رنگِ ادب کا ’’ غالبؔ نمبر‘‘
پاکستان میں غالبؔ پر کیا جانے والا تحقیقی کام زیادہ تر قابلِ اعتبار ہے
غالبؔ اُردو ادب میں غزل کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ ان کی شعری فکر اور جمالیاتی اظہار کی اعلیٰ سطح کے ساتھ ساتھ ان کی سدا بہار شخصیت بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ غالبؔ کی غزل اپنے اندر ندرتِ اظہار اور تخلیقی ہماہمی لیے ہوئے ہے، جو غالب کی پہچان بنی اور یوں اس کا تسلسل آج بھی دنیائے ادب کے اوراق میں قائم و دائم ہیں۔ اُردو ادب میں جس قدر تحقیقی، تنقیدی اور تجرباتی کام میر، غالب و اقبال پر ہوا ہے کسی اور شاعر پر نہیں ہوا۔کیونکہ میر اور اقبال کی نسبت غالبؔ کا مقام اور ہے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
میرے خیال میں محقق بنیادی طور پر ایک نقاد بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں غالبؔ پر کیا جانے والا تحقیقی کام زیادہ تر قابلِ اعتبار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غالبؔ وہ شاعر ہے جو اپنے عہد سے زیادہ بعد کے زمانے میں نظر آتے ہیں۔ غالب کے متعلق مولانا الطاف حسین حالیؔ نے '' یاد گارِ غالب'' میں کہا ہے کہ '' غالب کی یہ شان نہیں کہ ہم اُسے تیرہویں اور بارہویں صدی کے شعراء اور انشاء برداروں میں شامل کریں۔'' غالبؔ نے اپنے وقت کے حالات کو جس نگاہ سے دیکھا اس کے زیادہ تر اثرات آنے والے زمانے میں محسوس ہوئے۔ اس لیے غالب آج کا نہیں، آنے والے کل کا شاعر ثابت ہوا۔ بعد کے زمانے نے اس بات کو ثابت کیا ہے ۔
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہلِ کرم ہوئے
درحقیقت غالبؔ کو وقت کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت غالب کا وقت ہے۔ یہ خصوصیت اتنی لازوال اور معتبر ہے کہ بہت کم شعرائے کرام کے حصے میں آئی۔ اس کے لفظوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
یہ مسائلِ تصوف، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
پاکستان میں غالبؔ پر زیادہ تر تحقیقی کام اُردو زبان میں ہوا ہے۔ اسی سلسلے کی بازگشت کراچی سے شائع ہونے والا ادبی مجلہ رنگِ ادب کا ''غالب ؔنمبر'' ہے۔ جس کے مدیر شاعر علی شاعرؔ ہے جو اپنے حرفِ آغاز میں لکھتے ہیں کہ ''غالبؔ پر سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی پہلو پر نت نیا کام سامنے آتا رہتا ہے۔'' تقریبا ہزار صفحات پر مشتمل اس خصوصی شمارے میں غالبؔ کے فن وشخصیت کے حوالے سے ہر پہلو سے روشنی ڈالی گئی ہیں۔
پروفیسر جاذب قریشی اپنے طویل مضمون میں لکھتے ہیں کہ '' غالبؔ کے فکری و تخلیقی رویوں کو دیکھ کر اور ان کا تجزیاتی مطالعہ کرکے اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ غالبؔ کا اپنا ایک ماضی ہے، ایک حال بھی ہے لیکن غالبؔ کا مستقبل بہت طویل ہے۔ جس کے آغاز کو کوئی دو سو سال گزر چکے ہیں۔ غالبؔ کے جو امکانات ابھی ظاہر نہیں ہوسکے ہیں، وہ اکیسویں صدی میں رفتہ رفتہ اظہار پائیں گے۔ غالبؔ اپنے تہذیبی ماضی اپنے تجرباتی لمحہ موجود اور اپنے جدید تر مستقبل کا شاعر ہے بلکہ وہ جدید انسان کے مستقبل کا شاعر ہے۔''
اس خصوصی شمارہ کی خاص انفرادیت یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر مقصود حسنی '' لسانیاتِ غالبؔ'' میں ہمیں شعرِ غالبؔ کے لسانی رویے، بدیسی نما لفظوں کا استعمال، بدیسی لفظوں کے دیسی مفاہیم، آوازوں کے استعمال کا نظام، بھاری آوازوں کا استعمال، عوامل کے مفاہیم، الفاظ صفت کا استعمال، الفاظ تمیز کے صفاتی مفاہیم، فارسی مرکب صفات سے اسماء اور فعلی حالتیں بنانے کا رحجان، مرکب الفاظ کا استعمال، بعض لفظوں کا چلن اور غالبؔ کے کردار پہ بہت زیادہ عرق ریزی سے کامکیا گیا ہے۔
