حریت پسندی اور دہشت گردی میں فرق
بڑے زمینی حملے کی تیاری بھی کی جارہی ہے، حملوں کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔
امریکا کے بغل بچہ اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کرکے کشت وخون میں نہلادیا ہے۔ فضائی حملوں اور بمباری سے سیکڑوں فلسطینی شہید، ہزاروں زخمی اور بے گھر ہوگئے ہیں۔ اسرائیل نے سرحدوں پر مزید فوج تعینات کرکے ہوائی جہازوں سے شمالی غزہ خالی کرکے نکل جانے کے پمفلٹ گرائے ہیں۔
جن کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کارروائی جاری رکھنے اور ہر وہ طریقہ جو طویل عرصے کے لیے اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہو اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دنیا کو للکارا ہے کہ کوئی عالمی طاقت اسرائیل کو طاقت کے استعمال سے نہیں روک سکتی نہ ہی آپریشن میں کوئی عالمی دباؤ قبول کیا جائے گا، فوجی کارروائی اہداف کے حصول تک جاری رہے گی۔
بڑے زمینی حملے کی تیاری بھی کی جارہی ہے، حملوں کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔ انھوں نے کہاکہ ہلاکتوں کی ذمے داری حماس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کیے جانے والے حملوں میں ایک ہفتے کے دوران سیکڑوں انسانی زندگیاں اور املاک مساجد، رفاہی ادارے خوراک کے ذخائر اور اقوام متحدہ کے دفاتر تباہ و برباد ہوچکے ہیں، جس کے جواب میں حماس نے اسرائیل پر لا تعداد راکٹ فائر کیے لیکن ان میں اب تک کوئی اسرائیلی ہلاک نہیں ہوا کیوں کہ حماس اور اسرائیل کی حربی صلاحیت میں تحلیل اور ٹیکنیک کا فرق ہے ان کی مزاحمت محض علامتی نوعیت کی ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے جن میں سابق فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہانیہ کے دو بھتیجے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہلاکتوں میں ایک چوتھائی تعداد بچوں جب کہ 77 فی صد عام شہریوں کی ہے۔ جس کی وجہ سے مسئلے کی سنگینی زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ مشرقی تیمور کا مسئلہ تو دنوں میں حل کردیا جاتا ہے مگر فلسطینی اور کشمیر کا مسئلہ نصف صدی گزر جانے اور لاکھوں زندگیوں کے اتلاف کے باوجود بھی کیوں نہیں حل ہوتے؟ پہلے تو ایسے معاملات پر قرارداد بھی پاس کردی جاتی تھیں ۔ مگر اب صرف پریس ریلیز پر اکتفا کیا جا رہا ہے جسے پاکستانی سیکریٹری خارجہ سرتاج عزیز نے بجا طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تمام پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ سلامتی کونسل کوئی عملی اقدام اٹھانے اور کردار ادا کرنے کی بجائے محض فریقین سے جنگ بندی اور کشیدگی میں کمی اور امن امان کی بحالی کے لیے 2012 کے جنگ بندی کے معاہدے کو موثر بنانے کی اپیل کررہی ہے اور فلسطینی صدر اپنے ملک کو عالمی تحفظ میں لینے کے لیے اقوام متحدہ کو خط لکھنے پر مجبور ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یو این او سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی خریداری پر پابندی عائد کی جائے اور اقوام متحدہ اپنا مشن بھیج کر جنگی جرائم کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائے ۔
جہاں منافقت و مفادات کے شکار مصر کے فوجی حکمران اسرائیلی فوجی کارروائی کے حمایتی بنے ہوئے ہیں، وہیں ترک صدر جیسے حکمران بھی ہیں جنھوں نے اسرائیل سے حملے فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس علاقے میں زمینی فوجی کارروائی کا انتباہ بھی کیا ہے۔ سعودی عرب نے بھی فوری طور پر فلسطینی ہلال احمر کو 2ارب ریال کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی اسرائیلی اقدام کو جنگی جرائم قرار دیتے ہوئے بھرپور مذمت کی ہے۔
اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے جاری ہیں پاکستان میں بھی مظاہروں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ پاکستان میں فلسطینی سفیر نے کہاہے کہ ''غزہ پر جارحیت اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے''مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان مذمتی بیانات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ اسلامی ممالک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور اسرائیلی سفیروں کو ملک بدر کریں، ملک بھر کی بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز نے اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اب بھی وقت ہے کہ مسلمان جاگ جائیں۔ 16جولائی کو ملک بھر کی عدالتوں کے بائیکاٹ اور مظاہروں کے انعقاد کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
جس طرح کچھ عرصہ قبل بھارتی حکومت نے پاکستانی فوجیوں پر ہندوستان میں داخل ہوکر اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا الزام لگاکر جنگی جنون پیدا کیا تھا جو بعد میں خود ان کے اپنے ذرائع سے من گھڑت ثابت ہوا تھا۔ بالکل اسی طریقے سے اسرائیل نے بھی اپنے تین نوجوانوں کے قتل کا ڈرامہ رچا کر اپنی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کی کوششں ہے۔ اسی طرح اسرائیل نے امریکا کا Preemptive Strike کا اصول بھی گود لے لیا ہے کہ جہاں شبہ ہو کہ ہمارے مستقبل کے لیے خطرہ ہے ہمیں حق حاصل ہے کہ اسے ملیا میٹ کردیں۔
اسی فارمولے سے امریکا دنیا کو تاراج کرتا چلا جارہا ہے اور اس کے خلاف رد عمل کو انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی جیسے ناموں سے موسوم کردیتا ہے اس نے عراق، افغانستان، لیبیا ودیگر اسلامی ملکوں سے لے کر پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک میں دہشت گردی کے خلاف اور قیام امن کے نام پر اسکلڈ میزائل، کلسٹر بموں، لیزر گائیڈڈ میزائلوں، بموں اور بمبار طیاروں کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کو لقمہ اجل بنا دیا، ہزاروں کو گرفتار، اغوا اور لاپتہ کرکے ابو غریب ، گوانتا ناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانوں میں قید کرکے انسانیت اور حیا سوز مظالم کرکے عدالتوں سے انصاف کا خون کرکے ایک شرمناک تاریخ رقم کی ہے۔
جن کی حقیقت سامنے آنے پر خود اس مہم میں شریک حکومتی ذمے داروں کی طرف سے بھی اعتراف، مذمت ،مخالفت دیکھنے میں آئی اور دنیا بھر میں ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا، دہشت گردی کے خاتمے اور عالمی امن کے نام پر کائناتی دہشت گردی کا جو عمل جاری ہے وہ انسانیت کے چہرے پر بد نما داغ اور عالمی امن کے ضامن اداروں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور اس مہم میں شریک امریکا کے ہمنوا کاسہ لیس منافق اور مفادات میں ڈوبے مسلمان حکمرانوں اور سیاست دانوں کے گلے کا طوق ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانیت کے چارٹر میں یہ باتیں تسلیم کی گئی ہیں کہ تمام انسان عزت و حقوق میں برابر ہیں۔
کوئی شخص بلا کسی رنگ، نسل، زبان، جنس، مذہب، سیاسی، قومی اور سماجی تعلق کے انسانی حقوق کے مسودے میں دیے گئے حقوق اور آزادی کا مستحق ہے کسی شخص سے تشدد ،ظلم، غیر انسانی و ناپسندیدہ رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی اور نجی حالات میں مداخلت نہیں کی جاسکتی اور مداخلت کی صورت میں ہر شخص کو حفاظت کا حق حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جو ارکان منشور کی خلاف ورزی کریںگے انھیں خارج کردیا جائے گا مگر یہ عالمی قوتیں کھلم کھلا ان قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
اسرائیل اور بھارت گزشتہ نصف صدی سے ان قوانین کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں، فلسطین کے علاوہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو اپنا قانونی حق مانگنے کی پاداش میں شہید کیا جا چکا ہے، عصمتیں تار تار کی گئیں بڑی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ، اغوا اور گرفتار کیا گیا ہے۔
اپنے ممالک، علاقہ اور املاک پر قبضہ کے خلاف جد وجہد اور مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینے والے کیا جارحیت اور حریت پسندی میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں؟ جب کہ حق خود ارادیت اور آزادی جیسی چیزیں اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل ہیں سامراجی قوتوں کا یہ کردار ان کے دہرے معیار اور مذموم عزائم کی نشاندہی اور عالمی اداروں کی بے اثری و بے وقعتی ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے دفاع یا حریت پسندی کا قانونی اختیار و حق استعمال کرنیوالوں کو باغی و دہشت گرد ٹھہرایا جاتا ہے، یہ رجحان دنیا کو کسی بڑی تباہی سے دو چار کرسکتا ہے۔
