تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے
عباسی حکمران ابو جعفر المنصور کے اہم کاموں میں بغداد شہر کی تعمیر بے حد اہمیت کی حامل ہے
عباسی حکمران ابو جعفر المنصور کے اہم کاموں میں بغداد شہر کی تعمیر بے حد اہمیت کی حامل ہے، جب عباسی خلافت کا قیام عمل میں آیا تو ابتدائی دور میں پہلے کوفہ اور پھر ہاشمید کو دارالخلافہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن یہ شہر بھی مستقل بنیادوں پر دارالخلافہ نہ بن سکا۔
ابو جعفر نے سلطنت کی توسیع و ترقی کا کام کروایا تو اس کی اہمیت کم نظر آنے لگی چنانچہ ایک نیا شہر تعمیر کیا گیا جسے بغداد کہا جاتا ہے۔ بغداد کی وجہ تسمیہ بھی کچھ اس طرح ہے کہ اس جگہ نوشیرواں عادل کا قدیم باغ تھا جہاں بیٹھ کر وہ عدل و انصاف کے فیصلے کیا کرتا تھا، اسی مناسبت سے اسے باغ داد بھی کہا جانے لگا جو بعد میں کثرت استعمال سے بغداد بن گیا۔ بغداد کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس مقام پر قدیم دیوتا بغ کا مندر تھا، جس کی وجہ سے اس جگہ کو ''بغ داد'' کہا جانے لگا بغ داد کے معنی ''دیوتا کے عطیہ'' کے ہیں۔
ابو جعفر المنصور کی نظر اس علاقے پر پڑی تو اس نے مرکز کے طور پر اس جگہ کا انتخاب کرلیا اور ایک ایسا شہر تعمیر کروایا جو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے بے مثال تھا، اس شہر بغداد کو دریائے دجلہ کے کنارے آباد کیا گیا تھا، اس کا نقشہ دائرہ نما تھا اور اس کے وسط میں ابو جعفر المنصور کا محل تھا جس کا نام ''قصر الخلد'' تجویز کیا گیا تھا۔ یہ شہر بغداد تمام خوبیوں سے مزین تھا، امرا کے محلات، بازاروں اور باغات کا سلسلہ دور دور تک نظر آتا تھا۔
اس کے گرد دہری فصیلیں اور وسیع خندق کھودی گئی تھیں، بیرونی و اندرونی فصیلوں کے چاروں طرف دروازے تھے، جن کے مختلف نام تھے، ان دروازوں پر اونچے برج تعمیر کیے گئے تھے۔ شاہی محل سے ملحق جامع مسجد اور اس کے سامنے ایک بڑا میدان اور مشرقی کنارے پر فوجی چھاؤنیاں بنائی گئی تھیں۔ شہر بغداد اپنے حسن و جمال میں یکتا تھا، دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین فن کو بلایا گیا، اس کی تعمیر میں قیمتی و نادر سامان کا استعمال کیا گیا تھا۔ بغداد نہ کہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شامل تھا بلکہ یہ علم و ادب کا بھی گہوارہ تھا۔
لیکن اس شہر بے اماں کو بار بار تباہ و برباد کیا گیا، اسے انسانوں کے خون سے غسل دیا گیا، اس کے حسن و جمال اور علمی خزانے کو تہہ و بالا کرنے میں وحشیوں نے ذرا برابر رعایت نہیں برتی۔ یہ وحشی قوم تاتاری جن کا وطن منگولیا کا صحرائے گوبی تھا، یہ قوم انسانیت کے نام پر بدترین دھبہ ثابت ہوئی، بے رحم اور سفاک انسان نما مخلوق، شیطانی قوتوں سے بھرپور اس وحشی اور درندہ صفت قوم نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کیا، یہ جہاں جاتے آبادیوں پر قہر بن کر نازل ہوتے، فصلیں جلادیتے، عمارتوں کو مسمار کردیتے۔ تاریخ تاتاریوں کے سردار کو چنگیز خان کے نام سے پکارتی ہے۔
اس نے اپنی پیدائش کے بعد پہلا ذائقہ خون کا ہی چکھا تھا، اس نے اقتدار کی بلندی پر پہنچنے کے لیے انسانی سروں کی سیڑھی لگائی، اسے انسانوں کو سفاکی کے ساتھ قتل کرنے میں سرور اور دلی تسکین نصیب ہوتی، اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے سروں کے مینار تعمیر کردیے تھے۔ اسے اسلامی ریاستوں کو تباہ و برباد کرنے اور لوگوں کو قتل کرنے کا جنون تھا۔ بڑھتے بڑھتے وہ خوارزم کی حکومت تک پہنچ گیا اور اب چنگیز خان کو اپنے دشمن اور ایک بڑی سلطنت کے بادشاہ علاؤ الدین خوارزم کی تلاش تھی لیکن وہ منگولوں سے اپنی جان بچانے کے لیے چھپتا پھر رہا تھا اور کمال کی بات یہ تھی کہ اپنا خزانہ اور حرم بھی ساتھ لیے سرگرداں تھا۔
