صرف ایک گورنر اور وزیر اعلیٰ ہی کیوں
صرف ایک گورنر اور وزیر اعلیٰ ہی کیوں ؟
آزاد کشمیر کے علاوہ پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں پانچ گورنر اور پانچ وزرائے اعلیٰ اپنے صوبوں کے اہم ترین عہدوں پر تعینات ہیں ، سب ہی دعوے دار ہیں کہ وہ اپنے اپنے عوام کی دن رات خدمت کر رہے ہیں مگر حقیقی طور پر ان دس میں صرف دو ہی ہیں جو اپنے صوبوں میں کام کر رہے ہیں جو کام نظر بھی آتے ہیں اور دونوں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے اور عیاں ہے اور منفرد بات یہ ہے کہ یہ دونوں پہلی بار اہم عہدوں پر تعینات ہوئے مگر دونوں ہی کی کارکردگی اور عوامی خدمات دیگر آٹھ سے مختلف ہے اور یہ ہیں پنجاب کی بااختیار وزیر اعلیٰ مریم نواز اور سندھ کے بے اختیار گورنرکامران ٹیسوری اور دونوں ہی اپنے اپنے حاصل اختیارات کے تحت خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حکمرانوں کے برعکس باقی چار صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ میں چاروں وزرائے اعلیٰ آئین کے تحت وسیع مالی و انتظامی اختیارات رکھتے ہیں اور اٹھارہویں آئینی ترمیم سے ملنے والی صوبائی خود مختاری نے تو انھیں اتنا بااختیارکردیا ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں نہ صرف سیاہ و سفید کے مالک ہیں بلکہ تیسرا بڑا صوبہ کے پی جہاں پی ٹی آئی کی مسلسل تیسری حکومت ہے اس نے توکسی دشمن ملک کی شکل اختیار کر لی ہے اور وہاں سے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے پونے چار برسوں کے علاوہ وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی تینوں حکومتوں سے محاذ آرائی اختیار کر رکھی ہے اور وہاں کے 2 وزیر اعلیٰ اپنے سرکاری وسائل کے ساتھ وفاقی حکومت پر متعدد بار چڑھائی بلکہ لشکر کشی کر چکے ہیں۔
2013 میں وزیر اعظم نواز شریف نے کے پی میں پی ٹی آئی کے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے پی میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی اور مولانا فضل الرحمن نے نواز شریف کو کہا تھا کہ وہ جے یو آئی کے ساتھ مل کر وہاں پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقعہ نہ دیں، ہم وہاں مل کر مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں مگر نواز شریف نے انکار کر دیا اور وہ مولانا کی دانش نہ سمجھ سکے جس کی وہ سزا اب تک بھگت رہے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کا خیال تھا کہ عمران خان ان کے اس جذبے کی قدرکریں گے مگر احسان ماننا تو بانی پی ٹی آئی نے سیکھا ہی نہیں ہے انھوں نے کے پی میں جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپاؤ کی مدد سے کے پی میں حکومت بناتے ہی وفاق کو اس لیے آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں کیونکہ پی پی حکومت نے اپنے دور میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مکمل بااختیار بنا دیا تھا اور وہ وفاق کے کنٹرول میں نہیں رہے تھے اور صوبوں کی اسی خود مختاری کا نتیجہ ہے کہ گیارہ سالوں سے وفاق کمزور مالی طور پر صوبوں کا محتاج ہوچکا ہے اور کسی صوبے کو وفاق کی طرف سے گورنر راج کے نفاذ کا کوئی خطرہ نہیں رہا اور کے پی کے سابق وزیر اعلیٰ پرویزخٹک پھر بھی وفاق سے تعلقات بگاڑتے نہیں تھے مگر کے پی کے موجودہ وزیر اعلیٰ نے اپنے بانی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو اپنا دشمن سمجھ کر حال ہی میں وفاق پر لشکر کشی کردی اور انھوں نے کے پی کی سرکاری مشینری کے ساتھ اسلام آباد پر اس طرح چڑھائی کی جیسے کوئی ملک اپنے دشمن ملک پر ٹینکوں کے ساتھ چڑھائی کرتا ہے۔
کے پی میں پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت نے اپوزیشن کو کھڈے لائن لگا رکھا ہے اور وہاں وزیر اعلیٰ علی امین نے وفاق کے ساتھ ٹکراؤ کا ماحول بنا رکھا ہے۔ انھیں کے پی کے عوام کی فکرکرنا چاہیے اور صوبے کو درپیش مسائل کو حل کرنا چاہیے مگر انھوں نے 6 ماہ میں کوئی کارکردگی نہیں دکھائی وہ اپنے بانی کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
بلوچستان حکومت ہمیشہ مخلوط رہی ہے جہاں کرپشن، اقربا پروری، عہدوں کی بندربانٹ سالوں سے جاری ہے اور موجودہ حکومت بھی ماضی کی طرح کی طرف صرف بلند و بانگ دعوؤں پر یقین رکھتی ہے اور بلوچستان کی سیاست میں ڈاکٹر عبدالمالک اور جام کمال جیسے صوبے کے مخلص حکمرانوں کی ضرورت نہیں جن کے کام ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ دونوں کی حکومتوں میں کام بھی ہوئے اور دہشت گردی بھی کم تھی مگر وہاں آج بھی دہشت گردی عروج پر ہے۔
پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کو اپنے بڑوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملا اور ان کی کارکردگی ملک بھر میں سراہی جا رہی ہے اور انھوں نے پنجاب میں ترقیاتی پروگرام شروع کرا رکھے ہیں بلکہ پنجاب کے عوام کو مختلف پروگرامز کے ذریعے ریلیف دیا جا رہا ہے اور ماضی کے برعکس پنجاب کے عوام کے مجموعی مفاد کے منصوبوں پر عمل شروع کیا جاچکا ہے اور وزیر اعلیٰ صرف صوبے کے دور دراز علاقوں میں جا کر عوام سے مل رہی ہیں اور اپنی محنت سے پنجاب کو بدل رہی ہیں اور انھیں تجربہ کار والد کی مکمل سرپرستی بھی حاصل ہے۔
سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں 16 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی ہی کی وجہ سے شہباز شریف کی حکومت برقرار ہے، سندھ جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ سندھ میں ڈاکو راج قائم ہے مگر وہاں کی حکومت کی توجہ اس طرف کم ہے۔
سندھ کے عوام کی فکر گورنر کامران ٹیسوری کو بہت ہے جنھوں نے اپنے آئینی کردار میں رہتے ہوئے سندھ حکومت کو شکایات کا زیادہ موقعہ نہیں دیا کیونکہ انھوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے واقعی کھول رکھے ہیں، گورنر نے عوام کے لیے جو کچھ کیا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں اور گورنر عوامی گورنر بنے ہوئے ہیں مگر ان کے ہاتھ آئینی طور بندھے ہوئے ہیں۔ ملک میں ایک گورنر اور وزیر اعلیٰ کی کارکردگی ہی نظر آرہی ہے۔