سیاسی مخالفت میں انتہا کیوں؟

محمد سعید آرائیں  منگل 22 اکتوبر 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سیاست کے لیے اپنا ملک ہونا ضروری ہے اور ملکی سرزمین کے بغیر سیاست ہو سکتی ہے نہ ملک ہو سکتا ہے۔ ملک ہوگا تو وہاں سیاست صرف حصول اقتدار کے لیے کی جاتی ہے۔ سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے، اب یہ بات فرسودہ ہو چکی ہے ،کیونکہ سیاست ہوتی ہی صرف حصول اقتدار کے لیے ہے۔ سیاست اب عبادت تو ہے نہیں اور نہ ہی عوام کی خدمت کا ذریعہ ہے وہ زمانے گزر چکے جب اقتدار عوام کی خدمت کے لیے حاصل کیا جاتا تھا۔

سیاست کے ذریعے عوام کی خدمت کی متعدد مثالیں ہمارے دشمن ملک بھارت اور بعض دیگر ممالک میں تو موجود ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں موجود نہیں۔ انتخابی منشور اب فراڈ اور عوام کو دھوکا دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں جس کے ذریعے عوام کو سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں اور بے انتہا جھوٹ بولا جاتا ہے کیونکہ اب جھوٹ کے بغیر سیاست ممکن ہی نہیں اور ملک کے عوام بھی جھوٹے وعدوں کے بغیر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ سچ پر خاموش رہتے ہیں اور اپنے لیڈر کی طرف سے جھوٹے دعوؤں، وعدوں اور مخالفین کی تذلیل اور ان کا مذاق اڑانے پر خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے ہیں اور کسی بھی سیاسی پارٹی میں کوئی ایسا رہنما بھی نہیں ہوتا جو اپنی پارٹی کے رہنما کو قابل اعتراض باتوں سے روکے اور انھیں اچھے برے کی تمیز سکھائے۔ مخالفین کی تذلیل کو بعض سیاستدانوں نے انتہا پر پہنچا دیا اور انھوں نے ملک کی سیاست کو اس انتہا پر پہنچا دیا جہاں سیاست باہمی دشمنی کی شکل اختیار کر گئی۔

اس سلسلے میں بانی ایم کیو ایم کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کو ان کے چاہنے والے اپنے سیاسی یا روحانی باپ سے تشبیہ دیتے تھے اور پی ٹی آئی کی سیاست میں انتہا تک آپہنچی ہے ۔ سیاسی رہنما کو سیاسی باپ کا درجہ دینے والے بھی لوگ موجود ہیںچاہے ان کا لیڈر ان سے چند سال بڑا ہو مگر اب سیاسی انتہا یہ ہے کہ پچاس سال کی عمر کا شخص 72 سال کی عمر کے اپنے لیڈر کو اپنے حقیقی باپ کا درجہ دے دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کے مخالفین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی ایک خاتون رہنما کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے لیڈر کے اقتدار کے بغیر یہ ملک قبول نہیں۔ یہ خاتون تو کیا اس کا لیڈر بھی اقتدار سے محرومی کے بعد کہہ چکا ہے کہ مجھے ہٹانے سے بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم گرا دیا جاتا۔ اقتدار کے لیے ملک کی تباہی کے خواہش مند خود جب اس انتہا پر آ جائیں تو اس ملک کا مستقبل کیوں مخدوش نہیں نظر آئے گا، جب کہ ملک سب سے اہم ہے جس کی حفاظت کی ذمے داری کسی ایک کی نہیں بلکہ سب کی ہے۔

ملک کے بعض ناعاقبت اندیش اپنے ملک کے لیے منفی سوچ رکھتے ہیں جنھیں ملک سے زیادہ اقتدار عزیز ہے جن کے خیال میں اقتدار ان کی جاگیر ہے جو صرف ان ہی کا حق ہے ملک ان کے نزدیک اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا حالانکہ ملک میں دعوے محبت کے کیے جاتے ہیں مگر سیاسی باتیں ملک کے خلاف کی جاتی ہیں۔سیاسی قائد کے موقف سے اختلاف ہر ایک کا جمہوری حق ہونا چاہیے مگر ایسا ہے نہیں۔ وزیر اعظم بھٹو کے موقف سے اختلاف کرکے پی پی کے اہم رہنماؤں خورشید محمود قصوری کے والد ممتاز وکیل محمود علی قصوری، پی پی کے بانی رہنما رشید احمد شیخ، مختار رانا وغیرہ نے بھٹو کے اقتدار میں پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی۔ پی ٹی آئی کے قیام کے وقت چیئرمین سے توقعات رکھنے والے بعض بانی رہنما بھانپ گئے تھے کہ بلند و بانگ دعوے کرنے والا ملک سے مخلص نہیں، اقتدار کا خواہش مند ہے اس لیے وہ شروع ہی میں پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے جن میں کراچی کے معراج محمد خان نمایاں تھے۔

اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جب بانی تحریک انصاف نے ریاستی اداروں کے بارے میںجو مخالفانہ بیانات دیے اس پر پی ٹی آئی کے تمام رہنما خاموش تماشائی بنے رہے اور کسی ایک نے بھی اپنے رہنما کو ایسے بیانات سے کیوں نہیں روکا ۔ سیاست میں ذاتی اور سیاسی مفاد پرستی اب اس انتہا پر آ گئی ہے کہ ایسے لوگوں کو اب ملک نہیں، پارلیمنٹ کی رکنیت کا حصول عزیز ہے اور محض حکومتی مخالفت اور ملک کے لیے جانیں دینے والوں کا بھی احساس نہیں کہ جو ان کا رہنما اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آیا تھا آج اسٹیبلشمنٹ سے حمایت نہ ملنے پر اس پر تنقید کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی قیادت اور اس کے بعض رہنما ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے اس انتہا پر آگئے ہیں کہ اب ان میں ملک سے محبت رہی نہ انھیں ملک کے محافظوں کا خیال نہ مخلص ججز کا احترام۔ انھیں بس اقتدار چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