اگرچہ اس نے ثمرقند کو فتح کرلیا تھا اور خوارزم شاہ کے ملک کا بیشتر حصہ اس کی دسترس میں تھا لیکن خوارزم شاہ کو زندہ یا مردہ حالت میں وہ ہر حال میں دیکھنا چاہتا تھا۔ چنگیز خان کا چھوٹا بیٹا تولی خان اس مہم میں اپنے باپ کے ساتھ تھا وہ جب بھی کسی شہر میں اپنے قدم رکھتے اپنے ناپاک عزائم کو تکمیل تک پہنچاتے، اپنے گھوڑوں کی سموں سے مساجد کو روندتے، مکانوں اور قیمتی املاک کو نذرآتش کرتے، چنگیز خان خود بھی اس خونی کھیل کا حصہ بن جاتا اور جب اس دوران اس کی یہ آواز گونجتی کہ اپنے گھوڑوں کو چارہ ڈالو، گھاس کو کاٹا جاچکا ہے تو منگول خونی کھیل کا دائرہ مزید وسیع کردیتے، خوب لوٹ مار و قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا۔ اس خونی نظارے کو دیکھ کر بخارا کے امام رکن الدین نے برملا کہا تھا کہ یہ تو خدائے ذوالجلال کی آندھی ہے جو ہمارے اعمال کی وجہ سے مسلط کردی گئی ہے۔
آج بھی امت مسلمہ کا گھیراؤ اسرائیل اور اس کے حواریوں نے مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیا ہوا ہے اس کی وجہ مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے۔ موجودہ دور کے حالات یہ ہیں کہ پوری دنیا میں قدم قدم پر نئے نئے چنگیز خان موجود ہیں۔ افغانستان ہو یا ہندوستان، کشمیر ہو یا عراق، پاکستان، مصر، فلسطین، غرض ہر جگہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہاتھوں میں اسلحہ لیے برسر پیکار ہیں۔ امت مسلمہ کے خون سے زمین سرخ ہوگئی ہے، معصوم بچوں کو تہہ تیغ کیا جا رہا ہے، ہر جگہ تاتاری اور چنگیز جیسے سفاک دشمن اپنی مکمل درندگی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ عہد مغلیہ ہو یا خلافت، بنو عباس، یا خلافت فاطمین، مصر یا موجودہ اسلامی حکومتیں، ہر دور میں مسلمان حکمران اپنی عیش پسندی، عاقبت نااندیشی اور ذاتی مفاد کی وجہ سے اپنی حکومتوں کو زوال تک پہنچانے میں پیش پیش رہے ہیں، اپنے رفقا و وزرا پر اندھا اعتماد کرکے ملک کو نہ کہ دشمنوں کے حوالے کرنا پڑا بلکہ اپنی اور رعایا کی بھی جان و مال کے دشمن ہوئے۔
عباسیوں کے آخری خلیفہ مستعصم کی مثال کو لے لیجیے۔ اگر وہ دوست دشمن میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا تو ایسے شخص کو اپنا وزیر کبھی مقرر نہ کرتا جو عباسی حکومت کے قیام کا ہی مخالف تھا اور اب وہی وزیر ابن علقمی اپنا بدلہ لے رہا تھا، اور اپنی حکومت کے قیام کے لیے وہ حد سے زیادہ بڑھنے کے لیے ہر لمحہ تیار تھا، چنانچہ یہی ہوا کہ ہلاکو خان کو ابن علقمی نے خطوط لکھ کر اپنے ہی ملک پر حملے کی دعوت دی اور اپنے تعاون کا مکمل یقین دلایا۔
