ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں
جب بھی ایک راستہ بند ہو تو دوسرے بہت سے راستے کھلے ہوئے ہوں گے
سلاڈور ڈالی کا یہ اقتباس '' عزم کے بغیر ذہانت پروں کے بغیر پرندہ ہے'' صلاحیت کے ادراک میں عزائم کی اہمیت کو خوبصورتی سے سمیٹا ہے۔ ڈالی ایک حقیقت پسند فنکار جو اپنی تخلیقی ذہانت کے لیے جانا جاتا ہے، اس بات پر زور دیتا ہے کہ عظمت حاصل کرنے کے لیے صرف ذہانت ہی کافی نہیں ہے۔ جس طرح بغیر پروں کے اڑ نہیں سکتا، اسی طرح بغیر ڈرائیوکے ذہانت اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی تمنا غیر فعال، ادھوری رہتی ہے ۔امنگ وہ قوت ہے جوکسی کی فکری صلاحیتوں کو مقصد اور سمت دیتی ہے۔
ایک شخص کے پاس وسیع علم ہوسکتا ہے، لیکن اس کو بروئے کار لانے کی ترغیب کے بغیر، وہ علم جمود کا شکار ہوجاتا ہے۔ عزائم جدت پیدا کرنے، تخلیق کرنے اور آگے بڑھنے کی خواہش کو ہوا دیتا ہے، تجریدی خیالات کو ٹھوس کامیابیوں میں تبدیل کرتا ہے۔ ڈالی کی خواہش کا پروں سے موازنہ اس اہم کردارکو نمایاں کرتا ہے جو کسی کی ذہانت کو اعلیٰ سطح تک پہنچانے میں ادا کرتا ہے۔ یہ استعارہ عقل اور آرزوکے درمیان توازن کی تجویز بھی کرتا ہے۔ جبکہ ذہانت مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے، عزائم افراد کو خطرات مول لینے اور ایسے مواقع تلاش کرنے پر مجبورکرتے ہیں جو انہیں دیرپا اثر ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ڈالی نے خود اپنے فن میں اس کی مثال دی، جہاں اس کے مہتواکانکشی وژن نے اسے حدود کو توڑنے اور فنکارانہ اصولوں کی نئی تعریف کرنے کی اجازت دی۔ جوہر میں، ڈالی کے الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ذہانت، جب عزائم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، تو غیرمعمولی بلندیوں کو چھوسکتا ہے۔ تاہم، خواہش کے بغیر، یہاں تک کہ سب سے زیادہ ذہین دماغ بھی زمین پر رہنے کا خطرہ مول لیتا ہے۔
اگر سڑک کی تعمیر ہو رہی ہو، تو سڑک کے درمیان میں ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے جس پر لکھا ہوا ہوتا ہے ''سڑک بند ہے'' مگر اس کا مطلب کبھی یہ نہیں ہوتا کہ سرے سے راستہ بند ہوگیا ہے اور اب آنے جانے والے حضرات اپنی گاڑی روک کرکھڑے ہوجائیں، اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ '' یہ سامنے کی سڑک بند ہے'' چنانچہ جب گاڑیاں وہاں پہنچ کر بورڈ کو دیکھتی ہیں تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رکتیں، وہ دائیں بائیں گھوم کر اپنا راستہ نکال لیتی ہیں اور آگے جا کر دوبارہ وہی سڑک پکڑ لیتی ہیں اور اگر کسی وجہ سے دائیں بائیں راستہ نہ ہو تب بھی گاڑیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا و ہ اطراف کی سڑکوں سے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں اور پھر کچھ دور آگے جاکر دوبارہ انہیں اصل سڑک مل جاتی ہے اور اس پر وہ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور وہ منزل پر پہنچ جاتی ہیں، اس طرح کچھ منٹوں کی تاخیر تو ضرور ہوسکتی ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ان کا سفر رک جائے یا وہ منزل پر پہنچنے میں ناکام رہیں۔ یہ ہی صورت زندگی کے سفرکی بھی ہے۔ زندگی کی جدوجہد میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ اس کا راستہ بند ہے مگر اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ سامنے کا راستہ بند ہے نہ کہ ہر طرف کا۔
جب بھی ایک راستہ بند ہو تو دوسرے بہت سے راستے کھلے ہوئے ہوں گے عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے سامنے '' سڑک بند ہے'' کا بورڈ دیکھ کر رک نہ جائے بلکہ دوسرے راستے تلاش کرکے اپنا سفر جاری رکھے۔ ہر بند سڑک کے پاس لازمی ایک کھلی سڑک بھی موجود ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام خوشحال، ترقی یافتہ اور مستحکم ممالک جو آج ہم کو نظر آتے ہیں ہمیشہ سے ایسے نہ تھے بلکہ ہم سے بھی زیادہ بدترین حالات کا شکار تھے۔ ان کے سامنے بھی ''سڑک بند ہے'' کا بورڈ لگا ہوا تھا لیکن انہوں نے ہماری طرح بورڈ کے سامنے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنا منظور نہیں کیا بلکہ انہوں نے جدوجہد کر کے ہمت اور قربانیاں دے کر محنت کر کے دوسرا رستہ تلاش کیا اور اپنا سفر جاری رکھا اور وہ ترقی، خوشحالی، استحکام کی منزل پر پہنچ ہی گئے۔ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور یہ عمل ساری عمر اسی طرح سے جاری وساری رہتا ہے کیونکہ ہم سب آغاز میں ایک کورا کاغذ ہوتے ہیں پھرآہستہ آہستہ وقت اس پر تحریر لکھنا شروع کردیتا ہے،کہیں یہ عمل بہت تیز ہوتا ہے، کہیں سست کہیں مدھم اور کہیں ساری عمرکاغذ کورا ہی رہتا ہے۔
سقراط نے سولن سے سیکھا افلاطون نے سقراط سے ارسطو نے افلاطون سے اور زرتشت، فیثا غورث، لاوزے، گوتم بدھ، کنفیوشس، ہیرا کلتیس، ژینو، ڈیما کریٹس، تھراسی ماکس، ایپی قورس، ابن رشد، فرانسس بیکن، ہنری برگساں، سارتر سمیت سب نے کسی نہ کسی سے سیکھا اور پھر سب کو سیکھایا۔ ایک مشہورکہاوت کے مطابق ''جب ایک طالبعلم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہوجاتاہے تو استاد بھی فوراً آن موجود ہوتا ہے۔'' ان سب حضرات نے دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ یاد رہے انہیں سزائیں بھی دی گئیں، زہرکے پیالے بھی پینا پڑے،آگ میں زندہ جلا دیے گئے لیکن ان سب اذیتوں، تکلیفوں کے باوجود وہ اپنا کام ادا کرتے رہے۔ پومپی آئی کے سپاہی کا واقعہ کس نے نہ سنا ہوگا۔ آج سے دو ہزار سال پہلے کوہ وسویس کی آتش فشانی سے پو مپی آئی ( اٹلی) کا سارا شہر راکھ کے نیچے دفن ہوگیا تھا۔
پچھلی صدی میں جوکھدائیاں ہوئی ہیں۔ ان سے اس دورکی تہذیب اور معاشرت کا حال معلوم ہوتا ہے، اب یہ شہر اپنی عمارتیں، سڑکوں اور باشندوں سمیت منظرعام پرآگیا ہے، راکھ کے اس ہولناک طوفان سے اہل شہر پر جو خوف طاری ہوا ہوگا، اس کا نقش اب بھی ان کے چہروں پر باقی ہے، مگر موت کے اس طوفان میں ایک سپاہی نے ادائے فرض کا جو مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے اس سپاہی نے موت کے ہنگامے کے باوجود پہرے پر سے ہٹنا گوارا نہ کیا اور جس مقام کی حفاظت کے لیے اسے مقررکیا گیا تھا وہاں سے ایک انچ نہ ہٹا وہ گندھک کے دھوئیں میں گھٹ کر مرگیا اور راکھ میں دفن ہوگیا۔ اس بہادر سپاہی کا خود ،نیزہ اور زرہ بکتر نیپلزکے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے۔
تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں ضروریات ایک جیسی ہیں ہمت اور بہادری اور قربانی کے جذبے ایک جیسے ہیں۔ بس فرق اتنا سا ہے کوئی تاریخ بنتے ہیں اورکوئی تاریخ بناتے ہیں۔ اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ کو بنانا ہے۔ یاد رہے سوچ جب عمل سے دور ہوجائے تو یہ بیماری بن جاتی ہے جب انسان زندگی کے تمام اصولوں کو چھوڑکر صرف اپنے پیٹ کے لیے زندہ رہنا شروع کردے تو پھر وہاں انسانیت، مذہب، تہذیب وتمدن، ہمت وجرأت کا خود بخود قتل ہو جاتا ہے۔
اب ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں ایک تو یہ ہم کہیں بھاگ جائیں، اپنے سب پیاروں کو چھوڑکر، اپنے بھائیوں اپنے پڑوسیوں کو چھوڑ کر اپنے آباؤ اجداد اپنے بزرگوں کی قبروں کو چھوڑکر اپنی مٹی کو چھوڑکر یا پھر اپنے اوراپنے پیاروں اور آنے والوں کے لیے اس استحصالی، لوٹ مار،کرپٹ نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ لٹیروں، قاتلوں، غاصبوں، ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی برباد زندگی کو اپنے ہاتھوں تبدیل کریں۔ یاد رکھو تمہاری زندگیاں تبدیل کرنے کو ئی نہیں آئے گا، یہ ہمت اور جرأت تمہیں خود کرنا پڑے گی، ورنہ تمہیں بھی بھوک، افلاس، بیماریوں فاقوں کے ہاتھوں مر نے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے، تمہارے ہم وطنوں، تمہارے دوستوں، تمہارے پڑوسیوں کی روحیں جو سب معصوم اور بے گناہ تھے جو غربت، بھوک، افلاس کے ہاتوں مارے گئے، جھنجھوڑ رہی ہیں کہ خدارا ! ہم میں شامل نہ ہوجانا یہ زندگی خدا نے تمہیں جینے کے لیے دی ہے۔ خود کشی کے لیے نہیں، لٰہذا اپنی خوشحالی، اپنا اختیار اپنا حق آگے بڑھ کر غاصبوں سے چھین لو۔ بر بادی، ذلت، بے اختیاری تمہارا مقدر نہیں بلکہ مقدر بنا دیاگیا ہے۔ اٹھو آگے بڑھو، خدا تمہارا حامی وناصر ہوگا اور آخری فتح تمہیں ہی نصیب ہوگی۔
ایک شخص کے پاس وسیع علم ہوسکتا ہے، لیکن اس کو بروئے کار لانے کی ترغیب کے بغیر، وہ علم جمود کا شکار ہوجاتا ہے۔ عزائم جدت پیدا کرنے، تخلیق کرنے اور آگے بڑھنے کی خواہش کو ہوا دیتا ہے، تجریدی خیالات کو ٹھوس کامیابیوں میں تبدیل کرتا ہے۔ ڈالی کی خواہش کا پروں سے موازنہ اس اہم کردارکو نمایاں کرتا ہے جو کسی کی ذہانت کو اعلیٰ سطح تک پہنچانے میں ادا کرتا ہے۔ یہ استعارہ عقل اور آرزوکے درمیان توازن کی تجویز بھی کرتا ہے۔ جبکہ ذہانت مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے، عزائم افراد کو خطرات مول لینے اور ایسے مواقع تلاش کرنے پر مجبورکرتے ہیں جو انہیں دیرپا اثر ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ڈالی نے خود اپنے فن میں اس کی مثال دی، جہاں اس کے مہتواکانکشی وژن نے اسے حدود کو توڑنے اور فنکارانہ اصولوں کی نئی تعریف کرنے کی اجازت دی۔ جوہر میں، ڈالی کے الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ذہانت، جب عزائم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، تو غیرمعمولی بلندیوں کو چھوسکتا ہے۔ تاہم، خواہش کے بغیر، یہاں تک کہ سب سے زیادہ ذہین دماغ بھی زمین پر رہنے کا خطرہ مول لیتا ہے۔
