شنگھائی تنظیم اور امریکی پالیسیاں

ایران میں تبدیلی لانے سے پاکستان میں من مرضی کی تبدیلیاں لانا انتہائی آسان ہو جائے گا۔


Zamrad Naqvi October 21, 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس 15, 16 اکتوبر کو ہوا۔ جس میں رکن ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں 18 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی جس میں قابل ذکر چین، روس، ایران اور بھارت نے نمایندگی کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو بھیجا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تنظیم کے رکن ممالک کی آبادی دنیا کی آبادی کا 40 فیصد بنتی ہے۔ ان ممالک کا جی ڈی پی دنیا کا 32 فیصد ہے۔ اس تنظیم کا قیام 15 جون 2015 کو چین کے شہر شنگھائی میں عمل میں آیا اور اس کے بنیادی ممبران میں چین ، روس تاجکستان، قازقستان تھے۔

ان پانچ ممالک کی وجہ سے اس تنظیم کا ابتدائی نام شنگھائی فائیو تجویز کیا گیا۔ تاہم بعد میں اس میں توسیع ہونے کی وجہ سے اسے شنگھائی تعاون تنظیم کا نام دیا گیا۔ اس وقت تنظیم کی سرکاری زبانیں روسی اور چینی ہیں۔ اس تنظیم کا قیام اس طرح سے عمل میں لایا گیا ہے کہ اس تنظیم میں تمام رکن ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی یہ زبردست خاصیت ہے کہ وہ تمام رکن ممالک کے درمیان مساوات کو یقینی بناتی ہے یعنی کہ یہ تنظیم خطے میں کسی بڑی طاقت مثلاً چین یا روس کی آمریت نہیں چاہتی۔ امریکا نے بطور مبصر اس تنظیم میں شامل ہونے کی درخواست کی لیکن اس کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی ۔ اچھا ہی ہوا۔ چین روس سے زیادہ امریکا کی فطرت کو کون جانتا ہے۔

امریکا نے وہی سازشیں اور دہشت گردی کرنی تھی جو وہ اپنے قیام سے کرتا چلا آرہا ہے۔ شنگھائی تنظیم کے چارٹر میں اس کے اہداف کا ذکر کیا گیا ہے یعنی باہمی اعتماد کو مضبوط کرنا ، رکن ممالک کے درمیان دوستی پروان چڑھانا، اچھی ہمسائیگی یقینی بنانا اور مشترکہ طور پر خطے میں امن و سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنا۔ خطے میں دہشت گردی کی روک تھام امن و استحکام شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی مشن ہے۔ جب کہ امریکا یہی نہیں چاہتا۔ امریکا تو دنیا میں امن ہی نہیں چاہتا۔ امن اس کے مفاد میں نہیں۔ اس کے مفاد میں یہ ہے کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ چلتی رہے تا کہ اس کا اسلحہ بکتا رہے۔

یہ آرمڈ انڈسٹری ہے جس پر امریکی معیشت کا بہت بڑا انحصار ہے، آب دوزیں، میزائل، جنگی جہاز۔ امریکا ایک طویل مدت سے اس تنظیم کے رکن ممالک خاص طور پر پاکستان ، ایران، چین ، روس میں مسلسل عدم استحکام پیدا کرتا چلا آرہا ہے۔ تائیوان کے ذریعے چین کے خلاف سازشیں کرنا، یوکرین کو استعمال کرتے ہوئے روس کے حصے بخرے کرنا، روسی سالمیت کو اس حد تک خطرے میں ڈالنا کہ روس کے صدر پیوٹن کو حال ہی میں اپنی بقا کے لیے امریکا کو ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی دھمکی دینا پڑی۔

اب پاکستان ہی کو دیکھ لیں۔ دنیا کے نقشے پر اپنی اسٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی خاص طور پر پچھلے پچپن سالوں سے بدترین تباہی اور بربادی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ جس میں پاکستان ٹوٹنا بھی شامل ہے۔ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت امریکا نے پاکستان کو مسلسل عدم استحکام کا شکار رکھا۔ کبھی مارشل لاء، کبھی نیم مارشل لاء، کبھی کنٹرولڈ جمہوریت، جن بدترین حالات سے پاکستان آج کل گزر رہا ہے، ان سب کا کھرا واشنگٹن تک پہنچتا ہے۔

پاکستان کو توڑنے سے لے کر مشرق وسطیٰ میں اپنی من مرضی کی تبدیلیاں لانا خاص طور پر ایران میں رجیم چینج کر کے وہاں اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت لانا اس گریٹ گیم کا حصہ ہے جس کا ڈراپ سین اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں ہوا ہی چاہتا ہے۔ ایران میں تبدیلی لانے سے پاکستان میں من مرضی کی تبدیلیاں لانا انتہائی آسان ہو جائے گا۔ جس میں سر فہرست پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہو گا ۔ گریٹر پختونستان ، گریٹر بلوچستان، اسی کا حصہ ہے۔ امریکا نے ایسے ہی بغیر کسی خون خرابے کے خفیہ ڈیل کے ذریعے افغان طالبان کو تخت کابل پر قبضہ نہیں کروایا۔ یہ افغان اور پاکستانی طالبان ایک مدت سے کلمہ گو پاکستانی مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ غزہ اور لبنان میں ایک مدت سے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔

ان دہشت گردوں اور خوارج کے سرپرست سہولت کار ہمدردوں نے ایک بھی فتویٰ اسرائیل کے خلاف نہیں دیا بجائے اس کے افغان پاکستانی طالبان القاعدہ اور داعش فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف جہاد کرتے۔ وجہ افغان طالبان کی امریکا کے ساتھ خفیہ ڈیل ہے کہ انھوں نے دہشت گرد اسرائیل کے خلاف جہاد تو کیا کرنا، اس کے خلاف انھوں نے ایک بھی فتویٰ تک نہیں دیا۔ اب مسلمانوں کا ایک طبقہ یہ سوال اُٹھا رہا ہے کہ مسلم دنیا تو سُن پڑی ہوئی ہاتھ پر ہاتھ رکھے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھ رہی ہے تو ایران کو کیا پڑی ۔ ایک ایران ہی تو ہے جو پچھلے 45 برسوں سے فلسطینی مسلمانوں کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہا ہے۔ ایسی تباہی و بربادی اتنی طویل مدت برداشت کرنا، تاریخ میں ایسی مثال شاید ہی ہو۔

آج کے خوارج کی ظاہری وضع قطع پر نہ جائیں۔ ان کی ظاہری وضع قطع عبادات سے عام جمہور مسلمان دھوکا کھا جاتے ہیں۔ یہ آج سے 1400برس پہلے بھی بہت بڑا فتنہ تھے جنھوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا۔ آج بھی پاکستانی ریاست کے لیے اتنا بڑا فتنہ بن گئے ہیں کہ وہ ان دہشت گردوں کو خوارج قرار دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔ بھارت پاکستان کے تعلقات میں بہتری نومبر سے اگلے سال اپریل کے درمیان آنا شروع ہو جائے گی۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ 26 نومبر 2008کو ممبئی میں کیا ہوا تھا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں