’’لڑتے رہیں گے، اور ایک دن ہمیں آزادی ملے گی‘‘

رمیز رحمٰن  اتوار 20 اکتوبر 2024
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

(اسماعیل زیادا نے پہلی انتفادہ میں اپنا حصہ ڈالا، پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلینے والی اس فلسطینی تحریک میں شمولیت کے بعد ان کی حریت پسندی کا سفر رکا نہیں، تاہم راستہ بدل گیا۔ وہ نیڈرلینڈ میں مقیم ہیں، جہاں انھوں نے اسرائیلی فوجی حکام کے فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف ہالینڈ کی عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا، جہاں مغرب اور صیہونیت کے گٹھ جوڑ کے ہاتھوں حسب توقع انصاف کا خون ہوا اور اسماعیل زیاد مقدمہ ہار گئے، لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ مسلسل اپنی قوم کے حق میں اور نام نہاد اسرائیل کے خلاف مصروف عمل ہیں۔

اب انھوں نے یورپین کورٹ آف جسٹس سے رجوع کیا ہے۔ ان سے حال ہی میں کیے جانے والے ایک انٹرویو کو نیدرہالینڈ میں مقیم فلسطینی کاز کے لیے متحرک پاکستانی سائنس داں اور دانش ور رمیزرحمٰن نے ایکسپریس سنڈے میگزین کے لیے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، جسے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے)

٭   ویل، ہلو، اسماعیل۔ آپ اپنا تعارف کرائیں۔

میرا نام اسماعیل زیادا ہے۔ میں فلسطین کا پناہ گزین ہوں، اصل میں فلوجہ نامی ایک شہر سے ہوں جو فلسطین کے جنوب میں واقع ہے۔ میرا خاندان وہاں سے نکال دیا گیا تھا 1948-49 میں۔ میں رفاح میں پیدا ہوا تھا، ایک پناہ گزینی کیمپ میں، اور میں ال بریج نامی پناہ گزینی کیمپ میں بڑا ہوا۔

٭ اور اب آپ نیدرلینڈ میں ہیں؟

ہاں، میں نیدرلینڈ میں رہ رہا ہوں، بنیادی طور پر 18 سال سے۔

٭اچھا، تو (تصور کیجیے) 7 اکتوبر 2023 ہے۔ آپ کہاں ہیں؟

ویل، میں اپنے بستر میں تھا۔ میں سورہا تھا۔ یہ ایک عام دن یا عام رات تھی۔ اصل میں واپس آ رہا تھا۔ میں استنبول گیا ہوا تھا اپنے بھائی سے ملنے جو غزہ سے ترکی آیا تھا۔ تو مجھے وہاں جانے کا موقع ملا اور 5 اکتوبر کو واپس نیدرلینڈ آیا۔ اور ہاں، مجھے صرف کچھ دنوں کی ضرورت تھی آرام کرنے کی۔ اس لیے میں اس دن دیر تک سو رہا تھا۔ عام طور پر، میں جلدی اٹھ جاتا ہوں لیکن اس دن میرے خیال میں، میں نو بجے تک بستر میں ہی رہا۔ اور جب میں جاگتا ہوں تو میں کبھی اپنا موبائل چیک نہیں کرتا، مگر اس دن، میں نے سوچا دیر سے جاگا ہوں، چیک کرلیتا ہوں کہ کیا پیغامات آئے ہیں۔

