گھڑی
ریاست اور ریاستی سسٹم میں دو واضح دھڑے ہیں، دو واضح سوچیں اور دو واضح سیاسی و معاشی مفادات ہیں
عجیب موڑ ہے جہاں آج ہم کھڑے ہیں، معیشت بحالی کی طرف جا رہی ہے مگر سیاست الجھانے کی پوری کوشش ہورہی۔ سیاست کا پہیہ دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ شنگھائی کانفرنس کامیابی سے ہمارا دنیا میں نام ہوا کہ پاکستان کوئی ناکام یا کمزور ریاست نہیں، جب کہ ''یار لوگوں'' نے پاکستان کو ناکام ریاست بنانے میںکوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔
اس ریاست کو ناکام بنانے کے لیے آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے ، ایسے حالات پیدا کرنے کی پوری کرشش کی گئی جس کے نتیجے میں شنگھائی کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد ممکن نہ ہوسکے، ماضی میں یہ طاقتور اور بااثرگروہ چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی کراچکا تھا۔ 2014 میں ڈی چوک پر مسلسل کئی مہینوں تک دھرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت ٹارگٹ نوازشریف اور ان کے قریبی ساتھی تھے، دھرنے کے ماسٹرمائنڈ، فنانسرز اور سہولت کاروں کا ہدف نواز شریف سے استعفیٰ لے کر انھیں ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر کرنا تھا ۔ اس گروہ نے اپنے تمام ہدف کامیابی سے حاصل کیے، یہ الگ بات ہے کہ ریاست کو کتنا نقصان پہنچا لیکن اس بار یہ طاقتور گروہ کامیاب نہیں ہوسکا، شنگھائی کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہوگیا۔
ریاست اور ریاستی سسٹم میں دو واضح دھڑے ہیں، دو واضح سوچیں اور دو واضح سیاسی و معاشی مفادات ہیں۔آج سیاست نہیں کچھ اور ہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس میں ایک طاقتور اسٹیک ہولڈرز دھڑے کی کوشش اقتدار پر گرفت کو مزید مضبوط بنایا جائے جب کہ دوسرے طاقتور اسٹیک ہولڈر دھڑا،اس دھڑے کے اقتدار کا خاتمہ کرکے زمام اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کی آل آوٹ جدوجہد کررہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں دھڑوں کے سیاسی و مالی مفادات ایک دوسرے کی ضد ہیں، ان میں کمپرومائز ہونا ممکن نظر نہیں آرہا، معاملہ دونوں کے لیے تنگ آمد بہ جنگ آمد جیسا بن چکا ہے۔
لاہور میں جھوٹی خبریں پھیلا کر اشتعال کو ابھارا گیا تاکہ لوگوں کو کسی طرح سڑکوں پر لایا جائے، نو مئی، ڈھاکا یا پھر کولمبو جیسے واقعے کو جنم دیا جائے۔ دوسری طرف آئینی ترامیم بھی ہونے جا رہی ہیں۔ حکومت کا یہ خیال ہے کہ آئینی ترامیم جس طرح سے وہ چاہ رہی ہے ، وہ پاس ہوجائیں مگر ایسا نہ ہوا تو پھر...
