طاقت کی اہمیت

1998ء کا مئی یادگار ہے کیونکہ اس مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے تھے، اس سے پہلے بھارت نے بھی ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ دونوں پڑوسی ممالک اور ایٹمی دھماکے کرنے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ یہ دھماکے کیوں کیے گئے تھے؟ کیا دونوں ممالک کے عوام ان دھماکوں کے بعد محفوظ تھے یا انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ سمجھا؟ یہ بات تو طے ہے کہ جس ملک کے پاس ایٹمی طاقت ہے یقینا وہ طاقتور ہے اس کو دکھا کر مارنا اور مارکر سمجھانا کہ ہم سے جھگڑنے کی کوشش کرنا فضول ہے کیونکہ اگر آپ نے ہمارے صبر کو آزمایا تو ہم کسی کی پرواہ نہیں کریں گے اور اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کر کے دکھائیں گے۔

بھارت اٹھائیس ریاستوں پر مبنی دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ پاکستان پانچ صوبوں والا ملک ہے، اگر دیکھا جائے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان مقابلے کا جواز بنتا نہیں، ایک طویل و عریض بڑی آبادی والا ملک اور ایک چھوٹا ملک جسے 1971 میں سبوتاژ کر کے توڑ دیا گیا تھا۔ اس کہانی کو دہرانے کا مقصد نہیں ہے بلکہ طاقت کے اشتہار لگانے کی داستان ہے جسے بلاشبہ شروع پاکستان نے نہیں کیا تھا۔ بڑی عجیب سی بات ہے کہ ایک بڑے رقبے اور آبادی والے ملک کو صرف پانچ صوبوں والے چھوٹے ملک سے اتنا خطرہ محسوس ہوا کہ اس نے اپنی طاقت کو ظاہر کر کے ثابت کر دیا کہ میں تمہیں ڈرا رہا ہوں تم بس ڈر کر ہی رہو۔

ہو سکتا ہے کہ اگر اس امر پر کارکردگی نہ نظر آتی تو ہمارے ملک میں بھی دھند ہی چھائی رہتی لیکن اس پراسراریت کو توڑ دیا گیا۔ تنقید ہوئی، شکوے کیے گئے، باتیں اور باتیں۔۔۔۔ لیکن پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف اپنے مقابل کو بلکہ دنیا کو بتا دیا کہ ہم سے ٹکرانا آسان نہیں ہے، کیونکہ ہمارے پاس ایسی طاقت ہے جو برباد کر دینے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے۔ پاکستان ایک چھوٹا لیکن طاقتور ملک ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ معاشی اور سیاسی طور پر انتہائی مشکلات کا شکار ہے، کرپشن کی سطح بلند ترین ہے۔ عصبیت، لسانی مسائل غرض ہر جانب کانٹوں کی رہ گزر ہے پھر بھی ہمارے مقابل میں ایک خوف تو ہے کہ اس مسائل سے گھرے ملک میں جان ہے۔

اسرائیل نے غزہ پر جس طرح بمباری کر کے خون و آگ کا کھیل سال بھر سے گرم رکھا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے سب خاموش ہیں لیکن اسرائیل کے پاس آگ کے ہتھیار بھرے پڑے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی خفیہ طاقت ہے جو چھپ کر یہ ہتھیار سپلائی کررہا ہے، سب جانتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہاتھ ملانے والے دستانے پہنے اپنے کاموں میں جتے ہیں، ان کا یہ خیال ہے کہ اس طرح وہ دنیا کے امیر علاقوں کو جیساکہ اب بھی پردے میں رہ کر ڈوریاں سنبھالے بیٹھے ہیں، کھل کرکام کرنے کا موقعہ ملے گا، بظاہر وسیع القلب تعصب سے بھرے بیٹھے ہیں۔ انسانی مساوات کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں، حیرت انگیز بات یہ رہی کہ اسرائیل نے لبنان کی جانب بھی اپنا ہاتھ کھولنا شروع کیا اور پھر وہ کھلتا ہی گیا۔ حزب اللہ اور لبنان کے مسائل کے درپیش بمباری نے لبنان میں جنگ کی سی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ لبنان جنگی حوالے سے کمزور ہے جبکہ اسرائیل کی مستقل کمان جاری ہے، اگر لبنان کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو شاید اسرائیل اس کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔

ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے پاس جوہری وار ہیڈز 172 ہیں جب کہ پاکستان کے پاس 170 جوہری وارہیڈز ہیں۔ دنیا بھر میں امریکا، روس، برطانیہ، چین، فرانس، بھارت، شمالی کوریا، پاکستان اور اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید تر بنانے کی کوششوں میں ہیں اورکئی جدید بنا چکے ہیں۔ دنیا جوہری ہتھیاروں سے خوفزدہ ہے، پر یہ بھی سچ ہے کہ جس کے پاس یہ ہتھیار ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ ہم پر حملہ کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

لبنان پر ہونے والی اسرائیل کی جانب سے بمباری نے ہلاکتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل لبنان کی سرزمین سے چھیڑ چھاڑ ہی نہیں کر رہا بلکہ قابض ہونے کے ارادے قوی کرتا جا رہا ہے، وہ جانتا ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ تحقیق اور انسانی سرگرمیاں ان منصوبوں کوکب اورکیسے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں یا یہ صرف منصوبوں کی حد تک ہی پابند رہیں کون جانتا ہے، لیکن آج کے دور میں دنیا میں اپنا وجود بچانے اور سنبھالنے کے لیے مجبوراً ہتھیار ناگزیر ہیں۔ غزہ کی حالت دنیا کے سامنے ہے۔

جوہری تنصیبات، ہتھیار اور بم کے خلاف واویلا کرنے والے اپنے آپ کو اتنا شفاف سمجھتے ہیں کہ چاہتے ہیں دنیا بھر میں طاقت کے یہ مینارے بس ان کی تحویل میں رہیں۔ دنیا کو تباہی کے دہانے پر لانے والے ٹریگر ان کے ہاتھوں میں ہی محفوظ رہے کوئی اور ایسی طاقت حاصل کرنے کی جرأت بھی نہ کرسکے، اس کے لیے سی ٹی اور بی ٹی بھی کر دیا گیا لیکن جو وسل مستقل بج رہی ہے، وہ یہ کہتی ہے کہ اب تاریخ کروٹ بدل چکی ہے ایک نیا باب لکھنے کو تیار ہے۔ فیصلے بظاہر دنیا کے سپر پاورز کر رہے ہیں، کون سی جنگ ہے اور کیا پراکسی وار ہے، مبصرین فرما رہے ہیں لیکن یاد رہے کہ دنیا میں جنگ نیکی اور بدی کی ہے۔

اپنے وجود کی سالمیت کو برقرار رکھنے، اپنے حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنے دین کی علم برداری کے لیے پہلے بھی مسلمان اپنے گھر کی دیوار کو تلوار سے سجاتے تھے چاہے، گھر میں کھانے کو نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ پیٹ پر پتھر باندھ کر جنگوں میں شریک ہوتے تھے، وہ خلوص وہ جذبہ ایثار اور اپنے رب سے محبت بظاہرکمزور وجود پر مخالفین پر ایسا رعب ایسا دبدبہ کہ دشمن خوف سے تھرا جاتے تھے۔ ہمیں جنگ نہیں چاہیے، ہم امن پسند ہیں، پر کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ امن کے جھنڈے لہرا رہے ہیں اور مخالف نہ سفید جھنڈے دیکھ رہے ہیں، نہ اسپتال دیکھ رہے ہیں اور نہ اسکول، بس جنگی جنون میں جتے آگ کے گولے برسا رہے ہیں۔ آج تلواروں سے دیواریں سجانے کا زمانہ نہیں ہے کیونکہ ہم ترقی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں، لیکن اس انسانی سوچ کا کیا کیجیے جو پاتال کی گہرائیوں میں غرق ہے۔ ہم شکرگزار ہیں کہ رب العزت نے ہمیں اتنی نعمتوں کے ساتھ ایک آزاد ملک نوازا ہے، ہم ایٹمی طاقت رکھتے ہیں، بس گمراہیوں کے اندھیرے میں بھٹک گئے ہیں، پر ناامید نہیں ہیں۔