میں نے دوستوں کے کچھ پیغامات دیکھے، میرا مطلب ہے، بہت سارے پیغامات، اور میں پریشان ہوگیا۔ کچھ ہوا، میرا مطلب ہے، کہ اتنے پیغامات کا کیا مطلب- اور ہاں، ان پیغامات میں سے ایک دوست نے صحیح طرح بتایا کہ کیا ہو رہا ہے، ’’ہو رہا ہے‘‘ اسماعیل، جاگ جاؤ۔‘‘ یہ ہو رہا ہے۔ تمہارے خاندان کا بدلہ لیا گیا ہے۔‘‘ وہ میرے گھر والوں کا ذکر کر رہا تھا جنھیں اسرائیلی فوج نے ہمارے گھر پر بم گرا کر شہید کر دیا تھا۔ میری ماں، تین بھائی اور بھابھی 2014 میں دھماکا ہونے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ تو میں بستر سے ایک دم زمین پر کود پڑا اور آدھی نیند میں اپنا لیپ ٹاپ چالو کرلیا اور میں نے پہلی تصاویر دیکھیں۔ میں نے لیپ ٹاپ بند کیا، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا- مجھے محسوس ہوا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں-پھر میں نے اپنی روزانہ صبح کی روٹین کے مطابق اپنے دانت صاف کیے، اپنی چائے بنائی، سگریٹ پی۔ اور بس واپس اس اسکرین پر گیا اور دیکھنے لگا کہ کیا ہورہا ہے- اپنے خاندان اور دوستوں کے تبصرے اور پیغامات دیکھے۔ یہ بہت جذباتی لمحہ تھا۔

مجھے یاد ہے کہ میرے آنسو نکل رہے تھے، ’’ہم نے کر دکھایا، ہم نے کرلیا، ہم کام یاب ہوگئے۔‘‘ میرے دماغ میں کہیں یہ خیال بھی تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے، یقیناً ہمارا قتل عام ہونے والا ہے۔ بہرحال اتفاقی طور پر، میرے بڑے بیٹے کی سال گرہ بھی اسی دن تھی۔ جب میں نے اُسے دیکھا، میں نے کہا،’’تم نے بہترین تحفہ حاصل کیا ہے۔‘‘ ہم نے یہ کرلیا۔ ہمارے لوگوں نے نہ جانے کتنے دنوں بعد اپنی زمین پر قدم رکھ دیا ہے- ہاں یہ ایک تاریخی دن ہے، یعنی، یاد رکھنے کے لیے کہ ہم غزہ میں، ہم فلسطین میں ایسا بھی کر سکتے ہیں، یعنی۔ ہم غزہ سے ہیں، ہم زمین کو جانتے ہیں، ہم لوگوں کو جانتے ہیں۔ اور یہ تصور سے پرے کی بات ہے، تصور سے پرے ہے، میرے خیال میں، ان حریت پسندوں نے کر دکھایا یہ بہادر لوگ، میرا مطلب ہے، آگے بڑھ رہے ہیں اور صرف یہ کیا ہے۔ میرا مطلب ہے ہاں، ہاں، ہاں، ہاں، ہاں، ہاں کتنی بہادری، کتنی ذہانت، ہم سب فلسطینی، اش اش کر اٹھے- حالاںکہ سب کو یہ بھی معلوم تھا کہ اب ہمارے ساتھ بربریت ہونے والی ہے، لیکن پھر بھی خوشی تھی، یہ ہماری آزادی کی لڑائی میں ایک یادگار، طلسماتی دن تھا۔

٭کیا آپ نے کبھی ایسا سوچا تھا کہ یہ ہو گا؟

بے شک 7 اکتوبر غیرمتوقع تھا- میرا مطلب ہے ہر سال، ہر دو سال بعد ہم چھوٹی جنگیں، بڑی جنگیں دیکھتے رہے تھے، مزاحمت، حریت پسند زیادہ پیشہ ورانہ، طاقت ور، مؤثر ہوتے نظر آتے تھے۔ اور اس دفعہ انہوں نے دکھا دیا کہ وہ ہمیشہ دفاعی مزاحمت ہی نہیں بلکہ کچھ زیادہ کر سکتے ہیں۔ اور ہماری امیدیں مزاحمت سے ہمیشہ بندھی رہتی ہیں- کیونکہ آپ کو مزاحمت کرنی ہے، میں ایسا کرنے کے اصول میں یقین رکھتا ہوں۔ میری زندگی میں ایک اصول کے طور پر، میرے لیے، خوشی اور زندگی کا مطلب ہے مزاحمت۔ تو اب یہ کتنی دیر لے گا۔

