شہیدِ ملت لیاقت علی خان

16اکتوبر 1951ء کو راول پنڈی میں یہ عوامی جلسہ سہ پہر کے بعد شروع ہوا، لوگوں میں بہت جوش وخروش تھا۔۔۔ ’سپاس نامے‘ کے بعد اب قائد ملت لیاقت علی خان عوام کے جمِ غفیر کے سامنے تھے، وہ اس روز غیرمعمولی طور پر سنجیدہ اور متفکر نظر آتے تھے، اور متوقع طور پر کوئی اہم اعلان بھی کرنے والے تھے، جس کے بارے میں قیاس ہے کہ وہ خارجہ امور سے متعلق تھا، ساتھ ہی وہ اہم وفاقی وزارتوں سے متعلق بھی کوئی اہم فیصلہ کرنے کو تھے۔۔۔ لیکن سازشی عناصر نے انھیں یہ موقع ہی نہیں دیا، وہ ابھی ’برادرانِ ملت۔۔۔!‘ کے الفاظ ہی ادا کرتے ہیں کہ ان پر گولی چلا دی جاتی ہے۔۔۔ پھر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ میں محفوظ ہے کہ کس طرح موقع پر ہی افغان قاتل سید اکبر کو قابو کرلینے کے باوجود اُسے جان سے مار دیا گیا، دوسری طرف ’قائد ملت‘ کا جسد بھی بے حس وحرکت ہوتا چلا گیا، انھیں مضروب حالت میں اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ جاں بر نہ ہو سکے اور شام سات بجے تک باقاعدہ اس دل دوز واقعے کا اعلان کر دیا گیا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے!

ادیب ممتازرفیق اپنے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کچھ یوں لکھتے ہیں کہ جب یہ اندوہ ناک اطلاع ملی، تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے گھر والے ریڈیو پر کسی کی موت کا سن کر رو رہے ہیں، انھیں حیرت ہوئی تھی کہ جب وہ ہمارے کوئی رشتہ دار بھی نہ تھے، تو سب اتنے دکھی کیوں ہیں؟ ان کی امّاں نے کہا کہ ’’بیٹا، وہ ہمارے سب کچھ تھے۔۔۔!‘‘ اس ایک مختصر جملے میں ہی کتنا درد اور کس قدر محرومی محسوس ہوتی ہے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے بقول قائداعظم کے انتقال کے موقع پر ان کے بزرگ اس بات پر مطمئن تھے کہ قائد کے رفقا ملک کو سنبھال لیں گے، لیکن لیاقت علی کی شہادت کے بعد قوم کی بے بسی بالکل بجا تھی کہ اس کے بعد ہماری بربادیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ 1971ء میں ملک دولخت ہونے کے 50 برس بعد آج بھی کسی طرح نہیں تھم رہا۔

ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک اخباری مضمون میں اس واقعے کو ’دو معصوم جانوں کا ضیاع‘ قرار دیا تھا۔۔۔! یہی نہیں قائد ملت کے چھوٹے صاحب زادے اکبر لیاقت علی بھی یہی کہتے ہیں کہ ’قاتل کوئی اور تھا‘ اور ساتھ ہی یہ بات کہ انھیں گولی سامنے نہیں بلکہ عقب سے ماری گئی۔۔۔! ممتاز محقق اور مورخ ڈاکٹر رضا کاظمی بھی انھیں پشت سے گولی مارے جانے کی بات سے متفق ہیں۔ قاتلوں اور سازش کرنے والوں نے پھر اس قتل کے پس پردہ محرکات کو سامنے آنے سے روکے رکھا۔ 26 اگست 1952ء کو تحقیقاتی دستاویز لے جانے والے جہاز کا ’’حادثہ‘‘ بھی ایک ایسی ہی پراَسرار کارروائی تھی۔ اکبر لیاقت علی خان (مرحوم) نے اکتوبر 2022ء میں ’ایکسپریس‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ہمیں بتایا تھا کہ آئی جی پولیس اعتزاز الدین نے ہماری والدہ سے کہا تھا کہ مجھے پتا چل گیا ہے کہ ان کے قتل میں کون کون ملوث ہے، لیکن انھوں نے کسی کا نام نہیں لیا اور کہا کہ میں وہاں جا رہا ہوں، بس پھر ان کا جہاز ہی گر گیا۔‘‘