جبکہ انتظار حسین مرحوم کی غالبؔ پر چند تحریروں کے علاوہ انڈیا سے ابراہیم افسرکا خطوط کے حوالے سے ''رشید حسن خاں کی غالبؔ شناسی'' اور کلیم احسان بٹ کا ''کلام غالبؔ کے غیر جانب دارانہ مطالعے کی ضرورت، غالبؔ کی نثر میں انگریزی الفاظ کا مطالعہ، غالبؔ کی تعلیم، غالبؔ کا تصورِ عشق، غالبؔ اور معتقد میرؔ، غالبؔ کے غیر مدون فارسی خطوط، غالبؔ اور یوسفی، احمد ندیم قاسمی کی غالبؔ شناسی کو بڑی خوبصورتی سے اُجاگرکیا گیا اور اس کے علاوہ برصغیر پاک و ہند سے دیگر دانشوروں کے مضامین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
رنگِ ادب کے اس ''غالب نمبر '' کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں غالبؔ کی زمینوں میں مختلف شعرائے کرام کی 270 غزلیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جس میں سے چند شعرائے کرام کے کلام سے چند شعر نمونہ کے طور پر پیش خدمت ہیں۔
مری شناخت ہے اس سے، مرا وقار اس سے
خدا کا شکر، مرے پاس فن کی دولت ہے
(ڈاکٹر محمد اشرف کمال)
اے جانؔ یہ بھی طرزِ شکایت کا عکس ہے
کہتے ہو جو کسی سے شکایت نہیں مجھے
(جان کاشمیری)
شکوہِ لفظ و بیاں کو کہاں میسر ہے
جو دل گداز اثر حرفِ سادہ رکھتے ہیں
(حسن اکبر کمال)
چہروں کی رنقوں کو بتاؤ تو کیا ہوا
روتی ہے آنکھ رونقِ بازار دیکھ کر
(زاہدہ صدیقی)
جو راز مرے دل نے چھپایا تھا سبھی سے
وہ راز مری موت پہ آکر کھلا ہے
(شاعرعلی شاعر)
آئینہ دیکھ کے دب اپنا تعارف چاہوں
عکس چپکے سے ترا نام بتاتا ہے مجھے
(عارف عبدالمتین)
کیا زمانہ تھا کہ کہتے تھے نظرؔ
زندگی سے پیار کرنا چاہیے
(قیوم نظر)
اب اُنہیں ڈھونڈتی پھرتی ہے اُداسی میری
دوست جو میری اُداسی کا پتا رکھتے تھے
(لیاقت علی عاصم)
مرے اشعار صدا ہوتے ہیں جاں کی راہیؔ
دل کی دھڑکن سے ایک شعر باندھا ہوتا ہے
(یوسف راہی چاٹگامی)
روگ پھر روگ ہے پتھر کو بھی لگ سکتا ہے
درد، دل میں کبھی تیرے بھی بتا، ہوتا ہے؟
(وزیر آغا)
آخر میں یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ غالبؔ کی زمینوں میں 31 غزلیں رفیع الدین راز،15 غزلیں لیاقت علی عاصم اور 13 غزلیں جان کاشمیری کی ہیں، لیکن یہ پہلو بہت خوش آئند ہے کہ جان کاشمیری کی غزلیں نہ صرف طویل ہیں بلکہ انتہائی بلند فکر کی حامل ہیں۔ آخر میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔
''یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا''
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
میرے خیال میں محقق بنیادی طور پر ایک نقاد بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں غالبؔ پر کیا جانے والا تحقیقی کام زیادہ تر قابلِ اعتبار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غالبؔ وہ شاعر ہے جو اپنے عہد سے زیادہ بعد کے زمانے میں نظر آتے ہیں۔ غالب کے متعلق مولانا الطاف حسین حالیؔ نے '' یاد گارِ غالب'' میں کہا ہے کہ '' غالب کی یہ شان نہیں کہ ہم اُسے تیرہویں اور بارہویں صدی کے شعراء اور انشاء برداروں میں شامل کریں۔'' غالبؔ نے اپنے وقت کے حالات کو جس نگاہ سے دیکھا اس کے زیادہ تر اثرات آنے والے زمانے میں محسوس ہوئے۔ اس لیے غالب آج کا نہیں، آنے والے کل کا شاعر ثابت ہوا۔ بعد کے زمانے نے اس بات کو ثابت کیا ہے ۔
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہلِ کرم ہوئے
درحقیقت غالبؔ کو وقت کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت غالب کا وقت ہے۔ یہ خصوصیت اتنی لازوال اور معتبر ہے کہ بہت کم شعرائے کرام کے حصے میں آئی۔ اس کے لفظوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
یہ مسائلِ تصوف، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
پاکستان میں غالبؔ پر زیادہ تر تحقیقی کام اُردو زبان میں ہوا ہے۔ اسی سلسلے کی بازگشت کراچی سے شائع ہونے والا ادبی مجلہ رنگِ ادب کا ''غالب ؔنمبر'' ہے۔ جس کے مدیر شاعر علی شاعرؔ ہے جو اپنے حرفِ آغاز میں لکھتے ہیں کہ ''غالبؔ پر سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی پہلو پر نت نیا کام سامنے آتا رہتا ہے۔'' تقریبا ہزار صفحات پر مشتمل اس خصوصی شمارے میں غالبؔ کے فن وشخصیت کے حوالے سے ہر پہلو سے روشنی ڈالی گئی ہیں۔
