مکاری

عثمان دموہی  ہفتہ 19 اکتوبر 2024

سوشل میڈیا پر ایک ایسا ٹکر بھی چل رہا ہے جس میں کسی دل جلے نے لکھا ہے کہ 56 بہنوں کے بھائی ایران نے مسلمانوں کے دشمن اسرائیل کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلامی ممالک کی خاموشی کے بعد اسرائیل یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ فلسطینیوں پر جو ظلم و ستم ڈھا رہا ہے اس کے خلاف کوئی بھی مسلم ملک اس کے مقابلے پر نہیں آئے گا، اس کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی ہے۔

ایران شروع سے ہی اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف ظلم و زیادتی کی پالیسی کی مذمت کرتا رہا ہے، کچھ دن قبل ایران نے اس کے اہم فوجی اڈوں پر تباہی مچا دی تھی، اس کے کئی جنگی جہازوں کو نقصان پہنچا ہوگا مگر اس سلسلے میں اس نے مکمل خاموشی اختیارکر رکھی ہے۔ اسرائیل جب سے قائم ہوا ہے ہمسایہ مسلم ممالک کو ڈرانے کی پالیسی پرگامزن ہے وہ امریکی آشیرباد سے اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ مسلم ممالک کو خاطر ہی میں نہیں لا رہا ہے۔ 1967 کی جنگ میں اس نے عربوں کے کئی علاقوں کو اسرائیل میں شامل کر لیا تھا اور حتیٰ کہ مسلمانوں کے مقدس مقام بیت المقدس پر بھی قابض ہوگیا تھا۔ اس جنگ کے بعد بھی اسرائیل عراق، شام، لبنان اور اردن میں چھیڑ چھاڑ کرتا رہا ہے مگر عربوں نے درگزر کیا ہے۔

اب اسرائیل کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ ایک سال سے مسلسل فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ دنیا میں امن کے داعی امریکا اور یورپ بھی اسے اس ظلم و ستم سے روکنے کے بجائے اس کی بھرپور مدد کر رہے ہیں، اسے ایسے ایسے مہلک ہتھیار دے دیے ہیں کہ وہ کئی کئی منزلہ عمارتوں کو بموں سے چور چور کر رہا ہے پہلے اس نے تہران میں حماس کے قائد اسمٰعیل ہانیہ کو کئی منزلہ عمارت پر حملہ کر کے شہید کر دیا تھا اور اب چند ہفتے قبل حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کو بیروت میں ایک کئی منزلہ عمارت پر کئی ٹن وزنی بم مار کر شہید کر دیا ہے۔

امریکا کیا یورپی ممالک میں بھی اسرائیل کے اس ظلم و ستم اور بربریت پر اس سے ناراض نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اسرائیل مظلوم ہے، کیونکہ حماس نے اس پر راکٹوں کی برسات کرکے جنگ کا آغاز کیا تھا۔ راقم الحروف نے اس وقت بھی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ حماس کی اسرائیل پر راکٹوں کی بارش سے کسی کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب حماس نے خود کو جارح اور اسرائیل کو مظلوم بنا دیا ہے اور شاید اسرائیل بھی حماس کی اس غلطی کا انتظار کر رہا تھا۔ اب اسرائیل جو بھی غزہ میں کر رہا ہے اب وہ اپنے تئیں اپنا حق دفاع استعمال کر رہا ہے۔

امریکی رویے سے لگتا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرانے میں ہرگز مخلص نہیں ہے وہ بس عربوں کو مصروف رکھنے کے لیے طویل بے نتیجہ مذاکراتی دور چلا رہا ہے جس کا مقصد صرف اسرائیل کو تیاری کے لیے وقت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ غزہ میں اپنے اہداف حاصل کر لے اور اب تو اس نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے حتیٰ کہ حماس کو بھی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ خود حماس جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے، ادھر حزب اللہ بھی ایسی ہی کوشش کر رہی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ پہلے تو حماس اور حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل سے فیصلہ کن جنگ کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے قائدین کی شہادتوں کے بعد دونوں ہی تنظیمیں پہلی جیسی طاقتور نہیں رہی ہیں۔

اب ایسے حالات میں صرف ایک ایران ہی رہ جاتا ہے جو اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے مگر اس کے لیے بھی حالات اتنے سازگار نہیں ہیں کیونکہ امریکا پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا اگر اسرائیل پر حملہ ہوا تو امریکا براہ راست ایران پر حملہ آور ہوگا۔ اس طرح اب لگتا ہے کہ ایران کو بھی صبر سے کام لینا ہوگا، اس میں شک نہیں کہ ایران کی مدد کے لیے روس آگے آگیا ہے۔ اس کے سوکھئی طیاروں نے تہران کی فضاؤں میں پرواز کی ہے۔

سوکھئی وہ طاقتور جنگی جہاز ہیں جن سے اسرائیل بھی خوف زدہ ہے، لگتا ہے روسی خوف سے اسرائیل ایران پر حملہ نہیں کر سکے گا اس سے ایران کے ایٹمی پلانٹ اور تیل کے کنوئیں محفوظ رہ سکیں گے مگر بائیڈن، نیتن یاہو کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ ایران کے تیل کے کنوئیں اور ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرے۔ لگتا ہے اس کا مطلب الٹا ہی ہے یعنی کہ وہ ان مقامات پر لازمی حملہ کرے۔

ایران کے ایٹمی طاقت بننے کے امریکا ہمیشہ ہی خلاف رہا ہے اس نے ایران کی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس پر بے شمار پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تو یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پلانٹ کو برقرار رکھنے کا حامی ہو ۔ کچھ دن قبل اخباری رپورٹرز نے بائیڈن سے پوچھا تھا کہ کیا نیتن یاہو کے غزہ پر حملے کرنے پر آپ اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ وہ نیتن یاہو کو صرف مشورہ دیتے ہیں تو لگتا ہے کہ غزہ اور اب لبنان میں نیتن یاہو جو تباہی مچا رہا ہے وہ ان کے ہی مشوروں کا نتیجہ ہے؟ اب بتائیں اس سے زیادہ اور کیا مکاری ہو سکتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