یہی نہیں بلکہ 1960 کی دہائی میں سید اکبر کو مارنے والے پولیس اہل کار کو بھی قتل کر دیا گیا، ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قتل کرنے والوں کی ہمارے ملک پر گرفت کتنی مضبوط رہی۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’لیاقت علی کی اپنے سیاسی حریف حسین شہید سہروردی سے مفاہمت ہوگئی تھی اور وہ حکومت میں شمولیت پر آمادہ تھے۔‘‘ لیکن آپ دیکھیے کہ کیسے سازشیوں نے اپنا کام دکھایا اور پھر لیاقت علی کو تنہا کرنے والوں نے حسین شہید سہروردی کو بھی اپنے راستے سے ہٹا دیا۔

ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ 1951ء میں لیاقت علی کے خلاف سامنے آنے والے ’پنڈی سازش کیس‘ کے حوالے سے اس وقت کی کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا آگاہ تھے، لیکن انھوں نے اپنے وزیراعظم لیاقت علی خان کو نہیں بتایا، اور جب پولیس نے یہ سازش پکڑی تو وہ اَن جان بنے رہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ اقتدار پر کن لوگوں کی گرفت مضبوط ہو رہی تھی! یقیناً ’سانحۂ سولہ اکتوبر‘ سے پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ اور وڈیرہ شاہی کے پنجے مضبوط ہوگئے تھے اور لیاقت علی خان کا قتل بھی کچھ ایسی ہی سازشوں کا نتیجہ تھا۔

نواب زادہ لیاقت علی خاں کی یہ بدنصیبی ہے کہ ’بانی پاکستان‘ کے بعد سب سے زیادہ اہم قومی راہ نما ہونے کے باوجود ان کے لیے ہمارے ملک میں زیادہ گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔۔۔! اس میں جہاں بہت سے نظریاتی اور سیاسی تعصبات در آتے ہیں، وہیں لسانی اور قومیتی تعصبات بھی گہرے ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، جو کہ نہایت افسوس ناک صورت حال ہے۔ آج نام نہاد جمہوریت کے نام پر اقتدار کی بندر بانٹ اور جوڑ توڑ میں مصروف مختلف سیاسی قوتیں ضروری ہی نہیں سمجھتیں کہ کبھی لیاقت علی کی قربانیوں کو بھی یاد کرلیں، حقیقت میں اب لیاقت علی کے ملک میں ہی لیاقت علی کو بالکل لاوارث سمجھ لیا گیا ہے، ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انھیں سرکاری سطح پر بھی باقاعدہ نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف مختلف جواز تلاش کر کے قائدملت پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں، ہماری تاریخ میں ان کا بلند مرتبہ گھٹانے اور ان کا قد چھوٹا کرنے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں، اس سے زیادہ شرم ناک بات اور کیا ہوگی کہ قائداعظم کے بعد مسلّمہ طور پر عالی مرتبت ہونے کے باوجود ان کے یوم شہادت کو سرکاری سطح پر نہیں منایا جاتا۔ اخبارات کے ریکارڈ گواہ ہیں کہ 16 اکتوبر کو ان کی شہادت پر اکّا، دُکا تقریبات کے سوا کہیں کوئی ’خبر‘ تک دکھائی نہیں دیتی۔۔۔ حالاں کہ لیاقت علی خاں نہ صرف اس ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور تحریک پاکستان کے ایک عظیم راہ نما تھے، بلکہ عملاً اپنی جاگیریں اور اپنی جان تک اس پاکستان پر لُٹا دینے والے واحد راہ نما ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو بنانے کے بعد اگر اس کے ناتواں وجود کو برقرار رکھنے میں لیاقت علی کے کردار کو نکال دیا جائے، تو خاکَم بدہن یہ ملک شاید برقرار نہیں رہ پاتا، کیوں کہ ابھی یہ نیا ملک سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ بابائے قوم 1948ء میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اس کے بعد پاکستان کی زندگی کے تین اہم ترین برس ’قائد ملت‘ ہی تھے، جنھوں نے اس ملک کو اپنے پیروں پر چلنے کے قابل بنا کر دکھایا، لیکن تنگ نظری کا کیا کیجیے کہ بہت سے ’بونے‘ اہل علم اور نام نہاد دانش ور یہ ان کے چند ایک حکومتی اقدام کی آڑ لے کر ان کا تشخص ہی داغ دار کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں بڑے بڑے بدعنوان اور بدنام زمانہ ملزمان اور متنازع ترین راہ نماؤں کی شان میں بڑی بڑی باتیں اور تقاریر کرنے والے تو بہ آسانی میسر ہو جاتے ہیں، لیکن ’شہید ملت‘ جیسے بلند کردار راہ نما بالکل ’لاوارث‘ سے محسوس ہوتے ہیں، ان کے نام کو نہ ’مسلم لیگ‘ نام پر بنی ہوئی کسی سیاسی جماعت میں جگہ ملتی ہے اور نہ ہی پاکستان کی حکومت کو یہ توفیق ہوتی ہے کہ وہ سال میں ایک بار ہی سہی قائد کے دستِ راست کو خراج عقیدت پیش کرسکے!

