ساری دولت سارے لوگوں کی
کیا دنیا کے تمام وسائل (آبی، جنگلات، معدنیات اور صنعت) تمام لوگوں کی اجتماعی ملکیت ہو سکتے ہیں؟
کیا دنیا کے تمام وسائل (آبی، جنگلات، معدنیات اور صنعت) تمام لوگوں کی اجتماعی ملکیت ہو سکتے ہیں؟ جی ہاں، پہلے ایسا ہی تھا، جب ریاست کا وجود تھا اور نہ میرا تیرا۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں، امریکا کی دریافت سے قبل وہاں کے لوگ ہفتے میں دو تین روز کام کرتے تھے اور کام کیا، درخت سے پھل توڑنا اور پانی سے مچھلی پکڑنا۔
اب اسی جنوبی امریکا میں 45 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور شمالی امریکا کے میکسیکو میں بھی یہی حال ہے جب کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 3 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں اور 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پر پلتے ہیں۔ آج بھی کروڑوں لوگ جو جنگلوں میں بستے ہیں، یہاں ریاست کا کوئی تصور نہیں ہے، مل کر شکار کرتے ہیں اور مل کر بانٹ لیتے ہیں۔
فرض کریں کہ کسی کے 3 بچے ہیں اور ایک بچہ روز 700 روپے کماتا ہے، دوسرا 500 اور تیسرا 300 روپے کماتا ہے، پھر وہ سارے پیسے ماں کے حوالے کرتے ہیں۔ تو کیا ماں کھانے کے وقت 700 روپے کمانے والے کو زیادہ کھانا دیتی ہے؟ قطعی نہیں۔ اسی طرح سماج یا دھرتی یا معاشرہ یا خطہ یا مادر عالم جو اناج اگلتی ہے، دریا اور سمندر جو مچھلیاں پالتی ہیں، کیا وہ صرف چند سپوتوں کے لیے؟ نہیں بلکہ سب کے لیے۔ آج سائنس اتنی ترقی کرگئی ہے کہ دنیا کے لوگوں کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ایک گھنٹہ کام کرنا کافی ہے۔ آج ہم آزادی کے نام پر آزاد نہیں بلکہ قید ہیں۔
ارسطو نے کہا تھا کہ 'انسان کو انسان بننے کے لیے سب سے پہلے آزادانہ طور پر سوچنا اور محسوس کرنا ہے۔' پرودھون کہتا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد باپ بادشاہ، ماں وزیر اور بچے رعایا بن جاتے ہیں، اور یہیں سے طبقات جنم لیتے ہیں، محنت کش طبقہ وسائل کا مالک ہوگا تو وہ آزاد ہوجائے گا، اور محنت کشوںکی آزادی کا مطلب ہے ریاست کا خاتمہ'۔ کارلوکیفیرو (1846 سے 1892) سے یہ سوال کرنے پر کہ کیا کمیونزم کا نفاذ حقیقت پسندانہ ہے اور اس نظام میں سب کو ضرورت کے مطابق اشیائے خورونوش فراہم کی جاسکتی ہیں؟ تو کارلوکیفیرو نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'جی ہاں! دنیا میں اس وقت اتنی پیداوار ہوگی کہ سب کو ان کی مرضی، خواہش اور لامحدود پیمانے پر ہر چیز فراہم کی جاسکتی ہے'۔
اور آج 2014 میں دنیا میں اتنی پیداوار ہو رہی ہے کہ 7 ارب تو درکنار 10 ارب انسان کو کھلا کر بھی بچ جائے گی۔ باکونن کہتا ہے کہ 'اگر آپ منافع لینا بند کردیں گے تو اجناس کی قیمتوں کے مقررہ طریقہ کار بھی ختم ہوجائیں گے۔ پھر کسی کو پیسوں سے کوئی چیز خریدنی پڑے گی اور نہ اجرت کی ادائیگی سکوں کی شکل میں کرنی پڑے گی، پھر پیداواری اجناس اور اشیاء آپس میں تبادلے کیے جائیں گے، ان کی قدریں قیمت پر نہیں پیداواری محنت پر متعین ہوگی اور جب تبادلے سے سماج کی ضروریات پوری ہونے لگیں گی تو قیمت اور اجرت کا نظام ختم ہوجائے گا'۔
ایماگولڈمان کہتی ہیں کہ 'استحصال کرنے والے طبقات کی شادیاں تمام تر خوشیاں بٹورنے اور عیش و عشرت کے لیے ہوتی ہیں جب کہ محنت کش طبقے کی شادیاں زندگی کو جھیلنے، بچوں کو پالنے، ساری زندگی بیوی کو غلام بنائے رکھنے اور مستقبل میں ایک گھر بنانے کی کوششوں اور کمانے کی تگ و دو میں زندگی گزر جاتی ہے، یعنی ایک جانب زندگی کی لطف اندوزی تو دوسری طرف زندگی ایک وبال'۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں کا استحصال ہوتا ہے اور یہ استحصال طبقاتی ہے۔ جس طرح سرمایہ دار مزدوروں کا، جاگیردار کسانوں کا استحصال کرتا ہے اسی طرح مرد عورتوں کا۔ عورتیں تو دہرے استحصال کا شکار ہیں، ایک تو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جانب سے یعنی جس زمین پر یا جن کارخانوں میں کام کرتی ہیں، پھر اس طبقاتی سماج کی جانب سے اور پھر باپ، شوہر، بھائی اور دیگر رشتے داروں کی جانب سے۔ پاکستان ان چار ملکوں میں سے ایک ہے جہاں خواتین پر سب سے زیادہ جبر ہوتا ہے۔