یہ سوال نہیں ہے کیوںکہ ہمیں مزاحمت کرنی ہے اور ہم آزاد ہوکر رہیں گے- اور ان نو جوانوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے- میرا مطلب ہے، آپ 24/7 کی نگرانی میں رہتے ہیں اور یہ صرف صہیونی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ PA (فلسطینی حکومت جو صہیونیوں کی پٹھو ہے) بھی آپ کی نگرانی کرتی ہے، میرا مطلب ہے کہ سیکیوریٹی آلات جنگجوؤں کو گرفتار کر رہے ہیں اور وہ پھر بھی ایسا کرنے میں کام یاب رہے، میرا مطلب ہے کہ کس قسم کے بہادر  انسان ہیں، میرا مطلب ہے کہ آپ کو اس زندگی سے، اپنی سرزمین سے کتنی محبت ہونی چاہیے تاکہ آپ اپنے لوگوں کے لیے ایسا کر سکیں- مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے کتنا مشکل کام کیا ہے- کیوںکہ میں پہلے انتفادہ کی نسل کا ہوں اور اس میں میں نے مزاحمت کی تھی۔

٭ہاں، اس کے بارے میں ہمیں بتائیے؟

میرا مطلب ہے، آپ کو پورا وقت گولی لگنے کا خطرہ تھا، چوٹ لگنے کا خطرہ تھا، ہلاک ہونے کا خطرہ ہے، قید ہونے کا خطرہ ہے؛ یہ تو ہر وقت تھا، لیکن پورا معاشرہ ڈٹا ہوا تھا- صرف پتھر پھینکنے پر آپ کو قتل کر دیا جاتا تھا- مجھے بھی اسرائیلی فوجیوں نے بہت مارا تھا- ہم فلسطینی ہمیشہ اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے ہیں، حالاںکہ ہمارے خلاف اسرائیل ہے، امریکا ہے، سعودی عرب ہے، متحدہ عرب امارات ہے، یورپ ہے، مگر ہم نے کبھی ہار نہیں مانی-اور اب نئی نسل نے یہ جنگ جاری رکھی ہے- سات اکتوبر سے انہوں نے اسرائیلیوں کے، امریکیوں کے اور سعودیوں کے منصوبوں کو، جیسے کے ابراہیم معاہدے کو، ہلا کر رکھ دیا ہے۔

٭لیکن اب جو بربریت اسرائیل کر رہا ہے، جو ظلم غزہ میں ہورہا ہے، آپ اسے کیسے برداشت کرپاتے ہیں؟

یہ ذہن میں رکھ کے کہ ہمارا مقصد کیا ہے- ورنہ تو آپ پاگل ہوجائیں۔ میرا کیمپ مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ لوگ پھر بھی واپس آجاتے ہیں-اور میں ان کو جانتا ہوں، اور جب میں ان سے بات کرتا ہوں، تو یہ مجھے گرمی اور قوت دیتا ہے۔ میرے بھانجے کی بیٹی ہے، وہ چار مہینے قبل پیدا ہوئی تھی، اس کی ماں جنگ کے دوران وہ حاملہ تھی۔ بچی جنگ کے دوران آئی، اور وہ اسے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے میں آپ کو تصاویر دکھاؤں، میرا مطلب ہے، آپ دیکھیں گے یہ ایک ماں ہے جو بچے کا خیال رکھ رہی ہے، یعنی، یہ تصور کرنے والی بات ہے، ماحول اور حالات کتنے خوف ناک ہیں، لیکن وہ اب بھی جاری ہے، وہ بچے کو خوراک پہنچاتی ہے، وہ بچے کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور روزانہ مجھے تصاویر بھیجتی ہے پھر میرا مطلب ہے یہ بچے کی یہ خوب صورت ویڈیوز اور یہ میرے لیے بہت کچھ ہے اور یہ میرے دن کو اچھا بناتی ہیں۔

٭آپ کے خیال میں عمومی طور پر فلسطینیوں کا حوصلہ ابھی کیسا ہے؟

ظاہر ہے لوگ شدید تکلیف میں ہیں، غم میں ہیں، غصے میں ہیں، کبھی کبھی نہ امید بھی ہوجاتے ہیں، لیکن انھیں اپنی دھرتی سے پیار ہے اور وہ لڑتے رہیں گے، اور ایک دن ہمیں آزادی ملے گی- یہ میرا پختہ ایمان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