اس وقت چنگیز خان کا پوتا منگو خان جانشین تھا، آخرکار ہلاکو خان نے بغداد کا محاصرہ کرلیا اور منجنیقیں بغداد شہر پر سنگ باری کرتی رہیں۔ بدحواسی اور غیر دانشمندی کا یہ عالم تھا کہ جب نفرت کی آگ محل کے اطراف میں بڑھنے لگی اور قتل و غارت کی فضا پروان چڑھتی چلی گئی تب اپنے وزیر کے کہنے پر ہلاکو خان کے پاس جاکر جاں طلبی کی درخواست کی۔ شکار خود جال میں آگیا، لہٰذا ہلاکو خان اس کی ہی سلطنت میں اس قدر شیر ہوا کہ اسے حکم دے ڈالا کہ اپنے ملک کے علما، اراکین سلطنت اور عمائدین شہر کو بھی بلالیں تاکہ فیصلہ ہوسکے، بادشاہ جن حالات میں گھر چکا تھا، اس میں سوال کرنے کی اجازت کہاں؟ لہٰذا سب کو بلالیا گیا، خلیفہ کے حکم کے مطابق یہ اعلیٰ حضرات، سچے مسلمان تاتاریوں کے لشکر میں آگئے اور خلیفہ کو اپنے پاس روک لیا۔ ہلاکو خان نے بے دردی کے ساتھ ان سب کو اور شہر کے تمام بے بس اور معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس قدر خون بہایا کہ دریائے دجلہ کا پانی خون سے سرخ ہوگیا۔
ہم اگر آج کی دنیا پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہلاکو خان، چنگیز خان، میر جعفر، میر صادق، ابن علقمی قدم قدم پر موجود ہیں، نام مختلف ہیں لیکن کام ایک ہی ہے، کبھی خودکش حملوں کے ذریعے تو کبھی حکومتوں پر اپنی طاقت کے ذریعے چڑھائی اور املاک کی بربادی اور اب عراق میں موصل، تکریت، صوبہ الانبار، مرکزی شہر فلوجہ، تلفصر اور جبل المحصوریہ پر قبضہ کرنے کے بعد اب بغداد کی طرف پیش قدمی کی کوشش جاری ہے۔ آج امریکا بھی منگولوں کی جگہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
چنگیز خان کی طرح اس نے عراق و افغانستان کو تہس نہس کیا اور خوب خون کی ہولی کھیلی، بوسنیا میں ہزاروں بے قصور لوگوں کو شہید کیا اور اب جب کہ عراق خانہ جنگی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ سب کچھ تباہ و برباد ہو چکا ہے تو امریکی صدر بارک اوباما فرماتے ہیں کہ امریکا عراق کی خانہ جنگی میں نہیں کودے گا۔
امت مسلمہ کے تحفظ کے لیے دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کو ہمت و جرأت کے ساتھ بہادری، جواں مردی اور ثابت قدمی ، اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنا اور اپنے مطالبات منوانا، شہری آبادیوں پر حملوں کی روک تھام اور ظلم و جبر کے سلسلے کو روکنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
ابو جعفر نے سلطنت کی توسیع و ترقی کا کام کروایا تو اس کی اہمیت کم نظر آنے لگی چنانچہ ایک نیا شہر تعمیر کیا گیا جسے بغداد کہا جاتا ہے۔ بغداد کی وجہ تسمیہ بھی کچھ اس طرح ہے کہ اس جگہ نوشیرواں عادل کا قدیم باغ تھا جہاں بیٹھ کر وہ عدل و انصاف کے فیصلے کیا کرتا تھا، اسی مناسبت سے اسے باغ داد بھی کہا جانے لگا جو بعد میں کثرت استعمال سے بغداد بن گیا۔ بغداد کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس مقام پر قدیم دیوتا بغ کا مندر تھا، جس کی وجہ سے اس جگہ کو ''بغ داد'' کہا جانے لگا بغ داد کے معنی ''دیوتا کے عطیہ'' کے ہیں۔
ابو جعفر المنصور کی نظر اس علاقے پر پڑی تو اس نے مرکز کے طور پر اس جگہ کا انتخاب کرلیا اور ایک ایسا شہر تعمیر کروایا جو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے بے مثال تھا، اس شہر بغداد کو دریائے دجلہ کے کنارے آباد کیا گیا تھا، اس کا نقشہ دائرہ نما تھا اور اس کے وسط میں ابو جعفر المنصور کا محل تھا جس کا نام ''قصر الخلد'' تجویز کیا گیا تھا۔ یہ شہر بغداد تمام خوبیوں سے مزین تھا، امرا کے محلات، بازاروں اور باغات کا سلسلہ دور دور تک نظر آتا تھا۔