تاریخ شاہد ہے قائداعظم تو ہندوستان کی سیاست سے مایوس ہو کر لندن چلے گئے تھے، اس وقت لیاقت علی خان ہی وہ شخصیت تھے، جنھوں نے 1933ء میں خود لندن جا کر قائداعظم کو منایا اور انھیں واپس آکر برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کے لیے آمادہ کیا تھا، جس کے بعد قائد نے 1934ء میں واپس آکر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور ایک نئے عزم کے ساتھ تحریک پاکستان کو آگے بڑھایا۔ ممتاز محقق ڈاکٹر سید جعفر احمد کا خیال ہے کہ بانی پاکستان کی جانب سے ممکنہ طور پر پاکستان کی پہلی وزارت عظمیٰ کے لیے چوہدری خلیق الزماں اور حسین شہید سہروردی جیسی شخصیات پر بھی غور کیا گیا ہوگا، لیکن چوں کہ لیاقت علی اور محمد علی جناح کے درمیان ہم آہنگی اور مزاج شناسی پیدا ہوچکی تھی، پھر قائد نے شاید یہ بھی چاہا ہوگا کہ بہ جائے کسی صوبائی قیادت کے، مسلم لیگ کی مرکزی کابینہ ہی سے کسی کو منتخب کیا جائے اور پھر ’قائد ملت‘ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے طور پر اپنی قابلیت دکھا چکے تھے۔

ممتاز سفارت کار جمشید مارکر رقم طراز ہیں کہ ’’جب لیاقت علی کی متروکہ املاک سے متعلق فائل پیش کی گئی کہ آپ کو بہترین متبادل مل سکے، تو انھوں نے کہا کہ جب تک آخری مہاجر تک آباد نہ ہو جائے، آپ یہ فائل میرے پاس نہیں لائیے گا!‘‘

یہ وہی نواب زادہ تھے، جن کے دیے ہوئے گھر میں ہی دلی میں پاکستانی سفارت خانہ قائم ہے، مگر افسوس کہ ہم تب بھی ان کے احسانات کو بھولے بیٹھے ہیں!

27جولائی 1951ء کو لیاقت علی نے ہندوستان سے کشیدگی کے ماحول میں اپنا وہ مُکا لہرایا جو اتحاد ویک جہتی کی علامت کے طور پر تاریخی حیثیت اختیار کر گیا۔ 14 اگست 1951ء ہی کو جہانگیر پارک میں انھوں نے اپنی جان پاکستان پر نچھاور کرنے کا عزم کیا اور محض دو ماہ بعد 16 اکتوبر کو اپنے اس آہنی عزم کی تکمیل بھی کر ڈالی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ لیاقت علی کے قتل کی ازسرنو تحقیقات کر کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے، تاکہ ہماری تاریخ کی سمت درست ہو سکے اور ہمیں پتا چل سکے کہ اس ملک کی قیادت بانیانِ پاکستان سے چھیننے والی قوتیں کون تھیں؟

جامعہ کراچی: ’قائد ملت‘ کی تصویر مٹا کر دیوار ’’صاف‘‘ ہوگئی!