اگر سڑک کی تعمیر ہو رہی ہو، تو سڑک کے درمیان میں ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے جس پر لکھا ہوا ہوتا ہے ''سڑک بند ہے'' مگر اس کا مطلب کبھی یہ نہیں ہوتا کہ سرے سے راستہ بند ہوگیا ہے اور اب آنے جانے والے حضرات اپنی گاڑی روک کرکھڑے ہوجائیں، اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ '' یہ سامنے کی سڑک بند ہے'' چنانچہ جب گاڑیاں وہاں پہنچ کر بورڈ کو دیکھتی ہیں تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رکتیں، وہ دائیں بائیں گھوم کر اپنا راستہ نکال لیتی ہیں اور آگے جا کر دوبارہ وہی سڑک پکڑ لیتی ہیں اور اگر کسی وجہ سے دائیں بائیں راستہ نہ ہو تب بھی گاڑیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا و ہ اطراف کی سڑکوں سے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں اور پھر کچھ دور آگے جاکر دوبارہ انہیں اصل سڑک مل جاتی ہے اور اس پر وہ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور وہ منزل پر پہنچ جاتی ہیں، اس طرح کچھ منٹوں کی تاخیر تو ضرور ہوسکتی ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ان کا سفر رک جائے یا وہ منزل پر پہنچنے میں ناکام رہیں۔ یہ ہی صورت زندگی کے سفرکی بھی ہے۔ زندگی کی جدوجہد میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ اس کا راستہ بند ہے مگر اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ سامنے کا راستہ بند ہے نہ کہ ہر طرف کا۔
جب بھی ایک راستہ بند ہو تو دوسرے بہت سے راستے کھلے ہوئے ہوں گے عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے سامنے '' سڑک بند ہے'' کا بورڈ دیکھ کر رک نہ جائے بلکہ دوسرے راستے تلاش کرکے اپنا سفر جاری رکھے۔ ہر بند سڑک کے پاس لازمی ایک کھلی سڑک بھی موجود ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام خوشحال، ترقی یافتہ اور مستحکم ممالک جو آج ہم کو نظر آتے ہیں ہمیشہ سے ایسے نہ تھے بلکہ ہم سے بھی زیادہ بدترین حالات کا شکار تھے۔ ان کے سامنے بھی ''سڑک بند ہے'' کا بورڈ لگا ہوا تھا لیکن انہوں نے ہماری طرح بورڈ کے سامنے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنا منظور نہیں کیا بلکہ انہوں نے جدوجہد کر کے ہمت اور قربانیاں دے کر محنت کر کے دوسرا رستہ تلاش کیا اور اپنا سفر جاری رکھا اور وہ ترقی، خوشحالی، استحکام کی منزل پر پہنچ ہی گئے۔ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور یہ عمل ساری عمر اسی طرح سے جاری وساری رہتا ہے کیونکہ ہم سب آغاز میں ایک کورا کاغذ ہوتے ہیں پھرآہستہ آہستہ وقت اس پر تحریر لکھنا شروع کردیتا ہے،کہیں یہ عمل بہت تیز ہوتا ہے، کہیں سست کہیں مدھم اور کہیں ساری عمرکاغذ کورا ہی رہتا ہے۔
سقراط نے سولن سے سیکھا افلاطون نے سقراط سے ارسطو نے افلاطون سے اور زرتشت، فیثا غورث، لاوزے، گوتم بدھ، کنفیوشس، ہیرا کلتیس، ژینو، ڈیما کریٹس، تھراسی ماکس، ایپی قورس، ابن رشد، فرانسس بیکن، ہنری برگساں، سارتر سمیت سب نے کسی نہ کسی سے سیکھا اور پھر سب کو سیکھایا۔ ایک مشہورکہاوت کے مطابق ''جب ایک طالبعلم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہوجاتاہے تو استاد بھی فوراً آن موجود ہوتا ہے۔'' ان سب حضرات نے دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ یاد رہے انہیں سزائیں بھی دی گئیں، زہرکے پیالے بھی پینا پڑے،آگ میں زندہ جلا دیے گئے لیکن ان سب اذیتوں، تکلیفوں کے باوجود وہ اپنا کام ادا کرتے رہے۔ پومپی آئی کے سپاہی کا واقعہ کس نے نہ سنا ہوگا۔ آج سے دو ہزار سال پہلے کوہ وسویس کی آتش فشانی سے پو مپی آئی ( اٹلی) کا سارا شہر راکھ کے نیچے دفن ہوگیا تھا۔
پچھلی صدی میں جوکھدائیاں ہوئی ہیں۔ ان سے اس دورکی تہذیب اور معاشرت کا حال معلوم ہوتا ہے، اب یہ شہر اپنی عمارتیں، سڑکوں اور باشندوں سمیت منظرعام پرآگیا ہے، راکھ کے اس ہولناک طوفان سے اہل شہر پر جو خوف طاری ہوا ہوگا، اس کا نقش اب بھی ان کے چہروں پر باقی ہے، مگر موت کے اس طوفان میں ایک سپاہی نے ادائے فرض کا جو مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے اس سپاہی نے موت کے ہنگامے کے باوجود پہرے پر سے ہٹنا گوارا نہ کیا اور جس مقام کی حفاظت کے لیے اسے مقررکیا گیا تھا وہاں سے ایک انچ نہ ہٹا وہ گندھک کے دھوئیں میں گھٹ کر مرگیا اور راکھ میں دفن ہوگیا۔ اس بہادر سپاہی کا خود ،نیزہ اور زرہ بکتر نیپلزکے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے۔
تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں ضروریات ایک جیسی ہیں ہمت اور بہادری اور قربانی کے جذبے ایک جیسے ہیں۔ بس فرق اتنا سا ہے کوئی تاریخ بنتے ہیں اورکوئی تاریخ بناتے ہیں۔ اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ کو بنانا ہے۔ یاد رہے سوچ جب عمل سے دور ہوجائے تو یہ بیماری بن جاتی ہے جب انسان زندگی کے تمام اصولوں کو چھوڑکر صرف اپنے پیٹ کے لیے زندہ رہنا شروع کردے تو پھر وہاں انسانیت، مذہب، تہذیب وتمدن، ہمت وجرأت کا خود بخود قتل ہو جاتا ہے۔
اب ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں ایک تو یہ ہم کہیں بھاگ جائیں، اپنے سب پیاروں کو چھوڑکر، اپنے بھائیوں اپنے پڑوسیوں کو چھوڑ کر اپنے آباؤ اجداد اپنے بزرگوں کی قبروں کو چھوڑکر اپنی مٹی کو چھوڑکر یا پھر اپنے اوراپنے پیاروں اور آنے والوں کے لیے اس استحصالی، لوٹ مار،کرپٹ نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ لٹیروں، قاتلوں، غاصبوں، ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی برباد زندگی کو اپنے ہاتھوں تبدیل کریں۔ یاد رکھو تمہاری زندگیاں تبدیل کرنے کو ئی نہیں آئے گا، یہ ہمت اور جرأت تمہیں خود کرنا پڑے گی، ورنہ تمہیں بھی بھوک، افلاس، بیماریوں فاقوں کے ہاتھوں مر نے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے، تمہارے ہم وطنوں، تمہارے دوستوں، تمہارے پڑوسیوں کی روحیں جو سب معصوم اور بے گناہ تھے جو غربت، بھوک، افلاس کے ہاتوں مارے گئے، جھنجھوڑ رہی ہیں کہ خدارا ! ہم میں شامل نہ ہوجانا یہ زندگی خدا نے تمہیں جینے کے لیے دی ہے۔ خود کشی کے لیے نہیں، لٰہذا اپنی خوشحالی، اپنا اختیار اپنا حق آگے بڑھ کر غاصبوں سے چھین لو۔ بر بادی، ذلت، بے اختیاری تمہارا مقدر نہیں بلکہ مقدر بنا دیاگیا ہے۔ اٹھو آگے بڑھو، خدا تمہارا حامی وناصر ہوگا اور آخری فتح تمہیں ہی نصیب ہوگی۔