اس کے گرد دہری فصیلیں اور وسیع خندق کھودی گئی تھیں، بیرونی و اندرونی فصیلوں کے چاروں طرف دروازے تھے، جن کے مختلف نام تھے، ان دروازوں پر اونچے برج تعمیر کیے گئے تھے۔ شاہی محل سے ملحق جامع مسجد اور اس کے سامنے ایک بڑا میدان اور مشرقی کنارے پر فوجی چھاؤنیاں بنائی گئی تھیں۔ شہر بغداد اپنے حسن و جمال میں یکتا تھا، دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین فن کو بلایا گیا، اس کی تعمیر میں قیمتی و نادر سامان کا استعمال کیا گیا تھا۔ بغداد نہ کہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شامل تھا بلکہ یہ علم و ادب کا بھی گہوارہ تھا۔
لیکن اس شہر بے اماں کو بار بار تباہ و برباد کیا گیا، اسے انسانوں کے خون سے غسل دیا گیا، اس کے حسن و جمال اور علمی خزانے کو تہہ و بالا کرنے میں وحشیوں نے ذرا برابر رعایت نہیں برتی۔ یہ وحشی قوم تاتاری جن کا وطن منگولیا کا صحرائے گوبی تھا، یہ قوم انسانیت کے نام پر بدترین دھبہ ثابت ہوئی، بے رحم اور سفاک انسان نما مخلوق، شیطانی قوتوں سے بھرپور اس وحشی اور درندہ صفت قوم نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کیا، یہ جہاں جاتے آبادیوں پر قہر بن کر نازل ہوتے، فصلیں جلادیتے، عمارتوں کو مسمار کردیتے۔ تاریخ تاتاریوں کے سردار کو چنگیز خان کے نام سے پکارتی ہے۔
اس نے اپنی پیدائش کے بعد پہلا ذائقہ خون کا ہی چکھا تھا، اس نے اقتدار کی بلندی پر پہنچنے کے لیے انسانی سروں کی سیڑھی لگائی، اسے انسانوں کو سفاکی کے ساتھ قتل کرنے میں سرور اور دلی تسکین نصیب ہوتی، اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے سروں کے مینار تعمیر کردیے تھے۔ اسے اسلامی ریاستوں کو تباہ و برباد کرنے اور لوگوں کو قتل کرنے کا جنون تھا۔ بڑھتے بڑھتے وہ خوارزم کی حکومت تک پہنچ گیا اور اب چنگیز خان کو اپنے دشمن اور ایک بڑی سلطنت کے بادشاہ علاؤ الدین خوارزم کی تلاش تھی لیکن وہ منگولوں سے اپنی جان بچانے کے لیے چھپتا پھر رہا تھا اور کمال کی بات یہ تھی کہ اپنا خزانہ اور حرم بھی ساتھ لیے سرگرداں تھا۔
اگرچہ اس نے ثمرقند کو فتح کرلیا تھا اور خوارزم شاہ کے ملک کا بیشتر حصہ اس کی دسترس میں تھا لیکن خوارزم شاہ کو زندہ یا مردہ حالت میں وہ ہر حال میں دیکھنا چاہتا تھا۔ چنگیز خان کا چھوٹا بیٹا تولی خان اس مہم میں اپنے باپ کے ساتھ تھا وہ جب بھی کسی شہر میں اپنے قدم رکھتے اپنے ناپاک عزائم کو تکمیل تک پہنچاتے، اپنے گھوڑوں کی سموں سے مساجد کو روندتے، مکانوں اور قیمتی املاک کو نذرآتش کرتے، چنگیز خان خود بھی اس خونی کھیل کا حصہ بن جاتا اور جب اس دوران اس کی یہ آواز گونجتی کہ اپنے گھوڑوں کو چارہ ڈالو، گھاس کو کاٹا جاچکا ہے تو منگول خونی کھیل کا دائرہ مزید وسیع کردیتے، خوب لوٹ مار و قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا۔ اس خونی نظارے کو دیکھ کر بخارا کے امام رکن الدین نے برملا کہا تھا کہ یہ تو خدائے ذوالجلال کی آندھی ہے جو ہمارے اعمال کی وجہ سے مسلط کردی گئی ہے۔
آج بھی امت مسلمہ کا گھیراؤ اسرائیل اور اس کے حواریوں نے مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیا ہوا ہے اس کی وجہ مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے۔ موجودہ دور کے حالات یہ ہیں کہ پوری دنیا میں قدم قدم پر نئے نئے چنگیز خان موجود ہیں۔ افغانستان ہو یا ہندوستان، کشمیر ہو یا عراق، پاکستان، مصر، فلسطین، غرض ہر جگہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہاتھوں میں اسلحہ لیے برسر پیکار ہیں۔ امت مسلمہ کے خون سے زمین سرخ ہوگئی ہے، معصوم بچوں کو تہہ تیغ کیا جا رہا ہے، ہر جگہ تاتاری اور چنگیز جیسے سفاک دشمن اپنی مکمل درندگی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ عہد مغلیہ ہو یا خلافت، بنو عباس، یا خلافت فاطمین، مصر یا موجودہ اسلامی حکومتیں، ہر دور میں مسلمان حکمران اپنی عیش پسندی، عاقبت نااندیشی اور ذاتی مفاد کی وجہ سے اپنی حکومتوں کو زوال تک پہنچانے میں پیش پیش رہے ہیں، اپنے رفقا و وزرا پر اندھا اعتماد کرکے ملک کو نہ کہ دشمنوں کے حوالے کرنا پڑا بلکہ اپنی اور رعایا کی بھی جان و مال کے دشمن ہوئے۔
عباسیوں کے آخری خلیفہ مستعصم کی مثال کو لے لیجیے۔ اگر وہ دوست دشمن میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا تو ایسے شخص کو اپنا وزیر کبھی مقرر نہ کرتا جو عباسی حکومت کے قیام کا ہی مخالف تھا اور اب وہی وزیر ابن علقمی اپنا بدلہ لے رہا تھا، اور اپنی حکومت کے قیام کے لیے وہ حد سے زیادہ بڑھنے کے لیے ہر لمحہ تیار تھا، چنانچہ یہی ہوا کہ ہلاکو خان کو ابن علقمی نے خطوط لکھ کر اپنے ہی ملک پر حملے کی دعوت دی اور اپنے تعاون کا مکمل یقین دلایا۔
اس وقت چنگیز خان کا پوتا منگو خان جانشین تھا، آخرکار ہلاکو خان نے بغداد کا محاصرہ کرلیا اور منجنیقیں بغداد شہر پر سنگ باری کرتی رہیں۔ بدحواسی اور غیر دانشمندی کا یہ عالم تھا کہ جب نفرت کی آگ محل کے اطراف میں بڑھنے لگی اور قتل و غارت کی فضا پروان چڑھتی چلی گئی تب اپنے وزیر کے کہنے پر ہلاکو خان کے پاس جاکر جاں طلبی کی درخواست کی۔ شکار خود جال میں آگیا، لہٰذا ہلاکو خان اس کی ہی سلطنت میں اس قدر شیر ہوا کہ اسے حکم دے ڈالا کہ اپنے ملک کے علما، اراکین سلطنت اور عمائدین شہر کو بھی بلالیں تاکہ فیصلہ ہوسکے، بادشاہ جن حالات میں گھر چکا تھا، اس میں سوال کرنے کی اجازت کہاں؟ لہٰذا سب کو بلالیا گیا، خلیفہ کے حکم کے مطابق یہ اعلیٰ حضرات، سچے مسلمان تاتاریوں کے لشکر میں آگئے اور خلیفہ کو اپنے پاس روک لیا۔ ہلاکو خان نے بے دردی کے ساتھ ان سب کو اور شہر کے تمام بے بس اور معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس قدر خون بہایا کہ دریائے دجلہ کا پانی خون سے سرخ ہوگیا۔
ہم اگر آج کی دنیا پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہلاکو خان، چنگیز خان، میر جعفر، میر صادق، ابن علقمی قدم قدم پر موجود ہیں، نام مختلف ہیں لیکن کام ایک ہی ہے، کبھی خودکش حملوں کے ذریعے تو کبھی حکومتوں پر اپنی طاقت کے ذریعے چڑھائی اور املاک کی بربادی اور اب عراق میں موصل، تکریت، صوبہ الانبار، مرکزی شہر فلوجہ، تلفصر اور جبل المحصوریہ پر قبضہ کرنے کے بعد اب بغداد کی طرف پیش قدمی کی کوشش جاری ہے۔ آج امریکا بھی منگولوں کی جگہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
چنگیز خان کی طرح اس نے عراق و افغانستان کو تہس نہس کیا اور خوب خون کی ہولی کھیلی، بوسنیا میں ہزاروں بے قصور لوگوں کو شہید کیا اور اب جب کہ عراق خانہ جنگی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ سب کچھ تباہ و برباد ہو چکا ہے تو امریکی صدر بارک اوباما فرماتے ہیں کہ امریکا عراق کی خانہ جنگی میں نہیں کودے گا۔
امت مسلمہ کے تحفظ کے لیے دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کو ہمت و جرأت کے ساتھ بہادری، جواں مردی اور ثابت قدمی ، اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنا اور اپنے مطالبات منوانا، شہری آبادیوں پر حملوں کی روک تھام اور ظلم و جبر کے سلسلے کو روکنا ناگزیر ہوگیا ہے۔