
اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کیس کی سماعت کرتے ہوئے دیگر درخواست گزاروں کو درخواستوں کی نقول پی ٹی آئی کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشنز کیس کی سماعت ہوئی جس کہ ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، اکبر ایس بابر اورنوید انجم کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
ممبر کے پی نے اکبر ایس بابر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بھی انٹرا پارٹی الیکشن کروایا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروایا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فائنل آرڈر کرنے سے روکا ہے۔
ممبر کے پی نے کہا کہ ہمارے پاس یہ اختیار نہیں کہ ہم آپ کو دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا کہیں، کمیشن نے دیگر درخواست گزاروں کو درخواستوں کی نقول پی ٹی آئی کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف پانچ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اب پانچ سال تک دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی ہدایت نہیں کرسکتا۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ ہم ان جھوٹی کہانیوں کا جواب دے دیں گے۔ ممبر کے پی اور بیرسٹر گوہر کے درمیان پشتو میں مکالمہ ہوا اس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمیں بھی سمجھا دیں کیا بات ہوئی ہے۔
اکبر ایس بابر کے دلائل
سماعت کے دوران درخواست گزار اکبر ایس بابر نے دلائل دیے اور کہا کہ پارٹی جنرل کونسل کی عدم موجودگی میں انٹرا پارٹی انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں، تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں چنانچہ پی ٹی آئی کے فنڈز منجمد کیے جائیں، قانون کے مطابق دو انٹرا پارٹی انتخابات کے درمیان پانچ سال کا وقفہ ہونا چاہیے۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ مجھے انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، میں الیکشن کمیشن، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت تاحال پی ٹی آئی کا رکن ہوں، پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتوں کی قیادت بلا مقابلہ منتخب ہوتی ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات ملک اور پارٹی آئین کے خلاف ہوئے، انتخابات میں صرف 0.1 فیصد ارکان نے ووٹ ڈالا۔
پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار چیلنج کر رکھا ہے، پارٹی اور ارکان کے تنازع کے معاملے پر الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار نہیں ہے، چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرری کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج ہے، اپوزیشن لیڈرز عمر ایوب اور شبلی فراز نے یہ معاملہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، چیف الیکشن کمشنر اور دوممبران کی مدت پوری ہوچکی ہے۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر تاخیر سے متعلق الزام کی کوئی خبر میری نظر سے نہیں گزری۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کے ابتدائی اعتراضات کو حکم نامے میں شامل کیا جائے گا، آپ کے اعتراضات مسترد کرنے کا بھی حکم نامے کا حصہ ہو گا۔
ممبر کے پی کے نے کہا کہ جن آزاد ارکان نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی انہیں پی ٹی آئی ارکان نہیں کہا جاسکتا۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں جانے والے ارکان کی پی ٹی آئی بنیادی رکنیت منسوخ کی جائے، ایک شخص ایک وقت میں دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا، نومبر 2024 میں سلمان اکرم راجہ کو بھی سیکرٹری جنرل مقرر کرنا غیر آئینی تھا، غیر آئینی سیکرٹری جنرل نے فنانس سیکرٹری سمیت دیگر عہدیدار مقرر کیے، پی ٹی آئی کے غیر آئینی عہدیداروں کے ہاتھ میں پارٹی فنڈز نہیں دئیے جا سکتے۔
ممبر کے پی نے پوچھا کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں جا کر چئیرمین پی ٹی آئی کیسے بن گئے، اگر الیکشن کمیشن ہمیں ایک سال کا وقت دے تو ہم شفاف انتخابات کروا سکتے ہیں، دوسرا آپشن صرف یہ ہے کہ پارٹی پر پابندی لگا دی جائے، پارٹی میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔
سندھ کے ممبر نے کہا کہ آپ صرف قانونی نکات پر بات کریں۔
پی ٹی آئی وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے، ہم نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کیا پھر انٹرا پارٹی انتخاب کروائے۔
ممبر کے پی جسٹس ر اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا آئین کہتا ہے چار سال بعد الیکشن ہوں، الیکشن نہیں ہوئے چار سال کے بعد پی ٹی آئی کی باڈی تحلیل ہو گئی۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ نے ہمیں کہا 23 نومبر کو کہ الیکشن کرائیں ہم نے کرائے مگر آپ نہیں مانے۔ ممبر کے پی نے کہا کہ آپ پہلے کا نہ بتائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہم نے کب کہا کہ الیکشن کرائیں؟
بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ آپ نے کہا تھا دستاویزات موجود ہیں میں پڑھ کر سناتا ہوں۔ ممبر کے پی نے کہا کہ آپ کا آئین کہتا ہے چار سال میں کرانے ہیں۔
اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ تو اگر ہم نے پانچ سال میں نہیں کرائے تو کیا جماعت ختم ہوگئی؟ اگر آپ نے فیصلہ پہلے کرلیا ہے تو ہم چلے جاتے ہیں۔
ممبر کے پی نے کہا کہ آپ کا آئین کہتا ہے کہ بروقت انتخابات کرانے ہیں اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ آئین تو نوے روز میں الیکشن کا بھی کہتا ہے جو نہ ہوئے اس پر کمرہ عدالت میں قہقے لگ گئے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اس میں بہت سے چیزیں تھیں حلقہ بندیوں ہونا تھیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جی مجھے علم ہے اس کا اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ تو پھر آپ یہ نہ کہتے کہ نوے روز میں انتخابات کیوں نہ ہوئے۔