جامعہ کراچی کی مشہورِ زمانہ ’آرٹس لابی‘ میں طویل عرصے سے بنی ہوئی سرسید احمد خاں، محمد علی جوہر اور ٹیپو سلطان کے ساتھ لیاقت علی خان کی تصاویر، جن کے ساتھ قتیل شفائی کا یہ شعر لکھا تھا ؎

ایک یہی پہچان تھی، اپنی اس پہچان سے پہلے بھی

پاکستان کا شہری تھا میں، پاکستان سے پہلے بھی

یہ شعر اور تصاویر نہ صرف جامعہ کراچی کے طلبہ کے لیے ہمارے قومی راہ نمائوں کی یاد کو ہر لمحہ تازہ رکھتی تھیں، بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو بھی کسی لمحہ اوجھل نہ ہونے دیتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تصاویر کی ایک ’خصوصیت‘ یہ بھی تھی کہ غیر متنازع راہ بران قوم کی یہ تصاویر پاکستان کے تنگ نظر اور متعصب اذہان کو پہلے دن ہی سے کھٹکتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ 2022ء میں جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے ’خوب صورتی‘ کے نام پر ان قومی راہ نمائوں کی تصاویر پر دھڑلے سے ’سپیدی‘ پھیر دی۔۔۔! سب جانتے ہیں کہ یہ نری بھدی اور ایک نہایت ہی اوچھی حرکت تھی، اور بہ ظاہر اس کا مقصد درودیوار کا ’حُسن‘ بڑھانا بتایا گیا، لیکن اصل نشانہ لیاقت علی خان سمیت ہمارے اکابرین اور بانیان پاکستان ہی تھے۔

جامعہ کراچی کے طلبہ نے اس پر شدید احتجاج کیا اور پھر یہ تصاویر پینا فلیکس پر بنوا کر دوبارہ چسپاں بھی کر دیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ نے چند دن بعد یہ تصویر پینٹ کروانے کے وعدے پر طلبہ تنظیم ’اے پی ایم ایس او‘ کے ذریعے ان تصاویر کو دوبارہ اتروا دیا اور آج دو سال بعد بھی لیاقت علی خان اور دیگر راہ نمائوں کی تصاویر آویزاں نہیں کی جاسکی ہیں۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، لیکن یہ دراصل وہ بیمار رویے اور پست ذہنیت ہے، جو ہمارے اہل حَکم کی نیتوں کی خرابی اور ان کے تعصب کی غمازی کرتا ہے!

75 روپے کے یادگاری نوٹ میں بھی جگہ نہ ملی!

گذشتہ برس قیام پاکستان کی رُبع صدی مکمل ہونے کی مناسبت سے جاری ہونے والے 75 روپے کے یادگاری نوٹ کی صورت میں بھی یہی رویہ دیکھا گیا، اس نوٹ پر قائد کے ساتھ، فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور سرسید کو تو جگہ مل گئی، لیکن لیاقت علی کو مکمل نظرانداز کیا گیا۔ اس پر قومی غیر ت وحمیت رکھنے والوں نے احتجاج بھی کیا، پھر یہ ہوا کہ اسٹیٹ بینک نے اپنے 75 سال مکمل ہونے پر جو پچھتر روپے کا یادگاری نوٹ جاری کیا۔

اس سے دیگر بانیانِ پاکستان کا قصہ ہی ختم کر دیا اور اس پر حسب روایت قائد کی شبیہہ کے ساتھ پیچھے محترمہ فاطمہ جناح کی تصویر دے دی، فاطمہ جناح کی تصویر دینے کے پیچھے بھی حکم راں جماعتوں کی یہ فکر کارفرما نظر آتی ہے کہ قائد کی بہن کو دکھا کر آج اپنی موروثی سیاست اور خاندانی حکم رانی کو فروغ دے سکیں!

قصہ راول پنڈی ایئرپورٹ ’لیاقت علی‘ سے منسوب کرنے کا۔۔۔!

