یافتہ ممالک میں جوں جوں واضح ہوئی تو بہت سے ممالک میں پارلیمنٹ کمیٹیوں کے سامنے دنیا کی سوشل پلیٹ فارم کمپنیز سے باز پرس کی گئی۔ اقرار کیا گیا کہ کوتاہیاں ہوئی ہیں، وعدہ کیا کہ نفرت ،خوف اور جھوٹ پر مبنی مواد کو مانیٹر کیا جائے اور ہٹایا جائے گا۔ کچھ اصول و ضوابط طے بھی کیے گئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کمپنیز کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ماہ کروڑوں پوسٹس ہٹائی بھی جا رہی ہیں۔ تاہم بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں میں سوشل میڈیا ایک خوفناک ہتھیار کے طور بدستور استعمال ہو رہا ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک اس نئے ہیجان انگیز مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنے اپنے طور پر قوانین و ضوابط اور ڈیٹا کی پرائیویسی پر کام کر رہے ہیں۔ چین اس معاملے میں سب سے منفرد راستے پر ہے۔ چین نے ٹیکنالوجی میں اپنی سبقت کی بنیاد پر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چینی سافٹ ویئر سے ہی بنائے ہیں۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی ٹریفک کو سختی سے مانیٹر بھی کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر فیک نیوز ، منافرت پر مبنی پوسٹس اور بلا تصدیق نیوز شیئر کرنے کی وجہ سے ماضی میں کئی لوگوں کی زندگیاں عذاب کا شکار ہوئیں۔ ان حالیہ واقعات کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ اگر واقعی یہ واقعہ رونما ہوا ہے تو اس کی پردہ پوشی کرنے والوں اور مجرموں کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں جنھوں نے فیک نیوز کو ٹرینڈ بنا کر اور شیئر کر کے یہ ہیجان برپا کیا انھیں کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ اور مجرموں تک پہنچنے کی ایف آئی اے سائبر کرائمز اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی صلاحیت محدود ہے۔ نئے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے ،تاکہ یہ ہیجان انگیزی بار بار رونما نہ ہو اور مفاد پرست ملک اور سماج کے ساتھ حسب منشا کھیلنے سے گریز کریں۔
گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک نجی کالج کے کیمپس کے بارے میں ایک خبر کی پوسٹ نے ایسی ہی آگ لگائی۔ یہ معاملہ عین اس وقت ہوا جب اسلام آباد میں شنگھائی تعاون کانفرنس ہو رہی تھی۔سوشل میڈیا ہی کے طفیل یہ احتجاج دوسرے شہروں تک پھیل گیا۔
نجی کالج کی انتظامیہ شروع دن سے ہی ایسے کسی وقوعے سے انکاری تھی۔ معاملہ ہائی لائٹ ہوا تو پولیس نے بھی اپنے تئیں تحقیقات کے نتیجے میں نجی کالج انتظامیہ کے موقف کو صحیح جانا۔ پنجاب حکومت کو اس میں واضح طور پر اپنے سیاسی حریف کا ہاتھ نظر آیا۔ احتجاج مزید شہروں تک پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر حکومت پنجاب نے جمعے اور ہفتے کو تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا، امتحانی پیپرز ملتوی کیے اور صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔
حقیقت کیا ہے؟ یہ سامنے آنی چاہیے۔امن و امان نافذ کرنے والے اداروں کا پختہ یقین ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ بلکہ مختلف افواہوں کو جوڑ کر باضابطہ منصوبہ بندی کے تحت ٹرینڈ چلائے گئے۔ چند نوجوانوں سے بات ہوئی تو وہ اس حکومتی موقف کو ماننے سے انکاری ہیں ۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اٹھنے والے اس طوفان سے یہ حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا کی رسائی کس قدر وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ دوسرے یہ کہ جنریشن زی اور عوام کا اعتماد اور یقین بالعموم سوشل میڈیا پر اس حد تک ہے کہ تحقیق اور چھان پھٹک کا تردد کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، یا شاید یہ تن آسانی کا نتیجہ ہے کہ گھنٹوں اسکرین سکرول کرتے ہوئے ہم دھیرے دھیرے غیر محسوس انداز میں ہر شئیر کی جانے والی پوسٹ پر یقین کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس اندھے یقین کے سبب دنیا بھر میں دانستہ نا دانستہ یا منصوبہ بندی کے تحت اس کا بھرپور اور خوفناک استعمال اور نتائج سامنے آئے ہیں۔ چند ہفتے قبل برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں ایک ہولناک واقعہ ہوا۔ ایک امیگرینٹ نوجوان نے چاقو سے طالبات پر حملہ کیا۔سوشل میڈیا پر ملزم کی شناخت مسلمان ظاہر کی گئی اور پورے یقین کے ساتھ اس کے مذہب اور اس کی شناخت بھی پوسٹ کر دی گئی۔ ٹرینڈ اس تیزی سے بنا کہ دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ بھر میں اسلام و فوبیا کی خوفناک پرتشدد لہر اٹھی۔ حکومت نے سختی سے اس لہر کو کچلا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ ملزم مسلمان نہ تھا۔ تاہم سوشل میڈیا کی پوسٹ اور لوگوں کے انداز و یقین اور انتہا پسندوں نے اس ٹرینڈ کو اپنے مقصد کے لیے یوں استعمال کیا کہ اربوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا اور مسلمان کمیونٹی کو بلا وجہ خوف اور مورد الزام ہونا پڑا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے حالیہ سالوں میں انتہائی اہم تبدیلیاں بھی بڑی سرعت کے ساتھ نمایاں ہوئیں اور انھوں نے سماج اور سیاست پر انقلابی تبدیلیاں رونما کیں۔ بنگلہ دیش کے حالیہ مظاہرین روایتی سیاستدان نہ تھے۔طلبہ کے ذریعے شروع ہوئی تحریک سوشل میڈیا ہی کی بدولت سے اس قدر منظم ہوئی کہ ناقابل یقین حد تک موثر اور کامیاب ہوئی۔
دو سال قبل سری لنکا میں ہونے والے مظاہروں میں بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا عمل دخل تھا۔
تھوڑا یادداشت پیچھے لے جائیں تو عرب اسپرنگ میں بھی عوام کا غم و غصہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے منظم ہوا اور زبردست سیاسی مزاحمت کی صورت میں سامنے آیا۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ سوشل میڈیا کی حیرت انگیز رسائی اور اس پر لوگوں کے اندھا دھند یقین کو مفاد پرستوں نے انتہائی چالاکی اور عیاری سے استعمال بھی کیا۔
2016میں امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مداخلت کے ڈانڈے بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملائے گئے۔معاملہ کی نوعیت ترقی یافتہ ممالک میں جوں جوں واضح ہوئی تو بہت سے ممالک میں پارلیمنٹ کمیٹیوں کے سامنے دنیا کی سوشل پلیٹ فارم کمپنیز سے باز پرس کی گئی۔ اقرار کیا گیا کہ کوتاہیاں ہوئی ہیں، وعدہ کیا کہ نفرت ،خوف اور جھوٹ پر مبنی مواد کو مانیٹر کیا جائے اور ہٹایا جائے گا۔ کچھ اصول و ضوابط طے بھی کیے گئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کمپنیز کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ماہ کروڑوں پوسٹس ہٹائی بھی جا رہی ہیں۔ تاہم بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں میں سوشل میڈیا ایک خوفناک ہتھیار کے طور بدستور استعمال ہو رہا ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک اس نئے ہیجان انگیز مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنے اپنے طور پر قوانین و ضوابط اور ڈیٹا کی پرائیویسی پر کام کر رہے ہیں۔ چین اس معاملے میں سب سے منفرد راستے پر ہے۔ چین نے ٹیکنالوجی میں اپنی سبقت کی بنیاد پر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چینی سافٹ ویئر سے ہی بنائے ہیں۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی ٹریفک کو سختی سے مانیٹر بھی کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر فیک نیوز ، منافرت پر مبنی پوسٹس اور بلا تصدیق نیوز شیئر کرنے کی وجہ سے ماضی میں کئی لوگوں کی زندگیاں عذاب کا شکار ہوئیں۔ ان حالیہ واقعات کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ اگر واقعی یہ واقعہ رونما ہوا ہے تو اس کی پردہ پوشی کرنے والوں اور مجرموں کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں جنھوں نے فیک نیوز کو ٹرینڈ بنا کر اور شیئر کر کے یہ ہیجان برپا کیا انھیں کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ اور مجرموں تک پہنچنے کی ایف آئی اے سائبر کرائمز اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی صلاحیت محدود ہے۔ نئے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے ،تاکہ یہ ہیجان انگیزی بار بار رونما نہ ہو اور مفاد پرست ملک اور سماج کے ساتھ حسب منشا کھیلنے سے گریز کریں۔