دوران سماعت دوسرے درخواست گزار مزمل سندھو نے بیان دیا اور کہا کہ مجھے انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نامزدگی فارم جاری نہیں کیے گئے، رؤف حسن نے مجھے کہا کہ آپ نے گزشتہ انتخابات کو چیلنج کیا تھا اس لیے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
دیگر درخواست گزاروں نے بھی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ آپ نے نامزدگی فارم مانگے؟ تو درخواست گزار نے کہا نہیں۔
وکیل پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے جوابی دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپریل 2024ء میں انتخابات پر جو سوال نامہ بھجوایا اسی تک محدود رہنا چاہیے، یہ بات قانونی طور پر درست نہیں کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے پانچ سال مکمل ہونے پر تنظیمی ڈھانچہ ختم ہو گیا۔
وکیل پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپریل 2024ء پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور مکمل طور پر فعال جماعت ہے، جنرل باڈی کی قرارداد کی روشنی میں مارچ 2024 میں انتخابات کروائے گئے، جنرل باڈی اجلاس الیکشن کمیشن کے سابق احکامات کی روشنی میں کروایا گیا، جب عہدیدار یا تنظیمیں موجود نہیں تھیں تو جنرل باڈی کے بغیر انتخابات کیسے کرواتے؟ الیکشن کمیشن کے کہنے پر ہی ہم نے انتخابات کروائے۔
ممبر کے پی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کب کہا کہ آپ انٹرا پارٹی انتخابات دوبارہ کروائیں؟ ایک انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کر دیا تو اس کے پانچ سال کے اندر دوبارہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ جنوری 2024ء میں جنرل باڈی اجلاس میں چیف آرگنائزر اور فیڈرل الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا، مارچ 2024 میں الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا گیا، الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض عائد نہیں کیا، پارٹی جنرل باڈی میں تمام ارکان شامل ہوتے ہیں، فیڈرل الیکشن کمشنر اور چیف آرگنائزر کا تقرر آئینی تھا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم نے تو نہیں کہا کہ پارٹی ختم ہو گئی ہے۔ اس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر پارٹی ختم نہیں ہوئی تو کیا ہمیں انٹرا پارٹی انتخابات لازمی کروانے ہیں؟
ممبر بلوچستان نے کہا کہہ کیا آپ کے آئین میں یہ لکھا ہے کہ جنرل باڈی، انٹرا پارٹی انتخابات کروا سکتی ہے؟ وکیل پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آئین ملک کا ہو یا پارٹی کا اس میں سب کچھ نہیں لکھا ہوتا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ جس پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس لے کر گئی۔
وکیل پی ٹی آئی کی جانب سے جنرل باڈی کے اختیار کو جائز قرار دینے کیلئے برطانوی اور بھارتی عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے گئے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ چیز سمجھ سے باہر ہے کہ ایک سیاسی جماعت موجود ہے مگر وہ کام نہیں کر سکتی، جن لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا وہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہی تھے، میرے علم کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس کسی سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی کو بے ضابطگی کی بنیاد پر ریگولیٹ کرنے کا اختیار نہیں۔
وکیل پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کچھ لوگ یہاں آئے کہ ہمیں الیکشنز نہیں لڑنے دیا گیا، ہم تو کہتے ہیں وہ تو فارمز لینے آئے ہی نہیں، انکی جانب سے نہیں بتایا گیا یہ کس پوسٹ کے لیے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ نے سیٹل کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ارکان نے کنفیوژن کے باعث سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا، 5 افراد کے کہنے پر پورا الیکشن تو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، درخواست گزار نوید انجم نے دو احکامات چیلنج کیے ہیں، انہوں نے الیکشن کو چیلنج کیا نہ ہی کوئی ریمیڈی ہے، کاغذات نامزدگی، ووٹر لسٹ سے متعلق آپ کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی کیس کے دلائل مکمل ہوگئے۔ وکیل پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے استدعا کی کہ ہائی کورٹ سے فیصلہ آنے پر ایک سماعت مزید کی جائے اس پر الیکشن کمیشن نے عزیر بھنڈاری کی استدعا منظور کرلی۔ بعدازاں تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو درخواست گزاروں کی درخواستوں پر جواب جمع کروانے کی بھی ہدایت کی۔
ہم نہیں چاہتے پی ٹی آئی ڈی لسٹ ہو مگر یہ غلط ہاتھوں میں ہے، اکبر ایس بابر
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی کے عہدے دار خود ساختہ ہیں، پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کا غیر قانونی استعمال ہورہا ہے، ہم نے الیکشن کمیشن سے پی ٹی آئی اکاؤنٹس منجمد کرنے کی استدعا کی، غیرقانونی جنرل باڈی کے تحت انٹراپارٹی الیکشن ہوئے، ہم نہیں چاہتے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگے، پی ٹی آئی انٹرپارٹی الیکشن میں قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے، پی ٹی آئی پر نااہل لوگوں کا قبضہ ہے۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں، غیر قانونی جنرل باڈی کے ذریعے الیکشن کرائے، ہم نہیں چاہتے کہ پی ٹی آئی ڈی لسٹ ہو مگر یہ غلط لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