پاکستان کے علاوہ افغانستان، ہندوستان اور ایتھوپیا۔ ہیومن را ئٹس 'لنک' مددگار کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2013 میں 1164 خواتین قتل ہوئیں، 370 کا ریپ کیا گیا، 217 کو ریپ کرکے قتل کردیا گیا، 185 کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، 1246 پر تشدد کیا گیا، 220 کاروکاری کے شبے میں قتل ہوئیں، 193 کو جلا کر مارا گیا، 608 کو اغوا کیا گیا، 887 پر پولیس نے تشدد کیا، 452 خواتین نے خودکشی کی، 89 کے ساتھ حدود زنا کیا گیا، 205 کو جھانسے سے ملک سے باہر لے جایا گیا، 284 کی جبراً شادی کرائی گئی، 220 نے مجبوراً گھر چھوڑا اور 176 کو ونی میں جبری شادی کرائی گئی، یعنی کل 6516 خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں۔
زچگی کے دوران ایک لاکھ میں 500 مائیں لقمہ اجل ہوجاتی ہیں۔ 28 مئی کو ایک لڑکی فرزانہ جو اپنے گرفتار شوہر کی ضمانت کرانے عدالت آئی۔ عدالت کے سامنے اس لڑکی کے والد، بھائی، چچا اور دیگر رشتے داروں نے پتھر مار مار کے حوا کی بیٹی کو جان سے مار ڈالا۔ کچھ عرصہ قبل ڈیرہ غازی خان میں ایک 12 ویں جماعت میں زیر تعلیم لڑکی کو اغوا کیا گیا اور اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے کے بعد خودکشی کا ڈھونگ رچانے کے لیے اسے درخت کی شاخ پر لٹکا دیا گیا۔ ابھی حال ہی میں سائرہ نامی ملتان کی ایک بچی کے اغوا پر جب اس کا باپ اور خالہ تھانے میں رپورٹ کرانے گئے تو پولیس نے رپورٹ درج کرنے کے بجائے لڑکی کے باپ اور خالہ پر اتنا تشدد کیا کہ دونوں کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔
کئی بار ایسا ہوا کہ جاگیرداروں اور ان کے اہلکاروں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ کسانوں کے بیٹوں سے تعلق ہونے کے شبہے میں ان لڑکوں کی ماں بہنوں کو برہنہ کرکے سڑکوں پہ گھمایا۔ کاروکاری کے واقعات میں زیادہ تر عورتیں ہی قتل ہوتی ہیں۔ چار، پانچ اور چھ سال کی بچیوں کی ونی میں بوڑھوں سے شادی کردی جاتی ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ برس تین لڑکیوں کو شبہے کی بنیاد پر زندہ درگور کردیا گیا۔ پختونخوا میں صرف تالی بجانے پر 3 لڑکیاں مار دی گئیں۔ پسند کی شادی کرنے پر بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اکثر قتل کردیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان اندوہناک واقعات کے خلاف علمائے سو اور سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی ہیں اور نہ ہڑتال۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس لیے کہ ہمارے طبقاتی معاشرے میں خواتین کو بھی جنس کے طور پر گردانا جاتا ہے، جس طرح بازار میں دال، چاول فروخت ہوتے ہیں اسی طرح بچیاں بھی فروخت ہوتی ہیں۔ یہ ظلم و ستم طبقاتی نظام کے ساتھ پیوستہ ہے۔ بے شمار ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں کہ کمسن بچیاں جو کہ گھریلو کام کرتی ہیں، انھیں تشدد کرکے قتل کردیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ساری برائیاں ریاست کی پیداوار ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ طبقاتی نظام کی اس ریاست کے جبر کے خلاف لڑا جائے اور اس کا واحد حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج ہے، جہاں دنیا بھر کی ساری دولت کے مالک سارے ہوں۔ جب ریاست اور ان کے ماتحت اداروں کا وجود نہیں ہوگا تو محنت کش آزاد ہوں گے اور خواتین بھی۔ جہاں ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