26ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ ماہرین

آئینی عدالت کے قیام میں ناکامی کے بعد حکومت نے موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے نئی عدالت بنا ئی ہے

(فوٹو: فائل)

ماہرین قانون کی اکثریت کو یقین ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کا اختیار انتظامیہ کو دینا اور ہائی پروفائل کیسز میں آئینی بینچوں کی تشکیل عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ ہے۔

ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو میں سابق صدرسندھ ہائیکورٹ بار صلاح الدین احمد نے کہا کہ حکمران اتحاد پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو چیف جسٹسز کے انتخاب اختیار دینے سے سینئر ججوں میں حکومت سے وفاداری کے مظاہرے کی دوڑ شروع ہو جائیگی، سپریم کورٹ کا آئینی بینچ بنانے کا اختیار پارلیمانی و حکومتی نمائندوں پر مشتمل جوڈیشیل کمیشن کو دینا بھی ایک بگاڑ کے سوا کچھ نہیں۔


اگر کوئی شہری حکومتی اقدام یا پارلیمانی قانون کی غیر آئینی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے، اسے حکومت و پارلیمان کے منتخب ججوں کے سامنے استدعا کرنا ہو گی۔

سینئر وکیل عبدالعیز جعفری نے 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام میں ناکامی کے بعد حکومت نے موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے نئی عدالت بنا ئی ہے۔

موجودہ حکومت کے غیرقانونی ثابت ہونے سے خوفزدہ سیاستدانوں کا گروپ اعلیٰ عدالتوں کو تابع بنانا چاہتا ہے، انہوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے احترام کے بجائے آئین کی دھجیاں اڑائی جائیں۔ تاہم بعض وکلاء نے کہا کہ اگر سید منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو پھر آئینی ترامیم پر خاص تنقید نہیں ہو گی، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ آئینی ترامیم پر کیا ردعمل دیتی ہے۔
Load Next Story