دانشمندانہ فیصلہ

آئندہ ماہ 14 اگست کو قیام پاکستان کو 67 سال مکمل ہورہے ہیں مگر 14 اگست کو اسلام آباد میں جو حالات پیدا ہونے جارہے ہیں


Muhammad Saeed Arain July 21, 2014

آئندہ ماہ 14 اگست کو قیام پاکستان کو 67 سال مکمل ہورہے ہیں مگر 14 اگست کو اسلام آباد میں جو حالات پیدا ہونے جارہے ہیں اس سے ہر محب وطن فکر مند اور پریشان ہے۔کیا یوم آزادی کوکچھ ہونے والا ہے؟ اس قومی دن کا نشانہ اسلام آباد ہے جہاں تحریک انصاف نے آزادی مارچ کا اعلان ڈی چوک پر کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں وفاقی حکومت نے 14 اگست کو ڈی چوک پر جشن آزادی کی سرکاری تقریب منعقد کرنے کا اعلان کردیا۔

ایک لحاظ سے حکومت نے یہ پروگرام کرکے تحریک انصاف کے آزادی مارچ کا توڑ کرنے کی کوشش کی اور تحریک انصاف کے نزدیک حکومت نے آزادی مارچ کو ناکام بنانے کی سازش تیار کی ہے، کیوں کہ پی ٹی آئی نے رمضان سے قبل ہی اپنے اس پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں اسی مقام اور دن پر حکومت نے فوجی پریڈ اور تقریب کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان نے وطن واپسی پر واضح کردیا ہے کہ آزادی مارچ ہر حال میں ہوگا اور پی ٹی آئی کے لاکھوں کارکن 14 اگست کو اسلام آباد میں جمع ہوں گے۔

14اگست ہماری آزادی اور قیام پاکستان کا تاریخی دن ہے، جنرل ضیاء الحق کے دور سے قبل ملک میں یوم آزادی محدود پیمانے پر منایا جاتا تھا۔ ملک بھر میں سرکاری تعطیل ہوتی تھی، سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے اور سرکاری خرچ سے چراغاں ہوتا تھا۔ تعلیمی ادارے اپنے یہاں یوم آزادی پر تقریری اور کھیلوں کے مقابلے کرادیتے تھے اور مجموعی طور پر ہر قومی دن معذرت خواہانہ طور پر سرکاری طور پر منایا جاتا تھا، جس میں عوام کی کوئی شرکت نہیں ہوتی تھی۔

س روز حکمرانوں کے روایتی بیانات قوم پڑھ اور سن لیتی تھی، فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے شاید اس بات کو محسوس کرلیا ہوگا اس لیے انھوں نے اپنے دور میں یوم آزادی دھوم دھام سے منانے کا اعلان کیا اور یہ دن جشن آزادی کے طور پر سرکاری اور عوامی سطح پر جوش و خروش سے منایا جانے لگا۔ جشن آزادی پر عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ بھی جشن آزادی میں بھرپور حصہ لیں۔ اپنے گھروں، دکانوں، گاڑیوں پر قومی پرچم لہرائیں۔ انھیں جھنڈیوں سے سجائیں، چراغاں کریں، یوم آزادی کی تقریبات منعقد کرکے اس قومی دن کو شایان شان طور پر مناکر زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں۔

جنرل ضیاء الحق شہید کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور کسی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ شروع کرائے گئے جشن آزادی کے جوش و خروش میں رخنہ اندازی کرسکے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے اس اقدام سے یکم اگست سے ہی عوامی سطح پر جشن آزادی منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، سرکاری سطح پر بھی جشن آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور بچے بچے کو پتہ ہوتا ہے کہ 14 اگست کو پاکستان وجود میں آیا تھا۔

پی ٹی آئی کے عمران خان کو بھی پتہ ہے کہ 14 اگست ہمارا قومی دن اور یوم آزادی ہے جس کو منانے کا ہر سیاسی پارٹی کو حق ہے مگر اس قومی دن کو عمران خان نے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے لانگ مارچ کا دن بنا دیا اور بعد میں لانگ مارچ کو آزادی مارچ کا نام دے دیا۔ جسے ناکام بنانے کے لیے حکومت نے بھی جشن آزادی کی تقریب کا سرکاری اعلان کردیا جس میں شرکت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔

سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ قومی جماعتوں میں صرف جے یو آئی (ف) ہی نظر آتی ہے، تحریک انصاف کے ساتھ صرف جماعت اسلامی ہے (ق) لیگ اور عوامی تحریک الگ کھڑی ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ متحدہ اور اے این پی اتحادی ہیں اور عمران خان کی وجہ سے ہی وزیراعظم نواز شریف سابق صدر آصف علی زرداری کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش میں ہیں مگر اب سابق صدر زرداری نے بھی کھل کر نواز شریف پر تنقید شروع کردی ہے اور پہلی بار کہا ہے کہ عوام نے نواز شریف کو وزیراعظم بنایا ہے، بادشاہ نہیں، وفاقی حکومت صوبوں میں مداخلت کر رہی ہے اور سابق صدر کے تیور بھی اب ظاہر ہوگئے ہیں۔

حکمران اپنی مسلم لیگ (ن) کو تو بھول ہی چکے ہیں کہ وہ ملک میں کس حال میں ہے، سندھ میں پی پی مسلم لیگ (ن) کے لوگ توڑتی آرہی ہے اور اس کی قیادت کو اپنے ناراض لیگی رہنمائوں کی کوئی فکر نہیں ہے اور سندھ میں میدان مسلم لیگ ن نے مجبوری میں پیپلزپارٹی کے لیے خالی چھوڑ رکھا ہے۔

اب صرف پنجاب ہی میں مسلم لیگ ن کچھ منظر پر نظر آرہی ہے جب کہ پی ٹی آئی چھا رہی ہے، تحریک انصاف پنجاب میں ن لیگ کی حقیقی اپوزیشن ہے جو فیصل آباد، سیالکوٹ، بھاولپور کے بعد اب 14 اگست کو اسلام آباد میں حکومت کو اپنی طاقت دکھانا چاہتی ہے۔ عمران خان وزیراعظم بننے کے لیے بے چین ہیں اور ن لیگ کی وفاقی حکومت کو انھوں نے ایک سال بمشکل برداشت کیا ہے، انھیں اپنی ہار ہضم نہیں ہوئی، ن لیگ نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کے مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس سلسلے میں آصف زرداری بھی عمران خان کے مطالبے کے حامی بن گئے ہیں۔

عوام بھی مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے باعث حکومت سے بیزار اور مایوس ہوچکے ہیں اور عوام کا یہ لاوا 14 اگست کا منتظر ہے۔ اسلام آباد میں حکومت ہی عمران خان کی وجہ سے پریشان ہے جس پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی حکومت اور عمران خان کے اعلان کا نتیجہ 14 اگست کو تصادم کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ جس کے بعد کیا ہوگا ہر کوئی جانتا ہے، مولانا فضل الرحمن کے یہ کہنے سے کچھ نہیں ہوگا کہ عمران خان یہودیوں کا اور میں مسلمانوں کا نمائندہ ہوں، صورت حال پیپلز پارٹی کے حق میں ہموار ہو رہی ہے۔ کچھ سیاستدان جلتی پر تیل چھڑکنے کو تیار بیٹھے ہیں، ملک میں قائم نام نہاد جمہوریت سے عوام بیزار ہوچکے ہیں، خطرہ تھا کہ اگر جشن آزادی پر تصادم ہوتا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ 14اگست کا یوم آزادی موجودہ نام نہاد جمہوریت ہی کو آزادی سے محروم نہ کردے؟

حکومت نے کسی قسم کے تصادم سے بچنے کے لیے نہایت دانشمندانہ راستہ اختیار کیا جس کے مطابق چودہ اگست کو یوم آزادی کی تقریبات صبح دس بجے تک ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے ۔ جشن آزادی کے موقع پر اب اسلام آباد میں پریڈ نہیں بلکہ کیبنٹ بلاک اور ایوان صدر کے درمیان سبزہ زار میں پرچم کشائی کی تقریب ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