اسرائیل نواز آکٹوپس کی گرفت ( قسط سوم )

سوال یہ ہے کہ امریکی آبادی کا محض پونے دو فیصد ہونے کے باوجود اسرائیل نواز امریکن لابی انتخابات کا رخ موڑنے کے قابل کیسے ہے؟ اس بارے میں کچھ اعترافات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ہر یہودی خاندان اپنے بچوں کو اعلیٰ جدید تعلیم دلانے والا سب سے نمایاں امریکی گروپ ہے اور یہ بات محض امریکی یہودیوں پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر لاگو ہوتی ہے۔اس گروہ میں غربت کی شرح سب سے کم ہے۔زیادہ تر خاندان متوسط یا بالائی متوسط معاشی زینے پر ہیں۔

آپس میں جتنے بھی سماجی ، نظریاتی یا فروعی اختلافات ہوں۔ایک روشن خیال اقلیت کو چھوڑ کے زیادہ تر یہودی خاندان اپنی روایات اور غیر یہودیوں سے روزمرہ برتاؤ میں قدامت پسند اقدار پر کاربند ہیں اور دائیں بازو کی سوچ رکھتے ہیں۔

مگر سب متفق علیہ ہیں کہ کل کلاں اسرائیل ایک ناکام ریاست ثابت ہوتی ہے تو اس کا مٹنا محض ایک عام سی ریاست کا مٹنا نہیں ہو گا۔اسرائیل پہلا اور آخری ٹھکانہ ہے۔اس کے خاتمے کا مطلب ہے کہ آلِ بنی اسرائیل ایک سو برس پہلے کی طرح اجتماعی عدم تحفظ میں مبتلا ہو جائے اور یہود دشمن عناصر دوبارہ شیر ہو جائیں۔لہٰذا اس مملکتِ خداداد کے وجود میں دراصل دنیا کے ہر یہودی خاندان کی بقا پنہاں ہے۔

اس وقت اسرائیل کا کوئی سچا دوست ہے تو وہ ہے امریکا اور امریکی فیصلہ سازی کے میکنزم کو ممکنہ حد تک اسرائیل نواز رکھنا بھی بقائی ضرورت ہے۔کیونکہ ریاستوں کا کیا بھروسہ۔ان کی دوستیاں اور دشمنیاں مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔کل کلاں اگر امریکا کا رویہ بدلتا ہے تو دیگر مغربی اتحادی بھی اسرائیل کی بابت آنکھیں بدلنے میں دیر تھوڑی لگائیں گے۔

یہ وہ خدشات ہیں جو محض اسرائیلی سماج کے نہیں بلکہ ہر یہودی کے شخصی ڈی این اے کا حصہ ہیں۔یہی احساسِ عدم تحفظ اس سفاک سوچ اور عمل کو جنم دیتا ہے کہ تمہارا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا دشمن محض تمہیں نیچا نہیں دکھانا چاہتا بلکہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ نوبت آنے سے پہلے ہی تم مدِ مقابل کو محض پٹخنے کے بجائے مٹی میں ملا دو۔غزہ میں اسرائیلی پالیسی اسی ذہن کی آئینہ دار ہے اور اسرائیل سے باہر کے یہودیوں کے لیے یہ کوئی غیر انسانی فعل نہیں بلکہ معمول کا بقائی اقدام ہے۔

امریکی انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ دینے یا نہ دینے کے بارے میں یہودی سب سے سنجیدہ اقلیت ہیں۔چورانوے فیصد یہودی آبادی تیرہ امریکی ریاستوں میں رہتی ہے۔ ان ریاستوں میں سے کم ازکم نصف کو کوئی بھی صدارتی امیدوار جیتے بغیر وائٹ ہاؤس میں داخل نہیں ہو سکتا۔

پھر ان تیرہ ریاستوں سے منتخب ہونے والے سینیٹرز اور ایوانِ نمایندگان کے ارکان بھی تو ہیں۔ان تیرہ ریاستوں کی اپنی اسمبلیوں اور گورنر کے انتخابات بھی تو ہیں۔ان ریاستوں کے بلدیاتی ادارے بھی تو ہیں۔ ان تیرہ ریاستوں میں اگر اسرائیل نواز ایوانجلیکل چرچ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ووٹرز کو بھی یہودی ووٹروں کے ساتھ گن لیا جائے تو ان کی حمائیت کے بغیر کون مائی کا لال کسی بھی عہدے پر منتخب ہو سکتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نواز لابی وائٹ ہاؤس اور کانگریس سے بڑی ویٹو پاور ہے۔

امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی ( ایپک ) نے ارکانِ کانگریس کو مٹھی میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی نکالا کہ انیس سو نوے میں ایک ذیلی ادارہ امریکن اسرائیل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے نام سے قائم کیا۔ فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات سے کانگریس کے ارکان کو اسرائیل کے مطالعاتی دورے کروائے جاتے ہیں۔ہر نئی کانگریس کے سو سے ڈیڑھ سو ارکان کو واشنگٹن کی پرشور جوڑ توڑ والی زندگی سے دور اسرائیل میں چند دن گزارنے کا موقع ملتا ہے۔