شیخ حسینہ واجد حکومت سے جاتے جاتے سات سو لوگوں کے قتل کا الزام اپنے سر لے گئیں مگر ہمارے ہاں سانحہ نو مئی برپا کیا گیا ہے یا پھر اسلام آباد کا گھیراؤ کیا گیاتو گملے ٹوٹتے ہیں،درخت نذر آتش ہوتے ہیں مگر مظاہریں نہیں مارے جاتے، بعد میں مقدمے اور گرفتاریاں کی گئی ہیں، یوں فساد کے ماسٹر مائنڈ ، فنانسرز اور سہولت کار اپنے مقاصد پورے نہ کرسکے اور ناکام ٹھہرے۔ یہ آرٹ صرف ہمیں ہی آتا ہے، کسی اور کو نہیں۔ بھلے ہی ہماری جمہوریت کمزور ہے۔ اگر حسینہ واجد اور ان کی ٹیم بھی ایسا کرتے تو آج بھی ان کی حکومت ہوتی۔
آئین میں اگر ترامیم ہو جاتی ہیں تو ساتھ ہی تصادم بھی بڑھے گا ، اگر ترامیم انجام نہیں پاتیں تو ایک نئی نفسیات کا جنم ہوگا، اگر یہ حکومت یا پھر یہ معذور جمہوریت جیسی بھی اس ملک میں رائج ہے ، خطرے میں آجائے گی ۔ تو اس طاقتور اشرافیہ کے کرتا دھرتا اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے نظر آئیں گے جنھوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر 2014 میں دھرنا دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے پھر سے ایک فیصلہ صادر کیا ہے کہ الیکشن کمیشن ان کے کیے ہوئے فیصلے پر عمل درآمد کرائے مگر الیکشن کمیشن ، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو آئین کے مطابق نہیں مانتی۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ صحیح ہو یا غلط مگر آئین پاکستان کےArticle 189 کے تحت یہ لازم ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے، چاہے اس فیصلے کی اخلاقی حیثیت کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ نقطہ ہے جو ہمیں واپس تین نومبر 2007 کے قریب لا کھڑا کرتا ہے۔ اس وقت ایک آمر اقتدار کی کرسی پر تھا اور آج ایک طرف آمرانہ سوچ کے مالک بانی پی ٹی آئی ہیں اور دوسری طرف ہے جمہوریت اور پارلیمنٹ ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ آج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
اس سارے کھیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ آج ڈکٹیٹر اور عدلیہ آمنے سامنے نہیں ہیں بلکہ آج عدلیہ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے ہیں۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ اگر آئین کے مطابق نہیں تو اس پر عمل درآمد نہ کرانا بھی آئین کے خلاف ہے۔ یہ صورتحال آٹھ ججز کے ایک فیصلے نے پیدا کی ہے جب کہ اس فیصلے کے نتیجے میں جو برآمد ہوا ہے ، وہ بحران ہے جس کا نقصان پورے نظام کو پہنچ رہا ۔
بلاشبہ بغیر تحقیق کے کسی پر الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ فلاں اسرائیل کا ایجنٹ ہے، را کا ایجنٹ ہے یا سی آئی اے یا چین کا ایجنٹ ہے۔ لیکن جو سامنے کا سچ ہے، وہ یہ ہے کہ 2014 میں سی پیک کی بنیادیں ڈالی جا رہی تھیں، ہم نے ڈی چوک پر دھرنا دے دیا۔ سچ یہ بھی ہے کہ اب پاکستان پرانی روش پر چل نہیں پائے گا۔ دھرنے دینے ، جلاؤ گھیراؤ کرنے والا گروہ اور ان کے سہولت کاروں کی سوچ و فکر اور ان کی حکمت عملی اس ملک کو آگے نہیں لے کر جاسکتیں ۔
امریکا کے آنے والے انتخابات میں ٹرمپ صاحب جیتیں گے یا پھر کملا ہیرس معلوم نہیں ۔ تاہم اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو بانی پی ٹی آئی نے سیاست میں جو یوٹرن لیے، شوشے چھوڑے ہیں، وہ صحیح ثابت ہوںگے ، ممکن انھیں فائدہ بھی ہوجائے۔ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد نواز شریف کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اگر کملا ہیرس فتح یاب ہوئیں تو معاملہ برعکس ہوسکتا ہے۔
میرے اگلے کالم تک حالات تبدیل ہو چکے ہوں گے،اس وقت معیشت اور کاروبار عالمی ترجیحات میں پہلی پوزیشن پر آچکے ہیں۔ دنیا کی تمام امیر اور غریب ریاستوں کے اسٹیک ہولڈرز نے تسلیم کرلیا ہے کہ معاشی طور پر ناکام ریاستوں کے لیے اپنے وجود اور ساخت کو زندہ رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔پاکستان کو اس دلدل سے نکلنا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری ضرور آئی ہے مگر ابھی رکاوٹین بہت زیادہ ہیں۔ جو لوگ پاکستان میں عدم استحکام کو فروغ دے رہے ہیں،ان کو تعمیری انداز میں سیاست کرنے کی طرف راغب کرنا ہوگا کیونکہ وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ انھیں ادراک ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان ناکام ہوا تو کامیاب وہ بھی نہیں ہوں بلکہ سب پاکستانی ہار جائیں گے۔
اس ریاست کو ناکام بنانے کے لیے آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے ، ایسے حالات پیدا کرنے کی پوری کرشش کی گئی جس کے نتیجے میں شنگھائی کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد ممکن نہ ہوسکے، ماضی میں یہ طاقتور اور بااثرگروہ چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی کراچکا تھا۔ 2014 میں ڈی چوک پر مسلسل کئی مہینوں تک دھرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت ٹارگٹ نوازشریف اور ان کے قریبی ساتھی تھے، دھرنے کے ماسٹرمائنڈ، فنانسرز اور سہولت کاروں کا ہدف نواز شریف سے استعفیٰ لے کر انھیں ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر کرنا تھا ۔ اس گروہ نے اپنے تمام ہدف کامیابی سے حاصل کیے، یہ الگ بات ہے کہ ریاست کو کتنا نقصان پہنچا لیکن اس بار یہ طاقتور گروہ کامیاب نہیں ہوسکا، شنگھائی کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہوگیا۔
ریاست اور ریاستی سسٹم میں دو واضح دھڑے ہیں، دو واضح سوچیں اور دو واضح سیاسی و معاشی مفادات ہیں۔آج سیاست نہیں کچھ اور ہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس میں ایک طاقتور اسٹیک ہولڈرز دھڑے کی کوشش اقتدار پر گرفت کو مزید مضبوط بنایا جائے جب کہ دوسرے طاقتور اسٹیک ہولڈر دھڑا،اس دھڑے کے اقتدار کا خاتمہ کرکے زمام اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کی آل آوٹ جدوجہد کررہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں دھڑوں کے سیاسی و مالی مفادات ایک دوسرے کی ضد ہیں، ان میں کمپرومائز ہونا ممکن نظر نہیں آرہا، معاملہ دونوں کے لیے تنگ آمد بہ جنگ آمد جیسا بن چکا ہے۔
لاہور میں جھوٹی خبریں پھیلا کر اشتعال کو ابھارا گیا تاکہ لوگوں کو کسی طرح سڑکوں پر لایا جائے، نو مئی، ڈھاکا یا پھر کولمبو جیسے واقعے کو جنم دیا جائے۔ دوسری طرف آئینی ترامیم بھی ہونے جا رہی ہیں۔ حکومت کا یہ خیال ہے کہ آئینی ترامیم جس طرح سے وہ چاہ رہی ہے ، وہ پاس ہوجائیں مگر ایسا نہ ہوا تو پھر...
شیخ حسینہ واجد حکومت سے جاتے جاتے سات سو لوگوں کے قتل کا الزام اپنے سر لے گئیں مگر ہمارے ہاں سانحہ نو مئی برپا کیا گیا ہے یا پھر اسلام آباد کا گھیراؤ کیا گیاتو گملے ٹوٹتے ہیں،درخت نذر آتش ہوتے ہیں مگر مظاہریں نہیں مارے جاتے، بعد میں مقدمے اور گرفتاریاں کی گئی ہیں، یوں فساد کے ماسٹر مائنڈ ، فنانسرز اور سہولت کار اپنے مقاصد پورے نہ کرسکے اور ناکام ٹھہرے۔ یہ آرٹ صرف ہمیں ہی آتا ہے، کسی اور کو نہیں۔ بھلے ہی ہماری جمہوریت کمزور ہے۔ اگر حسینہ واجد اور ان کی ٹیم بھی ایسا کرتے تو آج بھی ان کی حکومت ہوتی۔
