اردو اور نفاذ اردو
’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ’’سے لے کر‘‘ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘
''اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ''سے لے کر'' اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے'' تک اردو کی اس کہانی نے اتنے موڑ کاٹے ہیں کہ اب نہ صرف گزشتہ پڑائو آپس میں گڈمڈ ہونے لگے ہیں بلکہ منزل کی سمت بھی دھند اور دھوئیں سے بھر گئی ہے۔ بلا شبہ تحریک پاکستان کے دوران اردو کو پاکستانیوں کی مشترکہ اور قومی زبان قرار دیا گیا تھا کہ یہ اس وقت موجود ترجیحات میں ہر لحاظ سے موزوں ترین تھی کیونکہ مختلف مادری زبانیں رکھنے والے پاکستانی اس زبان کے ذریعے سے نہ صرف آپس میں بات چیت کر سکتے تھے بلکہ اس میں ان کا تاریخی، دینی، سماجی اور تہذیبی سرمایہ بھی محفوظ تھا۔
حیرت اور لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اردو میں انگریزی اور کچھ دیگر زبانوں کے الفاظ جس تیزی اور تناسب سے داخل ہوئے ہیں وہ انگریز کی باقاعدہ حکومت کے زمانے سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ تو یہ تھی وہ صورتحال جس میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور اردو ہمارے آپس کے رابطے کی وہ قومی زبان ٹھہری جسے آگے چل کر دیگر پاکستانی زبانوں سے مل کر نصابی، ادبی اور سرکاری خط و کتابت کی زبان بننا تھا کہ مقامی تہذیبی اور لسانی عناصر کو ساتھ لے کر چلنا ہی اس زبان کی پہچان اور اصل طاقت ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام تر مطلوبہ صلاحیت رکھنے کے باوجود آج تک عملی طور پر اردو کا نفاذ کیوں کر ممکن نہیں ہو سکا۔ میرے نزدیک اس کی اصل حقیقی اور عملی وجوہات کچھ اس طرح سے ہیں۔(1 اگرچہ قائد اعظمؒ نے بہت جلد اس بات کا احساس کر لیا تھا کہ انھوں نے 52% بنگالیوں کی ایک ترقی یافتہ زبان کے ہوتے ہوئے صرف اردو کو واحد قومی زبان قرار دینے کا فیصلہ صحیح نہیں کیا اور انھوں نے اپنے اس فیصلے پر ایک بڑے قومی رہنما کی طرح نظر ثانی بھی کی لیکن اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
کشمیر کی جنگ، فسادات، صحت کی خرابی اور دیگر مسائل کی وجہ سے انھیں اس معاملے کو درست کرنے کا وقت نہیں مل سکا اور بعد میں آنے والوں میں ان جیسی بصیرت اور ہمت نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ ایک تنازعہ بنتا چلا گیا اور پاکستان کے دشمنوں کی سازش، امداد اور ہلا شیری کے باعث صورتحال سنبھلنے کے بجائے بگڑتی چلی گئی جس کا افسوسناک نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں سامنے آیا۔ اگر ابتدا میں ہی اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی پاکستان کی قومی زبان قرا ردے دیا جاتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی (دنیا کے بہت سے ممالک میں ایک سے زیادہ قومی زبانوں کی روایت موجود ہے۔ کینیڈا کا صوبہ کیوبک اس کی ایک زندہ مثال ہے جس میں انگریزی اور فرانسیسی دونوں کو قومی اور سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے)
(2 جیسا کہ میں نے عرض کیا اردو کا اصل حسن ہی یہ ہے کہ وہ ہر علاقے میں بولی جانے والی مقامی زبانوں کو بڑی عزت اور محبت سے اپنے دامن ہی سمیٹ لیتی ہے اور ان کی اصوات، لہجوں، انفرادیت اور تہذیبی اور تاریخی رچائو کو پنپنے کے لیے جگہ یعنی Space فراہم کرتی ہے جس کے باعث متعلقہ علاقوں کے لوگ اس کو OWN کرنے، بولنے اور لکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے آپ اور اپنی زبان کو اردو کے تشکیلی نظام کے کا حصہ محسوس کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد ہم نے اس اصول پر عمل نہیں کیا اور کچھ انتہا پسند اردو پرستوں نے تو ان پاکستانی زبانوں کو ''شودر'' کا درجہ دیکر نہ صرف ایک طرف کر دیا بلکہ تمام تر لسانی ترقی کے اصولوں کے خلاف اس کے روزمرہ کو پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور دیگر پاکستانی علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں سے رشتہ آرا کرنے کے کے بجائے دلی اور لکھنؤ کے اس محاورے اور روزمرہ کا پابند کرنا چاہا جو اب وہاں بھی موجود نہیں ہے (اس میں شک نہیں کہ اردو کے علاوہ دیگر علاقائی اور پاکستانی زبانوں کے بولنے والوں میں سے بھی کچھ گروہوں نے شدت پسندی کا رویہ اختیار کیا جس سے معاملات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا) سو فی الوقت اردو کے نفاذ کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز آپس میں اتحاد، اعتماد اور انصاف پیدا کرنا ہے کیونکہ جب تک تمام Stake Holders مل جل کر اس نفاذ کے لیے، جدوجہد نہیں کریں گے دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی اور دشمن اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
(3 اردو کے نفاذ میں تیسری بڑی رکاوٹ ہمارا حاکم طبقہ اور ان کا تشکیل کردہ تعلیمی نظام ہے جس میں انگریزی کو ایک زبان کے بجائے ابتدا ہی سے بطور ذریعہ تعلیم استعمال کرنے کا انتہائی غیر عقلی ناجائز اور انتشار انگیز طریقہ اختیار کیا گیا ہے یہ تمام لوگ جن کے پاس قوت نافذہ ہے بیورو کریسی کے تعاون سے اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں جب کہ بیورو کریسی کے ایک طاقت ور گروہ کے نزدیک انگریزی زبان پر ان کی دسترس ہی وہ واحد صلاحیت ہے جو انھیں عام لوگوں سے مُمیّز کرتی ہے۔ سو وہ اپنی اس اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے ہردم طرح طرح کی تاویلیں گھڑتے رہتے ہیں۔
ایسی محفلوں میں جہاں کوئی بھی غیر ملکی نہیں ہوتا اسٹیج سے انگریزی میں بات کی جاتی ہے، بڑے بڑے انگلش میڈیم اسکولوں میں بچوں کو انگریزی کے علاوہ کوئی زبان بولنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے جب کہ بیشتر والدین اسکول والوں کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے اردو کا نفاذ کیسے ہو سکتا ہے؟ آج کل نفاذ اردو کی تحریک کے حوالے سے ایک گروپ SMS کی وساطت سے بہت سرگرم ہے اور اس کی طرف سے انتہائی جذباتی نوعیت کے پیغامات بھی ملتے رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا لہجہ اور تجزیہ بھی عملی کے بجائے سراسر جذباتی ہے۔
ماروی میمن نے اگر کوئی بل پیش کیا ہے تو اس پر انھیں گالیاں دینے اور بل کے کسی سطح پر مسترد ہونے پر بغلیں بجانے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو تحمل، انصاف اور سمجھ داری سے دیکھا اور حل کیا جائے اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ گزشتہ تاریخی اور تعصبی غلطیوں سے اجتناب کے ساتھ اردو کو ایک ایسی سچ مچ کی قومی زبان بنا کر پیش کیا جائے جس میں پاکستان کے تمام باشندے اپنے آپکو ایک مشترکہ Stake Holder کی صورت میں ڈھال سکیں اور اس کے خمیر میں ان کی مادری زبانوں کو ان کا جائز اور منصفانہ حصہ دیا جائے بلکہ انگریزی زبان کے (جائز اور ضروری استعمال سے قطع نظر) ناجائز دبائو کو ہر سطح پر ختم کیا جائے کہ اس کے بغیر اردو کا نفاذ تو بہت دور کی بات ہے شاید اگلے پندرہ بیس برس میں اس کا اسکرپٹ بھی آثار قدیمہ میں شامل ہو جائے۔