اے فلسطین اے فلسطین
غزہ میں جو ہو رہا ہے ’’ظلم کی ہوگئی ہے حد یا رب‘‘ نہتے شہریوں پر امریکا کا بغل بچہ بم برسا رہا ہے
SWAT:
غزہ میں جو ہو رہا ہے ''ظلم کی ہوگئی ہے حد یا رب'' نہتے شہریوں پر امریکا کا بغل بچہ بم برسا رہا ہے، آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں، پھر قیامت کا منظر، بچوں، بوڑھوں، جوان مرد عورتوں کی لاشیں۔ دس روز ہوگئے بم برس رہے ہیں، اب تو زمینی فوج بھی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے ساتھ غزہ میں داخل ہوگئی ہے۔ آسمان سے بھی موت برس رہی ہے اور زمین بھی موت اگل رہی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں انسان بستے ہیں، اسرائیل کی وحشیانہ بمباری پر احتجاج کر رہے ہیں، باقی درندہ صفت انسان خاموشی، بے حسی کی چادر تانے سو رہے ہیں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
چلو یوں ہی ہوجاتا۔ مگر اقبال کا خواب اب تک خواب ہی ہے۔ حبیب جالب کیا کہہ رہا ہے ذرا سنیے!
جاگ ضمیر عالم جاگ
گلی گلی ہے ماتم جاگ
راکھ ہوئے شعلوں میں جل کے بچے اور مائیں
اس سے پہلے کہ سورج چاند کے دیپک بجھ جائیں
کر ظالم کا سر خم خاک
روز تباہی کی خبروں پر بھرتا ہو آہیں
روز نگاہوں میں پھرتی ہیں وہ جلتی راہیں
دیکھ مری چشم نم جاگ
جاگ ضمیر عالم جاگ
عرب اور امارات کے شہزادے، شہزادیاں، ملکائیں، جوئے میں ہزاروں لاکھوں ڈالر ہار رہے ہیں، ذاتی ہوائی جہازوں میں عرب اپنی بیویوں کی فوج لیے امریکا، برطانیہ میں شاپنگ کرنے آتے ہیں، ان کے لیے شاپنگ مالز میں خصوصی انتظام کیا جاتا ہے، جہاں ان کی بیگمات کروڑوں کی شاپنگ کرتی ہیں، مسلم ممالک کی تنظیم OIC بقول ایک نوجوان کے "O I See" بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے سونے کے پہاڑ اور پٹرول کس کام کے جہاں قبلہ اول کی بنیادیں کھود دی گئی ہوں۔ اب تو اللہ ہی کچھ کرے تو کرے، جالب حمد سرا ہے:
اپنے بندوں کی کر مدد یا رب
ظلم کی ہو گئی حد یا رب
توڑ دے سامراج کا یہ غرور
کر اس آئی بلا کو رد یا رب
ادھر ہمارے ملک میں جو ہو رہا ہے ، وہ بھی بہت بڑے المیے سے کم نہیں۔ ایک طرف ہماری فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ ہماری فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ شہریوں نے دہشت گردوں کے خلاف فوج کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا گھر بار، کاروبار چھوڑ کر علاقہ خالی کردیا ہے۔ یہ دس لاکھ سے زیادہ پاکستانی بنوں کے کیمپوں میں تکلیف دہ حالات میں رہ رہے ہیں۔ رمضان شریف کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادت کا خاص مہینہ ہوتا ہے جسے اپنے گھروں میں خصوصی اہتمام کے ساتھ گزارا جاتا ہے، مگر دس لاکھ مرد و زن کیمپوں میں پڑے ہیں۔ یہ لوگ پوری قوم کے محسن ہیں، پوری قوم ان کی عظیم قربانی پر دل و جان سے ان کی ممنون ہے۔
ایسے میں سیاسی لیڈران کو بھی ذرا سوچنا چاہیے اور کم ازکم فوجی آپریشن کے خاتمے اور دس لاکھ افراد کی اپنے گھروں کو واپسی تک اپنے جلسے جلوس کے پروگرام ملتوی کردینے چاہئیں۔ان کی کڑی آزمائش کی گھڑیوں میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے سربراہوں سمیت بنوں کے مہاجر کیمپوں میں ڈیرے جما لینے چاہئیں۔ نواز شریف سے لے کر طاہر القادری تک سب بنوں کے کیمپوں میں دس لاکھ افراد کے ساتھ دن رات وہیں رہیں۔ انقلاب کی بنیاد بنوں کے کیمپوں میں رکھو۔ تب تو پتا چلے کہ واقعی انقلاب آگیا۔
ادھر غزہ میں قیامت برپا ہے، ادھر پاکستان میں حشر برپا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم پوری قوم اپنے فوجی بھائیوں کو حوصلہ دیں، مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کریں دس لاکھ بے گھر افراد کا بھرپور ساتھ دیں، یہ دس لاکھ بے گھر افراد سکون میں رہے! تو فوج بھی مضبوط دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکے گی۔ ہر مشکل گھڑی میں عوام نے آگے بڑھ کر ملک کا ساتھ دیا ہے اس بار بھی عید کی خریداری کم کرکے اپنے بے گھر بھائیوں بہنوں، بچوں، بزرگوں کو یاد رکھا جائے گا۔
غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے، فلسطین کے باشندے برسوں سے وطن کی آزادی کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ آفرین ہے کہ نہتے نوجوان اور بچے اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر پھینکتے ہیں اور جواب میں گولیاں کھاتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی جنگ ایک بہت بڑی تاریخ رکھتی ہے۔ شہدائے تحریک اور حریت پسندوں کی عظیم قربانیوں کی لازوال داستانیں لوح جہاں پر رقم ہیں۔ عرصہ ہوا اسی پس منظر میں ایک فلم ''زرقا'' بنی تھی۔ ریاض شاہد نے یہ فلم بنائی تھی وہی اس کے ہدایتکار تھے۔ انھوں نے ہی اس فلم کی کہانی اور مکالمے لکھے تھے۔ اس فلم کے گیت حبیب جالب نے لکھے تھے اور موسیقار تھے رشید عطرے۔ زرقا کا مرکزی کردار اداکارہ نیلو نے ادا کیا تھا۔ اس فلم کا کلائمیکس اور فلم کا اختتام جس گیت پر ہوا وہ گیت نذرقارئین ہے:
''ہمیں یقین ہے' ڈھلے گی اک دن ... ستم کی یہ شام اے فلسطیں... ہر ایک مظلوم سن چکا ہے... ہمارا پیغام اے فلسطیں... ستم گروں کا نشاں نہ ہوگا... ہمارا خوں رائیگاں نہ ہوگا... شہید ہوکر بھی اپنے لب پر... ہے تیرا ہی نام اے فلسطیں... وطن سے جب تک مٹا نہ لیں گے... نشان ہم سامراجیوں کا... قسم محمدؐ کی عظمتوں کی... نہ لیں گے آرام اے فلسطیں... اے فلسطیں''