جن کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کارروائی جاری رکھنے اور ہر وہ طریقہ جو طویل عرصے کے لیے اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہو اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دنیا کو للکارا ہے کہ کوئی عالمی طاقت اسرائیل کو طاقت کے استعمال سے نہیں روک سکتی نہ ہی آپریشن میں کوئی عالمی دباؤ قبول کیا جائے گا، فوجی کارروائی اہداف کے حصول تک جاری رہے گی۔
بڑے زمینی حملے کی تیاری بھی کی جارہی ہے، حملوں کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔ انھوں نے کہاکہ ہلاکتوں کی ذمے داری حماس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کیے جانے والے حملوں میں ایک ہفتے کے دوران سیکڑوں انسانی زندگیاں اور املاک مساجد، رفاہی ادارے خوراک کے ذخائر اور اقوام متحدہ کے دفاتر تباہ و برباد ہوچکے ہیں، جس کے جواب میں حماس نے اسرائیل پر لا تعداد راکٹ فائر کیے لیکن ان میں اب تک کوئی اسرائیلی ہلاک نہیں ہوا کیوں کہ حماس اور اسرائیل کی حربی صلاحیت میں تحلیل اور ٹیکنیک کا فرق ہے ان کی مزاحمت محض علامتی نوعیت کی ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے جن میں سابق فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہانیہ کے دو بھتیجے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہلاکتوں میں ایک چوتھائی تعداد بچوں جب کہ 77 فی صد عام شہریوں کی ہے۔ جس کی وجہ سے مسئلے کی سنگینی زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ مشرقی تیمور کا مسئلہ تو دنوں میں حل کردیا جاتا ہے مگر فلسطینی اور کشمیر کا مسئلہ نصف صدی گزر جانے اور لاکھوں زندگیوں کے اتلاف کے باوجود بھی کیوں نہیں حل ہوتے؟ پہلے تو ایسے معاملات پر قرارداد بھی پاس کردی جاتی تھیں ۔ مگر اب صرف پریس ریلیز پر اکتفا کیا جا رہا ہے جسے پاکستانی سیکریٹری خارجہ سرتاج عزیز نے بجا طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تمام پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ سلامتی کونسل کوئی عملی اقدام اٹھانے اور کردار ادا کرنے کی بجائے محض فریقین سے جنگ بندی اور کشیدگی میں کمی اور امن امان کی بحالی کے لیے 2012 کے جنگ بندی کے معاہدے کو موثر بنانے کی اپیل کررہی ہے اور فلسطینی صدر اپنے ملک کو عالمی تحفظ میں لینے کے لیے اقوام متحدہ کو خط لکھنے پر مجبور ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یو این او سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی خریداری پر پابندی عائد کی جائے اور اقوام متحدہ اپنا مشن بھیج کر جنگی جرائم کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائے ۔
جہاں منافقت و مفادات کے شکار مصر کے فوجی حکمران اسرائیلی فوجی کارروائی کے حمایتی بنے ہوئے ہیں، وہیں ترک صدر جیسے حکمران بھی ہیں جنھوں نے اسرائیل سے حملے فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس علاقے میں زمینی فوجی کارروائی کا انتباہ بھی کیا ہے۔ سعودی عرب نے بھی فوری طور پر فلسطینی ہلال احمر کو 2ارب ریال کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی اسرائیلی اقدام کو جنگی جرائم قرار دیتے ہوئے بھرپور مذمت کی ہے۔
اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے جاری ہیں پاکستان میں بھی مظاہروں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ پاکستان میں فلسطینی سفیر نے کہاہے کہ ''غزہ پر جارحیت اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے''مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان مذمتی بیانات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ اسلامی ممالک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور اسرائیلی سفیروں کو ملک بدر کریں، ملک بھر کی بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز نے اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اب بھی وقت ہے کہ مسلمان جاگ جائیں۔ 16جولائی کو ملک بھر کی عدالتوں کے بائیکاٹ اور مظاہروں کے انعقاد کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
