پاکستان کا قلب و جان: بلوچستان

قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں بعض عناصر کی جانب سے علیحدگی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آئے دن ہونیوالے دھماکوں اور خونریزی کے باعث ہزاروں معصوم زندگیاں لقمہ اجل بن گئی ہیں۔

بلوچستان، پاکستان کا دل ہے۔ بلوچستان میں قیام امن اور وہاں کے عوام کی خوشحالی و ترقی بھی سب کی خواہش ہے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک عرصے سے انتھک کوششیں بھی جاری ہیں، جن میں پاک فوج اور دیگر اداروں کا اہم ترین کردار ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو اس صوبے کی ترقی اور وہاں کے عوام کی خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتے۔صوبہ بلوچستان قدرتی معدنیات کی جنت ہونے کے باوجود کسمپرسی کا شکار ہے۔

اگرچہ ہمسایہ ملک چین کی قیادت میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، جن میں گوادر پورٹ کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی اس صوبے میں سونے اور تانبے کی کان کنی کے منصوبوں پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ ان ہی منصوبوں کو تاراج کرنے کے لیے پاکستان دشمن قوتیں وقتا فوقتا متحرک رہتی ہیں۔ ابھی چند روز قبل ایک بار پھر دہشت گردوں نے ضلع ہرنائیکی تحصیل دُکی میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 20 افراد کو نشانہ بنایا ہے، جس میں کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کو ملوث سمجھا جاتا ہے۔

اگرچہ بی ایل اے نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے اس واقعے پر مذمتی بیان جاری کیا ہے، یہ گروپ اپنے خوف کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے اکثر عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتا ہے۔ اس گروپ نے اگست میں متعدد حملے کیے جن میں پچاس سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں 21 عسکریت پسند واصل جہنم ہوئے۔دکی واقعے میں زندہ بچ جانے والے کان کن کے مطابق حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کرنے سے پہلے چیخ کر دھمکایا کہ ’’ ہم نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ یہاں کام بند کرو، ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘ یہ دراصل وہی جاگیردارانہ اور سرداری مائنڈ سیٹ ہے جس کی وجہ سے صوبہ بلوچستان سمیت صوبہ سندھ بھی ترقی کی جانب عازم سفر نہیں ہو پا رہا ہے۔

بدقسمتی سے کان کنوں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، لٰہذا اس تناظر میں اس افسوناک واقعے کو آخری واقعہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ متعدد عرصے میں یہاں 300 کے قریب کان کن جان کی بازی ہار چکے ہیں، جس کی وجوہات دہشت گردانہ مائنڈ سیٹ ہے۔ رواں برس بلوچستان میں تقریبا 61 کے قریب حملے ہوئے ہیں، جس میں 100 سے زائد معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں جبکہ  20 کے قریب سیکیورٹی اہلکاروں نے جان کی بازی ہاری ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیاں تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں ان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں خصوصاً مزدوروں کو شناخت کرنے کے بعد قتل کیا گیا ہو۔

رواں برس اپریل میں بھی بلوچستان کے علاقے نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 شہریوں کو بس سے اُتارکر قتل کردیا گیا تھا، جبکہ مئی میں شدت پسندوں نے ضلع گوادر سے ملحقہ ایک علاقے میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدوروں کو قتل کردیا تھا۔ ان تمام کارروائیوں کی باضابطہ ذمہ داری کسی علیحدگی پسند گروہ نے تو قبول نہیں کی تھی، لیکن ماضی میں کالعدم شدت پسند تنظیمیں ایسے حملوں میں ملوث رہی ہیں۔ پاکستانی تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فور کنفلکٹ اینڈ پیس اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ برس بلوچستان میں کم ازکم 170 حملے ہوئے تھے، جس میں 151 عام افراد اور 114 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔

رواں برس بھی بلوچستان کے لیے خون ریز ہی ثابت ہوا ہے، جس پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔ صوبے میں جاری تشویش اور بدامنی کے ضمن میں بیرونی مداخلت کی بات مرکزی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ متعدد سیکیورٹی ادارے بھی تواتر سے کر رہے ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسیوں اور بیرونی مداخلت کی وجہ بلوچستان بدامنی کا شکار ہے. جس کے ذمے دار امریکا، بھارت، روس اور ایران ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستوں کو بلوچستان کا تجارتی راستہ مل جانے کی صورت میں روس کی اہمیت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے روس کو بلوچستان کھٹکتا ہے۔ امریکا خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو برداشت نہیں کرسکتا اس لیے اسے بلوچستان کا امن ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔

بھارت کی ازلی دشمنی کا اظہار توکل بھوشن یادیوکی صورت میں موجود ہے۔ بعض ممالک کو گوادر پورٹ سے مسئلہ ہے کیونکہ گوادر پورٹ کی فعالیت سے ان کی بندرگاہیں غیرموثر ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔پاکستان دشمن قوتیں اپنے ’’ کرائے کے انقلابیوں‘‘ کے ذریعے بلوچستان کے حالات کو ابتری کی جانب لے جا رہی ہیں۔ شرپسند عناصر نام نہاد ایکٹوسٹس کے ذریعے نوجوان بلوچوں کو منفی سرگرمیوں میں ملوث کر کے تعلیم سے دور اور ان کے مستقبل کو تاریک کررہے ہیں۔

یہ عناصر مسنگ پرسنز کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور شور مچاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جنہیں یہ مسنگ پرسنز کہہ رہے ہیں، وہ دہشت گرد کیمپوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ مسنگ پرسنز کے نام پر واویلا مچانے والے عناصر دراصل دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے والوں کو کور دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تازہ مثالیں ودود ساتکزئی اور کریم جان بلوچ کی ہیں جو مچھ اورگوادر میں دہشت گرد حملوں میں شامل تھے اور ان کے لیے لانگ مارچ کئے جا رہے تھے۔

خوشی اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے غیور عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر شر پسند عناصرکو شکست دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام ہی اپنے صوبے کے حقیقی وارث ہیں جو شرپسندوں کو دھول چٹا رہے ہیں۔انشا اللہ یہ غیور بلوچ ریاست پاکستان کے ساتھ مل کر صوبے کی ترقی کا ایجنڈا ہائی جیک نہیں ہونے دیں گے۔ دوسری جانب حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں قیام امن کی صورتحال خراب ہونے سے حکومت پر دباؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں غیرملکی سرمایہ کاری پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی سطح پر جامع اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات کرنے ہونگے، کیونکہ بلوچستان کی خوشحالی اور استحکام، مستحکم پاکستان میں ہی ہے۔