رُوپ متی

ظاہر ہے ایسی حالت میں امور مملکت کی جانب توجہ کیا دی جاتی ،خلفشار و انتشار پیدا ہونا شروع ہوگی

باز بہادر ، تان سین کا استاد بھائی اور دونوں عادل شاہ سوری کے شاگرد تھے۔اس کا شمار ہندوستان کے موسیقی کے چوٹی کے استادوں ، گویوں اور موسیقاروں میں ہوتا تھا ۔ ہندوستان کی موسیقی کی تاریخ میں کم ہی لوگ باز بہادر کے پائے کے ہوں گے۔وہ1554ء۔1561ء مالوہ کا حکمراں رہا۔ مالوہ کو 1306ء میں علاؤ الدین خلیجی نے فتح کرکے پہلی مرتبہ مسلمان سلطنت میں شامل کرلیا تھا ۔ 256 برس خلجیوں اور سوریوں نے وہاں حکومت کی۔ باز بہادر بھی خلجی تھا۔وہ اپنے باپ شجاع خان کی وفات 1554ء کے بعد مالوہ کا حکمران بنا۔

شیر شاہ سوری کا بیٹا سلیم شاہ سوری ، شجاع خان سے سخت نفرت کرتا تھا ، اس کی وفات کے بعد سلیم شاہ کے ایک طاقتور امیر دولت خان نے باز بہادر پر حملہ کرنا چاہا۔باز بہادر نے جو ایک آرام طلب ، عیش پسند اور ہر وقت دارالخلافہ سارنگ پور میں موسیقی کی محفلوں میں مگن رہتا تھا۔اپنی والدہ کے ذریعے با اثر امراء کے ساتھ دولت خان کو جنگ سے باز رکھنے کے لیے اجین ، مندو اور بعض دوسرے علاقے حوالے کیے۔ خود موسیقی کی محفلوں میں مگن رہا ۔ دولت خان کو دیے گئے علاقوں کا اُسے دکھ تھا ۔

باز بہادر نے دولت خان کو کسی بہانے قتل کرکے اُس کا سر سارنگ پور کے شہر کے دروازے پر لٹکا دیا اور اپنے سابقہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ اُس نے اپنے چھوٹے بھائی ملک مصطفیٰ جو نہایت دلیر لیکن جنگیں لڑ لڑ کر تھک چکا تھا ، پر حملہ کرکے اُس کے مقبوضہ علاقوں رائے سین اور بھلیر پر بھی قبضہ کرکے اپنی سلطنت کووسعت دی۔اس نے کدوالہ کو بھی فتح کیا۔ رانی اور گاوتی سے شکست کا صدمہ دور کرنے کی خاطر عیش و عشرت اور موسیقی میں مکمل محو ہوگیا۔

سارنگ پور میں اُس نے کئی گانے والیوں کو جمع کیا تھا ، انھی میں ایک خوبصورت اور کمال کی خوش کن آواز ، فن موسیقی کی ماہر عورت رُوپ متی کی محبت میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ امور مملکت کی جانب چھوٹی موٹی دی جانے والی توجہ سے بھی بے نیاز رہا۔ہر وقت روپ متی کے ساتھ رہتا ، جو اس کے دل و دماغ پر چھا گئی تھی۔رُوپ متی کو بھی باز بہادر سے گہری اور سچی محبت تھی ۔ دونوں ایک دوسرے سے لمحہ بھر بھی جدا نہ رہ سکتے تھے ، سارے ہندوستان میں ان کی محبت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔

ظاہر ہے ایسی حالت میں امور مملکت کی جانب توجہ کیا دی جاتی ،خلفشار و انتشار پیدا ہونا شروع ہوگیا۔اکبر جو اکثر ایسے حالات کی تاڑ میں رہا کرتا تھا ، یعنی کسی بھی جگہ کمزوری کے آثار دکھائی دیتے ہی حملہ کرکے قبضہ کرلیتا۔اس بارے میں کشمیر، قندھار،کابل،احمد نگر،گجرات اور کالنجر وغیرہ کی مثالیں دیں جا سکتی ہیں۔ایسا کم ہی ہوا کہ اکبر نے مضبوط اور مستحکم علاقوں یا حکمرانوں پر لشکر کشی کی ہو۔مالوہ کی کمزور حالت دیکھ کر اکبر سے رہا نہ گیا اور اس نے مالوہ کو فتح کرنے کی ٹھان لی۔اکبر نے پیر محمد اورآدم خان کو 1561ء میں مالوہ پر حملہ کرنے کے لیے نہایت تربیت یافتہ اور بڑی فوج کے ساتھ بھیجا۔


باز بہادر اپنے عشق میں اتنا مگن تھا کہ اسے اکبر کے ارادوں کی خبر نہ ہوئی اور جب اکبر کا لشکر اس کے سر پر آن پہنچا تو اس کے اوسان خطا ہوچکے تھے، لیکن اس نے بزدلی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے نہایت تیزی سے عیش و عشرت کے محفل سے اٹھ کر اپنی فوج کو جتنا منظم کرنا تھا کرلیا اور سارنگ پور سے دو میل دور مغل فوج کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔ جانے سے پہلے اس نے اپنے چند لوگوں کو وصیت کی اگر اسے میدان جنگ میں شکست ہوجائے تو محل کی تمام عورتوں کو قتل کردیا جائے، تاکہ عورتیں مغلوں کے ہاتھ نہ آسکیں۔چونکہ باز بہادر ، اکبر کی فوج کی آمد سے بے خبر تھا اس لیے منظم تیاری نہ ہونے کے سبب اسے کامیابی نہ مل سکی اور وہ شکست کے بعد مالوہ سے دور سارنگ پو ر کے کسی گوشے میں چلا گی ۔ اس کے حکم کے مطابق محل کی عورتوں اور گانے والیوں کو قتل کرنا شروع کردیا گیا ۔چونکہ باز بہادر کی شکست کی وجہ سے انھیں اپنی گرفتاری کا بھی خدشہ تھا اس لیے انھوں نے بیدردی سے جو عورت سامنے آتی گئی انھیں مارنا شروع کیا ، جس میں کچھ قتل ہوئیں اور کچھ زخمی ہوکر بچ رہی۔جب کہ روپ متی بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بے خبری کے سبب شدید زخمی ہوگئی ۔

آدم خان ، رُوپ متی پر پہلے ہی دل چسپی لینے لگا تھا اور رُوپ متی کے بارے میں کافی سن چکا تھا ، اس نے محل میں داخل ہوتے ہی رُوپ متی کو تلاش کیا ۔ رُوپ متی اپنی سہیلیوں کے ساتھ اپنے زخموں کا علاج کروا رہی تھی۔ رُوپ متی کو آدم خان نے یہ پر فریب پیغام بھیجا کہ وہ اچھی طرح اپنا علاج مکمل کرلے اور صحت یاب ہوجائے تو اسے باز بہادر کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔ رُوپ متی اس پرفریب پیغام میں آگئی اور اپنی تندرستی کی جانب بھرپور توجہ مرکوز کردی۔جب وہ تندرست ہوگئی تو آدم خان کو پیغام بھیجا کہ وہ اب اپنے وعدے پر عمل کرے ۔

جواں سال ہوس پرست اور عیاش مغل سالار جس کی نیت شروع سے ہی رُوپ متی کے حوالے سے صحیح نہ تھی اورکھوٹ اس کی نیت میں بھرا تھا اس نے اپنے دل میں رُوپ متی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی ٹھان لی تھی ،رُوپ متی کو یہ پیغام بھیجا کہ باز بہادر ، اکبرکا باغی ہے اس لیے اگر وہ رُوپ متی کو باز بہادر کے پاس لے گیا تو اکبر کے عتاب کا شکار ہوجائے گا۔

آدم خان اکبر کی انا ''ماہم انگا'' کا بیٹا تھا ، وہ ان لوگوں میں سے تھا جنھوں نے ابتدا میں اکبر کو اپنے اتالیق ، محسن ، سپہ سالار اور نائب سلطنت اور پانی پت کی دوسری جنگ کے اصل فاتح اور مغل سلطنت کو قائم رکھنے والے ، بلکہ اکبر کو اکبر اعظم بنانے والے بیرم خان کے خلاف اس قدر اکسایا تھا کہ اکبر نے اُسے مروا ڈالا تھا ۔ وہی ماہم انگا جس کے مشیر اعلیٰ ہونے کی مدت 1561 ء تا 1564 ء زنانہ دور حکومت کہلاتی تھی ۔

اُس پیغام کے بعد آدم خان نے اپنے ایک پیغام رساں کے ذریعے روپ متی کو رات میں اکیلے ملنے کا پیغام بھیجا ۔رُوپ متی آدم خان کی نیت سمجھ چکی تھی۔نہایت کشمکش میں الجھ گئی ۔وہ باز بہادر سے سچی محبت کرتی تھی اس لیے وہ پریشان تھی کہ اگر وہ آدم خان سے ملی تو اسے بے وفا ، بازاری سمجھا جاتا کہ اس نے باز بہادر سے وفاداری نہیں کی ۔اور اگر وہ آدم خان سے نہیں ملتی تو آدم خان طاقت کے نشے میں اس سے زبردستی کرے گا ۔رُوپ متی نے کچھ سوچ کر اُس پیغام رساں کے ذریعے آدم خان سے رات کو ملنے کا کہا ، آدم خان اکبر کے خوف سے حلیہ بدل کر تین بااختیار افراد کے ساتھ رُوپ متی سے ملنے پہنچا ، اس سے پہلے کہ آدم خان ، رُوپ متی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ، رُوپ متی آدم خان کے پیغام رساں کے جاتے ہی روتے روتے ، باز بہادر کو یاد کرتے ہوئے تل کے گھی میں ملایا ہوا کافور کھا کر باز بہادر کی محبت میں مر کر امر ہوگئی۔آدم خان جب رُوپ متی کے پلنگ کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ خوشبوؤں میں بسی پھولوں کے ہار پہنے مُردہ حالت میں یوں پڑی تھی گویا سو رہی ہو ۔
Load Next Story