پاکستان میں اس وقت 15بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیں، جن میں سے کوئی بھی لیاقت علی سے منسوب نہیں، گذشتہ قومی اسمبلی میں جب راول پنڈی ایئرپورٹ کو ’قائد ملت‘ کے نام کرنے کی ایک قرارداد جمع کرائی گئی، تو اچانک غیر قانونی طریقے سے اس قرارداد کو روک کر یہ ایئرپورٹ کو بے نظیر بھٹو سے منسوب کرنے کی قرارداد منظور کرا لی گئی! حالاں کہ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے سندھ کی پہلی خاتون گورنر بیگم رعنا لیاقت علی خان کو بنایا گیا اور ان کے بیٹے اکبر لیاقت 1977ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار بنائے گئے۔

اس کے باوجود یہ سب کیا گیا۔ اس وقت پنڈی کے اس ائیر پورٹ کے علاوہ کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ، لاہور میں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور کوئٹہ میں قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ موجود ہیں، جب کہ سکھر ہوائی اڈا نصرت بھٹو اور رحیم یار خان کا عرب امارات کے صدر شیخ زید سے منسوب ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ایک وڈیرے کے ہاتھوں جان سے گزرنے والی مائی بختاور لاشاری بھی اس کی حق دار قرار پاتی ہیں کہ اسلام کوٹ (سندھ) کا ہوائی اڈا اُن سے منسوب کیا گیا، جب کہ ساری عمر پاکستان کی مخالفت کرنے والے راہ نما باچاخان سے بھی پشاور کا ہوائی اڈا منسوب ہوا، لیکن نواب زادہ لیاقت علی خان 77 برس بعد بھی اس ’’قابل‘‘ نہیں سمجھے گئے ہیں کہ پاکستان کا کوئی ہوائی اڈا ان کے نام پر ہو سکتا۔

’لیاقت آباد‘ سے ’لیاقت باغ‘ تک!

ہماری قومی تنصیبات صرف غیرمتنازع اور قومی راہ نمائوں سے منسوب ہونی چاہئیں، لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی قائدین، حتیٰ کہ اپنے مختلف ارکان تک کے نام پر پُل، انڈرپاس، عمارتیں اور دیگر ادارے بنا رہی ہیں، جو کہ کسی طور پر بھی درست رویہ نہیں ہے۔ مالی اعانت کے پروگرام کو ’بے نظیر انکم سپورٹ‘ کا نام دیا گیا، لیاری میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج اور بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی کے علاوہ سول اسپتال میں بے نظیر ٹراما سینٹر بھی بنایا گیا، گذشتہ دنوں حکومت سندھ نے کسانوں کی مالی اعانت کے لیے ’بے نظیر ہاری کارڈ‘ جاری کیا ہے۔ کراچی کی مرکزی سڑک شاہ راہِ فیصل پر نصرت بھٹو انڈر پاس (مہران ہوٹل)، فوزیہ وہاب فلائی اوور (نزد ٹیپو سلطان روڈ)، اور ’منورسہروردی انڈر پاس‘ بنائے گئے۔ قائد عوام انجینئرنگ یونیورسٹی (نواب شاہ) اور بیگم نصرت بھٹو ویمن یونیورسٹی (سکھر) کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ’این آئی سی وی ڈی‘ (کارڈیو) کو ’ایس آئی سی وی ڈی‘ اور جناح میڈیکل یونیورسٹی کو ’جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی‘ کرایا گیا، برنس روڈ پر ایس ایم لا کالج کے ساتھ باقاعدہ پوری سڑک پر تعمیرشدہ تفریح گاہ ’’پیپلز اسکوائر‘‘ اور کراچی میں چلنے والی بسیں بھی ’پیپلز بس سروس‘ کے زیرانتظام ہیں۔ایسے ہی 2012ء میں متحدہ قومی موومنٹ نے بھی فیڈرل بی ایریا میں ایک جامعہ قائم کی، تو اُسے بھی الطاف حسین کے والد سے منسوب کرتے ہوئے ’نذیر حسین یونیورسٹی‘ کا نام دیا گیا، سائٹ ایریا میں ایک پُل الطاف حسین کی صاحب زادی افضا الطاف کے نام کیا گیا، اسی طرح خورشید بیگم میموریل ہال بھی ’بانی متحدہ‘ کی والدہ کے نام پر ہے۔2006ء میں گورنر سندھ کے نام پر ’ڈاکٹر عشرت العباد خان انسٹی ٹیوٹ آف اورل ہیلتھ سائنسز‘ بھی قائم کیا گیا۔