پروفیسر جاذب قریشی اپنے طویل مضمون میں لکھتے ہیں کہ '' غالبؔ کے فکری و تخلیقی رویوں کو دیکھ کر اور ان کا تجزیاتی مطالعہ کرکے اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ غالبؔ کا اپنا ایک ماضی ہے، ایک حال بھی ہے لیکن غالبؔ کا مستقبل بہت طویل ہے۔ جس کے آغاز کو کوئی دو سو سال گزر چکے ہیں۔ غالبؔ کے جو امکانات ابھی ظاہر نہیں ہوسکے ہیں، وہ اکیسویں صدی میں رفتہ رفتہ اظہار پائیں گے۔ غالبؔ اپنے تہذیبی ماضی اپنے تجرباتی لمحہ موجود اور اپنے جدید تر مستقبل کا شاعر ہے بلکہ وہ جدید انسان کے مستقبل کا شاعر ہے۔''
اس خصوصی شمارہ کی خاص انفرادیت یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر مقصود حسنی '' لسانیاتِ غالبؔ'' میں ہمیں شعرِ غالبؔ کے لسانی رویے، بدیسی نما لفظوں کا استعمال، بدیسی لفظوں کے دیسی مفاہیم، آوازوں کے استعمال کا نظام، بھاری آوازوں کا استعمال، عوامل کے مفاہیم، الفاظ صفت کا استعمال، الفاظ تمیز کے صفاتی مفاہیم، فارسی مرکب صفات سے اسماء اور فعلی حالتیں بنانے کا رحجان، مرکب الفاظ کا استعمال، بعض لفظوں کا چلن اور غالبؔ کے کردار پہ بہت زیادہ عرق ریزی سے کامکیا گیا ہے۔
جبکہ انتظار حسین مرحوم کی غالبؔ پر چند تحریروں کے علاوہ انڈیا سے ابراہیم افسرکا خطوط کے حوالے سے ''رشید حسن خاں کی غالبؔ شناسی'' اور کلیم احسان بٹ کا ''کلام غالبؔ کے غیر جانب دارانہ مطالعے کی ضرورت، غالبؔ کی نثر میں انگریزی الفاظ کا مطالعہ، غالبؔ کی تعلیم، غالبؔ کا تصورِ عشق، غالبؔ اور معتقد میرؔ، غالبؔ کے غیر مدون فارسی خطوط، غالبؔ اور یوسفی، احمد ندیم قاسمی کی غالبؔ شناسی کو بڑی خوبصورتی سے اُجاگرکیا گیا اور اس کے علاوہ برصغیر پاک و ہند سے دیگر دانشوروں کے مضامین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
رنگِ ادب کے اس ''غالب نمبر '' کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں غالبؔ کی زمینوں میں مختلف شعرائے کرام کی 270 غزلیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جس میں سے چند شعرائے کرام کے کلام سے چند شعر نمونہ کے طور پر پیش خدمت ہیں۔
مری شناخت ہے اس سے، مرا وقار اس سے
خدا کا شکر، مرے پاس فن کی دولت ہے
(ڈاکٹر محمد اشرف کمال)
اے جانؔ یہ بھی طرزِ شکایت کا عکس ہے
کہتے ہو جو کسی سے شکایت نہیں مجھے
(جان کاشمیری)
شکوہِ لفظ و بیاں کو کہاں میسر ہے
جو دل گداز اثر حرفِ سادہ رکھتے ہیں
(حسن اکبر کمال)
چہروں کی رنقوں کو بتاؤ تو کیا ہوا
روتی ہے آنکھ رونقِ بازار دیکھ کر
(زاہدہ صدیقی)
جو راز مرے دل نے چھپایا تھا سبھی سے
وہ راز مری موت پہ آکر کھلا ہے
(شاعرعلی شاعر)
آئینہ دیکھ کے دب اپنا تعارف چاہوں
عکس چپکے سے ترا نام بتاتا ہے مجھے
(عارف عبدالمتین)
کیا زمانہ تھا کہ کہتے تھے نظرؔ
زندگی سے پیار کرنا چاہیے
(قیوم نظر)
اب اُنہیں ڈھونڈتی پھرتی ہے اُداسی میری
دوست جو میری اُداسی کا پتا رکھتے تھے
(لیاقت علی عاصم)
مرے اشعار صدا ہوتے ہیں جاں کی راہیؔ
دل کی دھڑکن سے ایک شعر باندھا ہوتا ہے
(یوسف راہی چاٹگامی)
روگ پھر روگ ہے پتھر کو بھی لگ سکتا ہے
درد، دل میں کبھی تیرے بھی بتا، ہوتا ہے؟
(وزیر آغا)
آخر میں یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ غالبؔ کی زمینوں میں 31 غزلیں رفیع الدین راز،15 غزلیں لیاقت علی عاصم اور 13 غزلیں جان کاشمیری کی ہیں، لیکن یہ پہلو بہت خوش آئند ہے کہ جان کاشمیری کی غزلیں نہ صرف طویل ہیں بلکہ انتہائی بلند فکر کی حامل ہیں۔ آخر میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔
''یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا''