دہشت گرد کون
ایک گروپ "Breaking The Silence" نے دس برس کی محنت کے بعد فلسطینی علاقوں میں تعینات رہنے والے اسرائیلی
ایک گروپ "Breaking The Silence" نے دس برس کی محنت کے بعد فلسطینی علاقوں میں تعینات رہنے والے اسرائیلی فوجیوں کے اعتراضات کو پیش کیا ہے۔ اس گروپ نے گزشتہ دس سال کی محنت سے ساڑھے نو سو اعتراف ناموں کو جمع کیا جس میں اسرائیلی فوجیوں کی تاریخ اور تنازعے و قبضے پر ناقدانہ تجزیہ بھی شامل ہے۔ تل ابیب کے باہیما اسکوائر میں اس گروپ نے ان اعتراضات کو پیش کیا۔ اس رپورٹ میں فلسطینیوں کے ساتھ چیک پوسٹوں پر کیے جانے والے تذلیل آمیز رویے، فائرنگ، اور حملوں کے سیکڑوں واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔
اس گروپ کے بانیوں میں ایک یہودہ شاول نے بتایا کہ ہم اپنی دس سال کی محنت کو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ یہ عام نہیں بلکہ غیر معمولی کام ہے۔ اس اجلاس کے دوران ایک شخص ہاتھ سے لکھے سائن بورڈ دکھانے لگا جس میں اس گروپ کو غدار قرار دیا گیا تھا جس پر یہودہ لڑکی شاول نے کہا میں فوج کے ساتھ ہوں اس کے مخالف نہیں بلکہ میں قبضے کی مخالفت کرتی ہوں۔
نامعلوم سارجنٹ نے جو غزہ کی پٹی میں 2009 کے آپریشن "Cast Lead" میں موجود تھا اس نے بتایا کہ ہمیں کہا گیا کہ معلوم نہیں کب تک یہاں رہنا ہے اس لیے علاقے کو جس حد تک ہو سکے تباہ کردیا جائے، اس کی دو وجوہات بتائی گئیں۔ ایک آپریشنل کہ گھروں میں مشتبہ افراد اور دھماکا خیز مواد، بارودی سرنگیں اور ہر قسم کے تار چھپا کر رکھے جاتے ہیں اس لیے گھروں کو تباہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی کہا گیا کہ گھر چاہے مشتبہ ہو یا نہ ہو اسے ہر صورت تباہ کرنا ہے۔
سارجنٹ طلال ویسر جو 2006 سے 2009 تک نابلس میں تعینات رہا، بتاتا ہے کہ آٹھ گھنٹے تک روڈ بلاک پر کھڑا رہنا ہر ایک کو کبھی ختم نہ ہونے والے تناؤ کا شکار بنا دیتا ہے۔ ہر شخص مسلسل چیختا اور نروس رہتا ہے اور جیسے ہی کوئی فلسطینی راستے پر نظر آتا اور دیر تک روکے جانے پر احتجاج کرتا تو جو چیز سب سے پہلے کی جاتی وہ اسے جورا (ایک چھوٹی جیل) میں کسی کپڑے کی طرح پھینک دینا تھا۔ یہ اس کی ہمارے کام میں مداخلت کی سب سے چھوٹی سزا تھی۔
اس جگہ کام کرنے کا اتنا دباؤ ہوتا تھا کہ ہم فلسطینیوں کو بند کرکے بھول جاتے تھے اور ایسا کئی روز تک ہوتا تھا مگر کئی بار صرف چند گھنٹوں کے بعد ہی کسی کو اچانک یاد آتا کہ ایک شخص اندر قید ہے جسے باہر لایا جاتا اور پھر اس کی چیکنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔
ایک اور نامعلوم سارجنٹ نے 2014 میں نابلس میں تعیناتی کے دوران کے واقعات بتاتے ہوئے کہا غصہ اور ردعمل اس گاؤں میں ہمیشہ چلنے والا سلسلہ ہے۔ ایک دم اچانک شور ہوتا، پتھر اٹھائے جاتے اور ہم پر برسا دیے جاتے اور پھر آپ انھیں گرفتار کرتے اور کہتے وہ پتھر مار رہے تھے۔
گاڑیاں گاؤں کے اندر تو چل سکتیں مگر بیریئرز لگا کر ان کو باہر جانے سے روک دیا جاتا۔ یہ بیریئرز فوج نے دہشت گردوں کو روکنے کے لیے لگائے تھے۔ اور یہ ایریا بی کی بات ہے جو فلسطینی سول کنٹرول کے اندر ہے مگر فوج روز وہاں جاتی اور کسی بھی فلسطینی کو مشتبہ پکڑ کر لے آتی چاہے وہ کوئی بچہ ہی ہو۔