آئین میں اگر ترامیم ہو جاتی ہیں تو ساتھ ہی تصادم بھی بڑھے گا ، اگر ترامیم انجام نہیں پاتیں تو ایک نئی نفسیات کا جنم ہوگا، اگر یہ حکومت یا پھر یہ معذور جمہوریت جیسی بھی اس ملک میں رائج ہے ، خطرے میں آجائے گی ۔ تو اس طاقتور اشرافیہ کے کرتا دھرتا اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے نظر آئیں گے جنھوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر 2014 میں دھرنا دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے پھر سے ایک فیصلہ صادر کیا ہے کہ الیکشن کمیشن ان کے کیے ہوئے فیصلے پر عمل درآمد کرائے مگر الیکشن کمیشن ، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو آئین کے مطابق نہیں مانتی۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ صحیح ہو یا غلط مگر آئین پاکستان کےArticle 189 کے تحت یہ لازم ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے، چاہے اس فیصلے کی اخلاقی حیثیت کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ نقطہ ہے جو ہمیں واپس تین نومبر 2007 کے قریب لا کھڑا کرتا ہے۔ اس وقت ایک آمر اقتدار کی کرسی پر تھا اور آج ایک طرف آمرانہ سوچ کے مالک بانی پی ٹی آئی ہیں اور دوسری طرف ہے جمہوریت اور پارلیمنٹ ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ آج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
اس سارے کھیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ آج ڈکٹیٹر اور عدلیہ آمنے سامنے نہیں ہیں بلکہ آج عدلیہ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے ہیں۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ اگر آئین کے مطابق نہیں تو اس پر عمل درآمد نہ کرانا بھی آئین کے خلاف ہے۔ یہ صورتحال آٹھ ججز کے ایک فیصلے نے پیدا کی ہے جب کہ اس فیصلے کے نتیجے میں جو برآمد ہوا ہے ، وہ بحران ہے جس کا نقصان پورے نظام کو پہنچ رہا ۔
بلاشبہ بغیر تحقیق کے کسی پر الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ فلاں اسرائیل کا ایجنٹ ہے، را کا ایجنٹ ہے یا سی آئی اے یا چین کا ایجنٹ ہے۔ لیکن جو سامنے کا سچ ہے، وہ یہ ہے کہ 2014 میں سی پیک کی بنیادیں ڈالی جا رہی تھیں، ہم نے ڈی چوک پر دھرنا دے دیا۔ سچ یہ بھی ہے کہ اب پاکستان پرانی روش پر چل نہیں پائے گا۔ دھرنے دینے ، جلاؤ گھیراؤ کرنے والا گروہ اور ان کے سہولت کاروں کی سوچ و فکر اور ان کی حکمت عملی اس ملک کو آگے نہیں لے کر جاسکتیں ۔
امریکا کے آنے والے انتخابات میں ٹرمپ صاحب جیتیں گے یا پھر کملا ہیرس معلوم نہیں ۔ تاہم اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو بانی پی ٹی آئی نے سیاست میں جو یوٹرن لیے، شوشے چھوڑے ہیں، وہ صحیح ثابت ہوںگے ، ممکن انھیں فائدہ بھی ہوجائے۔ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد نواز شریف کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اگر کملا ہیرس فتح یاب ہوئیں تو معاملہ برعکس ہوسکتا ہے۔
میرے اگلے کالم تک حالات تبدیل ہو چکے ہوں گے،اس وقت معیشت اور کاروبار عالمی ترجیحات میں پہلی پوزیشن پر آچکے ہیں۔ دنیا کی تمام امیر اور غریب ریاستوں کے اسٹیک ہولڈرز نے تسلیم کرلیا ہے کہ معاشی طور پر ناکام ریاستوں کے لیے اپنے وجود اور ساخت کو زندہ رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔پاکستان کو اس دلدل سے نکلنا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری ضرور آئی ہے مگر ابھی رکاوٹین بہت زیادہ ہیں۔ جو لوگ پاکستان میں عدم استحکام کو فروغ دے رہے ہیں،ان کو تعمیری انداز میں سیاست کرنے کی طرف راغب کرنا ہوگا کیونکہ وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ انھیں ادراک ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان ناکام ہوا تو کامیاب وہ بھی نہیں ہوں بلکہ سب پاکستانی ہار جائیں گے۔