1990ء کی دہائی میں بنوایا گیا عزیز آباد کا ’لیاقت علی خان چوک‘ جو اُن کے مُکّا بنے ہوئے ہونے کی بنا پر ’مُکا چوک‘ کہلایا، لیکن ’نامعلوم‘ وجوہ کی بنا پر 30 دسمبر 2017ء کو حکومت نے یہ مُکا یہاں سے ہٹا دیا۔ اس کے علاوہ راول پنڈی کا کمپنی باغ بھی لیاقت علی کی شہادت کے بعد ’لیاقت باغ‘ کہلاتا ہے، جب کہ کراچی میں لیاقت آباد، لیاقت نیشنل اسپتال، لیاقت میموریل لائبریری، شاہ راہ لیاقت، شہیدِ ملت روڈ، لیاقت علی خان روڈ (گلشن معمار) اور لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسری ہمیں ’شہید ملت‘ کی یاد دلا دیتے ہیں! جامعہ کراچی میں ایوانِ لیاقت گرلز ہاسٹل، شہید ملت گورنمنٹ ڈگری ویمن کالج، عزیز آباد اور گلشنِ کنیز فاطمہ میں لیاقت علی خان اکیڈمی بھی موجود ہے۔ اسلام آباد میں شہیدِ ملت سیکریٹریٹ اور لاہور میں قائدِملت کالونی بھی قائم ہے۔

’’یہ نہ سمجھنا تمھارا باپ وزیراعظم ہونے کے ناتے تمھیں کوئی سہولت دے گا!‘‘

لیاقت علی خان کا شمار ان منفرد راہ نمائوں میں ہوتا ہے کہ جو کبھی کانگریس میں شامل نہ ہوئے۔ آپ نے 1923ء میں قائداعظم کی قیادت میں ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ میں شمولیت اختیار کی اور 1924ء میں مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں شرکت کی، 1926ء میں ’یوپی‘ کی قانون ساز اسمبلی میں آزاد رکن کی حیثیت سے پارلیمانی سیاست شروع کی، 1946ء میں متحدہ ہندوستان کی عبوری حکومت کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے ایک بہترین بجٹ پیش کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اگست 1947ء میں قومی پرچم منظوری کے لیے پیش کرنے کا اعزاز بھی قائد ملت ہی کے حصے میں آیا، پاکستان کے پہلے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی لیاقت علی خان ہی تھے، جب کہ اکثر سر ظفر اللّہ خان کو پہلا باقاعدہ وزیرخارجہ قرار دیا جاتا ہے، جب کہ وہ 27 دسمبر 1947ء کو وزیرخارجہ بنے۔

قائدِملت کے صاحب زادے اشرف لیاقت اپنے ایک مضمون میں اظہارخیال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی ولایت علی خا ن نے شکوہ کیا کہ کراچی میں ہمارے پاس ڈھنگ کا گھر ہے اور نہ کوئی سہولت، تو لیاقت علی نے کہا کہ میں اپنے خاندان کے لیے کچھ نہیں کروں گا، اگر میں نے اقربا پروری کی مثال قائم کردی، تو دوسروں کو بھی ترغیب ہوگی اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا۔ تم یہ نہ سمجھنا تمھارا باپ وزیراعظم ہونے کے ناتے تمھیں کوئی سہولت یا ترجیح دے گا۔

اکبر لیاقت علی نے 2022ء میں اپنے انٹرویو میں ’ایکسپریس‘ کو بتایا تھا کہ ’’جب شکر کی راشنگ ہوتی تھی، اور مجھے شکر بہت پسند تھی، میں اکثر شکر کھایا کرتا تھا، مگر ہمیں بھی اتنی ہی شکر ملتی تھی، جو سب کو ملتی، میں نے اپنے والد سے کہا آپ تو بڑے آدمی ہیں، آپ تو زیادہ لے سکتے ہیں، وہ کہنے لگے ہاں لے سکتا ہوں، لیکن لوں گا نہیں، کیوں کہ یہ آپ کو سیکھنا ہے، باقی عوام بھی تو اسی میں گزارا کر رہے ہیں۔‘