بوسکی سے بنیان تک
وہ ایک سرکاری ادارے میں ملازم تھا اور کوشش میں تھا کہ اس کی ڈیوٹی رات کے اوقات میں ہوجائے۔ ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ مان گیا
ISLAMABAD:
مظہر اور زاہد سے لا کالج کے زمانے سے دوستی ہے۔ مظہر ایک انتہائی دولت مند خاندان کا فرد تو زاہد کا تعلق نہایت غریب گھرانے سے تھا۔ کلاس کے اس فرق نے قانون کی کلاس کے تین طالب علموں میں فرق پیدا نہ کیا۔ زاہد ہمیں اپنے گھر لے جانے سے ہچکچاتا لیکن مظہر کی ضد اور پھر اس کی اعلیٰ ظرفی زاہد کو میزبانی پر مجبور کردیتی۔ ایل ایل بی کے بعد وکالت میں آنے پر زاہد کے لیے مشکلات تھیں۔ وہ ایک سرکاری ادارے میں ملازم تھا اور کوشش میں تھا کہ اس کی ڈیوٹی رات کے اوقات میں ہوجائے۔ ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ مان گیا۔
سال بھر کے بعد زاہد نے وکالت کا لائسنس حاصل کرلیا۔ اب دوسرا مرحلہ کسی اچھی لا فرم میں ملازمت تھی جو تنخواہ بھی دے۔ یہ دوسرا مرحلہ بھی ایک مہربان وکیل کی معرفت طے ہوگیا۔ زاہد کے لیے اگلا امتحان سرکاری ملازمت چھوڑنے کا تھا۔ یہ کام اس وقت ہوسکتا تھا جب لا فرم زاہد کو سرکار جتنی تنخواہ دینے پر آمادہ ہوتی۔ ایک آدھ سال میں یہ کام بھی ہوگیا۔ اس دن وہ بہت خوش تھا۔ اس نے یہ مشکل مرحلے طے کرلیے تھے۔ زاہد کے باس مہربان اور شفیق تھے۔ غریب گھرانے کا زاہد ترقی کرتا رہا۔ وہی رقم مظہر کے لیے کچھ نہ تھی اور میرے لیے تھوڑی بہت اہم۔ چھوٹے موٹے کام کرنے والے زاہد کے تین بھائی مل کر بھی زاہد جتنا نہ کما پاتے۔
یوں ہم مذاق میں کہتے کہ وہ تو اپنے خاندان کا چوہدری بن گیا ہے۔ دس برسوں میں زاہد نے مزید ترقی کرلی۔ وہ اپنے تمام رشتے داروں میں سب سے آگے تھا۔ وہ اپنے بھائی، بہنوں کا خیال رکھتا۔ عید پر بھائیوں کے بچوں کے وہی کپڑے جو اپنے بچوں کے لیے لیتا۔ کبھی بے روزگار بھائی کی مدد کرتا تو اکثر والدین کو لیے اسپتال جاتا۔ معیار زندگی نہ مظہر کی طرح تھا اور نہ متوسط گھرانوں کا سا۔ تمام ضرورتیں پوری کرنے کے باوجود زاہد اپنا ذاتی گھر خریدنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ زیادہ تر ہائی کورٹ میں ہی ہوتا جب کہ مجھے سٹی کورٹ، بینکنگ کورٹ اور عدالت عالیہ میں مقدمات چلانے ہوتے۔
ہفتے میں ایک دو مرتبہ ہی زاہد سے ملاقات ہوتی اور تفصیلی ملاقات تو مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ہی۔ پتا چلا کہ اس کے بہنوئی کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ بیوہ بہن اور اس کے بچوں کی بھی دیکھ بھال کرتا۔ ایک دن اس نے بتایا کہ اس کا ایک بھائی بھی اب ترقی کر رہا ہے۔ یہ خوشی کی بات تھی لیکن زاہد اتنا زیادہ خوش نہ تھا۔ چند ماہ بعد ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ کمانے والا بھائی نہ دوسرے رشتے داروں کی خبر گیری کر رہا ہے اور نہ بیوہ بہن کو کچھ دے رہا ہے۔ ایک دن زاہد کی بات نے دھماکا کردیا۔ اس نے کہا میں نے اپنے بھائی سے کہہ دیا ہے کہ ''اگر تم خاندان کی کفالت میں میرا ہاتھ نہیں بٹاؤگے تو میں بھی پیچھے ہٹ جاؤں گا۔ ''
یہ بڑی خطرناک بات تھی۔ زاہد سے کہا کہ ابھی تو عدالت میں مقدمے ہیں، ہم فارغ ہوکر دو بجے تک بار روم میں ملتے ہیں۔ زاہد کو اتنا پریشان کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ پہلے سے زیادہ کما رہا تھا اور ایک بھائی کی مدد کرنے سے بھی آزاد ہوچکا تھا۔ وہ اپنے بھائی کی خودغرضی پر حیران تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بھائی کو میں نے اپنے بچوں سے بہتر اسکول میں داخل کروایا اور اپنے بچوں سے زیادہ قیمتی موبائل فون اس کے بچوں کو دلائے۔ زاہد اپنے بھائی کی طوطا چشمی پر اداس تھا۔ اس سے کہا کہ تم اپنا فرض ادا کرو۔ زاہد کسی بات پر آمادہ نہیں تھا۔ اس وقت بات کرنا بے کار تھا۔ اس سے ایک دو دن بعد ملاقات کرنے کا کہہ کر ہم الگ ہوگئے۔
''ایکسپریس'' کئی وکلا پڑھتے ہیں اور کالم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں لیکن زاہد نہیں۔ اسے ''کمال و زوال'' اور ایسا ایک آدھ کالم دیا کہ پڑھ لو، ہم ایک گھنٹے بعد کیفے ٹیریا میں ملتے ہیں۔ زاہد سے پوچھا کہ تم جب شہر سے باہر جاتے تو بیگم کے علاوہ کسی بچے کو نگران بناکر جاتے ہو۔ اس نے ایک بیٹے کا نام لیا۔ وہ کیوں؟ اس لیے کہ وہ بھائی بہنوں کا خیال رکھتا ہے۔ اس سے کہا کہ جس طرح تم ہیڈ آف فیملی ہو اس طرح تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ وہ ایک خاندان کے چار پانچ بھائی بہنوں میں سے ایک کو نوازتا ہے۔ جب تک خوشحال ہوتا شخص چالیس پچاس لوگوں کا خیال رکھتا ہے رب اسے نوازتا رہتا ہے۔
ایسے میں اسے کبھی پھوپھی کے لیے ڈاکٹر سے وقت لینا ہوتا ہے تو کبھی بھتیجے کو کالج میں داخل کروانے کے لیے بھاگنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اسے اپنے بھائی کے لیے نوکری ڈھونڈ کر دینی ہوتی ہے تو کبھی بہنوئی کے کاروبار کے لیے رقم کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ زاہد نے کہا کہ ''کتنے سال ہوگئے یار میں نے کیا سب کا ٹھیکا لے رکھا ہے؟ چلو پہلے میں اکیلا کر رہا تھا اور اب بھی سب کی مدد کرتا۔ اب میرے بھائی کو دیکھو۔ وہ اب تقریباً میرے جتنا کما رہا ہے۔ بچے اس کے کم بھی ہیں اور چھوٹے بھی۔ وہ کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔''
''دیکھو زاہد تم یہ نہ دیکھو کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ تم اپنا فرض ادا کرو۔ تم پر اللہ کی کتنی کرم نوازیاں ہیں۔''زاہد کا گلہ تھا کہ سب کچھ کرنے کے باوجود نہ لوگوں کی فرمائشیں ختم ہوتی ہیں اور نہ شکوے۔ یار زاہد! خدا نے تمہیں سخی بنایا ہے، دینے والا بنایا ہے، بندہ نواز بنایا ہے۔ سب لوگ تمہاری دل سے عزت کرتے ہیں۔ ممکن ہے رشتے داری میں وہ ظاہر نہ کرتے ہوں۔ اس طرح ہماری گفتگو ختم ہوگئی۔
مئی کے آخر میں زاہد کی کمپنی کے ایک وکیل کو سٹی کورٹ میں دیکھا۔ ان سے کہا کہ بھئی آپ چھوٹی عدالت میں کہاں؟ کہنے لگا مجھے کمپنی نے نکال دیا ہے۔ باس کے انتقال کے بعد خطرہ تو تھا۔ زاہد کے بارے میں پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ جون جولائی میں سندھ ہائی کورٹ کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ زاہد سے ملاقات نہیں ہو رہی کہ گھر اس نے بدل لیا ہے اور موبائل فون وہ رکھتا نہیں۔ گھبرائے دوست کو معلوم نہیں کہ وہ کمپنی میں برقرار ہے یا نہیں۔
لاکھوں کی تنخواہ پاکستان میں ہو یا ملٹی نیشنل کمپنی کے ڈائریکٹر کا سالانہ کا کروڑوں کا پیکیج ہو یا فٹ بال کلب کھلاڑی کو سالانہ اربوں دیتا ہو، نکال دیا جائے تو وقت کے اس لمحے میں اس شخص کے پاؤں سے زمین نکل جاتی ہے۔ اس کا اسٹیٹس جاب لیس کا ہوجاتا ہے۔ ایک مہینے، ایک ہفتے، ایک دن یا ایک گھنٹے کے لیے ہی سہی۔ مہارت، ذہانت اور شہرت سے کامیاب ہوا جاسکتا ہے جب کہ پیسہ کمانا مختلف بات ہے۔ مہدی حسن، حنیف محمد اور حبیب جالب سے بڑھ کر کس میں یہ خوبیاں تھیں؟
گلوکاری، بلے بازی اور شاعری میں کون ان سے بڑھ کر تھا؟ اپنے علاج کے لیے سرکاری امداد کے منتظر اپنے وقت کے یہ لیجنڈ ایک طرف اور اسپتال بنانے والے ابرار الحق اور شاہد آفریدی ایک طرف۔ اصل چیز وقت ہوتا ہے۔ آپ نے وقت کے کس لمحے میں جنم لیا اور کس شعبے میں قدم رکھا اور پھر قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہوئی یا نہیں؟ گروپ آف کمپنیز کے علاوہ دیوالیہ، قلاش اور Bankrupt کے الفاظ کامرس کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اپنے آپ کو طرم خان سمجھنے اور رشتے داروں سے منہ موڑنے والوں کے لباس کو ظالم وقت انتہائی بے رحمی سے بدل کر رکھ دیتا ہے۔ انھیں اکثر لے آتا ہے بوسکی سے بنیان تک۔