انھیں اسرائیل کی ترقی ، فوجی کارناموں ، دو طرفہ تعاون ، اسرائیل کے جمہوری ڈھانچے اور عرب اسرائیل تعلقات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جاتی ہے۔سابق جنرلوں ، سیاست دانوں ، ارکانِ پارلیمان ، سرکردہ شہریوں ، دانشوروں ، مثبت سوچ والے صحافیوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔مہمانوں کو مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کا دورہ کروایا جاتا ہے۔مگر مقبوضہ علاقے کے نمایندہ فلسطینیوں سے براہ راست ملوانے سے گریز کیا جاتا ہے۔

زیادہ سے زیادہ فلسطینی اتھارٹی کی چنندہ قیادت سے ملاقات کروا دی جاتی ہے۔جو ان مہمانوں کو وہی روائیتی بریفنگ دیتی ہے جس سے مہمان پہلے سے واقف ہیں۔ایسی ملاقاتوں میں کوئی متنازعہ موضوع چھیڑنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مبادا جس کے نتائج بعد میں مزید اسرائیلی دباؤ اور کارروائیوں کی صورت میں بھگتنے پڑیں۔ایسے دوروں کے بعد کانگریسی مہمان عموماً پہلے سے زیادہ اسرائیل نواز بن کے امریکا واپس لوٹتے ہیں۔

ان دوروں کا انتظام صرف ایپک کی ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ہی نہیں کرتی بلکہ یو ایس اسرائیل ایجوکیشن ایسوسی ایشن ، جے اسٹریٹ ایجوکیشن فنڈ اور کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل ایوانجلیکل تنظیم بھی کرتی ہے۔کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل واحد غیر ریاست ہے جس کا یروشلم میں سفارتی دفتر بھی ہے۔

گزشتہ برس امریکی ارکانِ کانگریس کے ایک سو ساٹھ دورے ہوئے اور اس برس کے پہلے چار ماہ میں چونتیس مطالعاتی دوروں کا انتظام کیا گیا۔ان میں اٹھارہ ریپبلیکن اور سولہ ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس شامل تھے۔سب پر کل ملا کے پانچ ملین ڈالر سے زائد صرف ہونے کا تخمینہ ہے۔مگر اس کا فائدہ کانگریس میں اسرائیل کی اربوں ڈالر امداد کے مطالبات کی بلا چون و چرا منظوری کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔

خارجہ پالیسی کنٹرول کرنے کا ایک بڑا ذریعہ امریکی تھنک ٹینک ہیں۔ان میں کام کرنے والے محققین اور عہدیداروں میں وہ بھی شامل ہیں جو اکیڈیمیا سے پالیسی ساز اداروں میں اور وہاں سے اکیڈیمیا میں آتے جاتے رہتے ہیں۔جو معروف اسرائیل نواز تھنک ٹینک مشرقِ وسطی سے متعلق پالیسی وضع کرنے میں محکمہ خارجہ اور ارکانِ کانگریس کو مواد ، بریفنگ اور سمت فراہم کرتے ہیں ان میں سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے درجِ زیل ہیں۔

امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ فار پبلک پالیسی ریسرچ ، سینٹر فار سیکیورٹی پالیسی ، فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، دی ہیرٹیج فاؤنڈیشن ، ہڈسن انسٹی ٹیوٹ ، دی واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیر ایسٹ پالیسی ، جیوش انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی افیرز ( جنسا )۔

جنسا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سابق نائب صدر ڈک چینی ، سابق نائب وزیرِ خارجہ جان بولٹن ، رچرڈ آرمٹیج ، ایلیٹ ابراہام ، ڈگلس فیتھ ، سابق نائب وزیرِ دفاع اور عالمی بینک کے سابق صدر پال وولفووٹز ، افغان امور کے نگراں اور عراق میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد شامل رہے ہیں۔یہ سب کے سب انیس سو اکیانوے کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے داعی ہونے کے علاوہ بش اور ٹرمپ انتظامیہ کے اہم پالیسی فیصلوں کے محرک رہے۔

ایک اور سرکردہ تھنک ٹینک بروکنگ انسٹی ٹیوٹ ہے۔اس انسٹی ٹیوٹ میں دو ہزار دو میں اسرائیلی امریکن میڈیا ٹائکون حائم سبان کے تیرہ ملین ڈالر کے چندے سے سابان سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی قائم کیا گیا۔نیویارک ٹائمز کے مطابق حائم سبان ایک انتھک اسرائیلی مداح ہے۔سابان سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ڈائریکٹر امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسرائیل میں امریکا کے سابق سفیر مارٹن انڈک ہیں۔ان صاحب کے بارے میں گزشتہ کسی مضمون میں تفصیلاً بتایا جا چکا ہے۔        (جاری ہے)۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)