جس طرح کچھ عرصہ قبل بھارتی حکومت نے پاکستانی فوجیوں پر ہندوستان میں داخل ہوکر اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا الزام لگاکر جنگی جنون پیدا کیا تھا جو بعد میں خود ان کے اپنے ذرائع سے من گھڑت ثابت ہوا تھا۔ بالکل اسی طریقے سے اسرائیل نے بھی اپنے تین نوجوانوں کے قتل کا ڈرامہ رچا کر اپنی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کی کوششں ہے۔ اسی طرح اسرائیل نے امریکا کا Preemptive Strike کا اصول بھی گود لے لیا ہے کہ جہاں شبہ ہو کہ ہمارے مستقبل کے لیے خطرہ ہے ہمیں حق حاصل ہے کہ اسے ملیا میٹ کردیں۔
اسی فارمولے سے امریکا دنیا کو تاراج کرتا چلا جارہا ہے اور اس کے خلاف رد عمل کو انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی جیسے ناموں سے موسوم کردیتا ہے اس نے عراق، افغانستان، لیبیا ودیگر اسلامی ملکوں سے لے کر پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک میں دہشت گردی کے خلاف اور قیام امن کے نام پر اسکلڈ میزائل، کلسٹر بموں، لیزر گائیڈڈ میزائلوں، بموں اور بمبار طیاروں کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کو لقمہ اجل بنا دیا، ہزاروں کو گرفتار، اغوا اور لاپتہ کرکے ابو غریب ، گوانتا ناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانوں میں قید کرکے انسانیت اور حیا سوز مظالم کرکے عدالتوں سے انصاف کا خون کرکے ایک شرمناک تاریخ رقم کی ہے۔
جن کی حقیقت سامنے آنے پر خود اس مہم میں شریک حکومتی ذمے داروں کی طرف سے بھی اعتراف، مذمت ،مخالفت دیکھنے میں آئی اور دنیا بھر میں ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا، دہشت گردی کے خاتمے اور عالمی امن کے نام پر کائناتی دہشت گردی کا جو عمل جاری ہے وہ انسانیت کے چہرے پر بد نما داغ اور عالمی امن کے ضامن اداروں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور اس مہم میں شریک امریکا کے ہمنوا کاسہ لیس منافق اور مفادات میں ڈوبے مسلمان حکمرانوں اور سیاست دانوں کے گلے کا طوق ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانیت کے چارٹر میں یہ باتیں تسلیم کی گئی ہیں کہ تمام انسان عزت و حقوق میں برابر ہیں۔
کوئی شخص بلا کسی رنگ، نسل، زبان، جنس، مذہب، سیاسی، قومی اور سماجی تعلق کے انسانی حقوق کے مسودے میں دیے گئے حقوق اور آزادی کا مستحق ہے کسی شخص سے تشدد ،ظلم، غیر انسانی و ناپسندیدہ رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی اور نجی حالات میں مداخلت نہیں کی جاسکتی اور مداخلت کی صورت میں ہر شخص کو حفاظت کا حق حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جو ارکان منشور کی خلاف ورزی کریںگے انھیں خارج کردیا جائے گا مگر یہ عالمی قوتیں کھلم کھلا ان قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
اسرائیل اور بھارت گزشتہ نصف صدی سے ان قوانین کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں، فلسطین کے علاوہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو اپنا قانونی حق مانگنے کی پاداش میں شہید کیا جا چکا ہے، عصمتیں تار تار کی گئیں بڑی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ، اغوا اور گرفتار کیا گیا ہے۔
اپنے ممالک، علاقہ اور املاک پر قبضہ کے خلاف جد وجہد اور مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینے والے کیا جارحیت اور حریت پسندی میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں؟ جب کہ حق خود ارادیت اور آزادی جیسی چیزیں اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل ہیں سامراجی قوتوں کا یہ کردار ان کے دہرے معیار اور مذموم عزائم کی نشاندہی اور عالمی اداروں کی بے اثری و بے وقعتی ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے دفاع یا حریت پسندی کا قانونی اختیار و حق استعمال کرنیوالوں کو باغی و دہشت گرد ٹھہرایا جاتا ہے، یہ رجحان دنیا کو کسی بڑی تباہی سے دو چار کرسکتا ہے۔