سارجنٹ انویرگویراپو نے 2009 سے 2007 کی تعیناتی کے دوران کے واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا یہ اس وقت کی بات ہے جب میں وہاں تعینات تھا اور سارجنٹ تھا اور تربیت ختم ہوئی تھی تو اس وقت ہمیں ترقی کا جو پیمانہ بتایا گیا وہ کافی خوفناک تھا۔ کئی بار تو مجھے لگتا کہ اگر کسی کو کامیاب ہونا ہے تو لاشیں ہمارے کمانڈر کے پاس لے جائے کیونکہ گرفتاریوں کے وقت کمانڈر کہتا تھا کہ گرفتاریوں میں برسوں ضایع ہوچکے ہیں اب میرے پاس صرف مردہ دہشت گرد آنے چاہئیں۔ تو بس ہم رات مختلف علاقوں میں چھاپے مارتے فائرنگ کرتے اور ایسا ماحول پیدا کرتے جیسے ہم پر فائرنگ ہو رہی ہے اور ہر طرح کے افراد کو گرفتار کر لیتے یہ ایسی صورت حال تھی جس میں آپ دوربین سے دیکھتے رہتے ہیں تاکہ کسی کے نظر آنے پر اسے قتل کرسکیں کیونکہ یہی ہمارا کام قرار دیا گیا تھا۔
نامعلوم سارجنٹ کیفربرج طول کریم 2008 وہاں ایسی چیک پوسٹیں تھیں جو تین حصوں میں تقسیم تھیں یعنی ایک یہودی بستی کے لیے چیک پوسٹ، پر اسرائیلی علاقے کی چیک پوسٹ جو درمیان میں تھی جب کہ وہاں ایک فلسطینی گاؤں بھی تھا جس کی وجہ سے چیک پوسٹ تین حصوں میں تقسیم کی گئی تھی۔ بریگیڈ کمانڈر کا حکم تھا یہودی افراد کو چیک پوسٹ پر دس منٹ تک انتظار کرنا ہوگا۔ ان کے لیے خصوصی لائن بنائی جاتی تھی۔ اس کے مقابلے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی عرب کو دیگر دو لائن میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
گل لیل 2001 تا 2003 کی تعیناتی کے دوران جو ہیبرون میں تھی بتاتی ہیں کہ:
ہیبرون میں میرے پہلے اور دوسرے روز کمانڈر نے مجھے کباش اور یہودی بستی میں پیدل گشت کا کہا مجھے یہ دلچسپ لگا اور تیار ہوگئی۔ مگر پہلے ہی روز مجھے یہ کام بہت برا لگا کیونکہ میرے کمانڈر نے راستے میں ایک بزرگ فلسطینی شخص کو خوامخوا پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ میں نے حیرت سے دیگر افراد سے پوچھا:
اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہو رہا ہے تو جواب ملا کہ ایسا کچھ نہیں مگر یہ سب کچھ ٹھیک ہے جس پر میں نے اپنے کمانڈر سے بات کی تو اس نے کہا ہل چپ رہو۔ اور کئی سارجنٹس سے اپنی گفتگو کے دوران اعتراف کیا کہ
''ہمارا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ ہم فلسطینیوں کو کم کریں۔ راتوں کو ہم تاک میں رہتے اور جو چھت پر ٹہلنے آتا اسے مارگراتے اور اسے دہشت گرد قرار دیتے جب کہ وہ بے چارہ غیر مسلح ہوتا تھا اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر کیوں آیا۔''
اعتراضات کی ایک طویل فہرست اور بے شمار کہانیاں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف فلسطین پر قبضہ اور وہاں رہنے والوں کا خاتمہ ہے۔ جہاں جہاں آپ انصاف اور قانون دیکھتے ہیں امریکا ہی کو لے لیجیے جہاں ایک شخص کے قتل پر کیا کیا مقدمات اور تفتیش کا سلسلہ ہے وہاں فلسطینیوں کے لیے انصاف کا ایک جملہ ہے ''دہشت گرد ہے''۔
حیرت ہے ایک شخص خود اپنی زمین اور اپنے گھر میں موجود ہونے پر دہشت گرد ہے اور جو دنیا بھر سے فلسطین آکر ان قدیم باشندوں کی زمینوں پر قابض ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں وہ کون ہیں؟ راستوں میں فلسطینی خواتین اور بچوں کو اٹھا لیا اور ان کا لاپتا ہوجانا اب ایک عام بات ہے اور اللہ کے سوا اب ان کا مددگار اور حامی کوئی نہیں ہے کیونکہ جنھوں نے ان کی حمایت کرنی چاہی مدد کرنی چاہی وہ تو اونچی اونچی عمارات کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔
لوگوں کا ذہن ترقی کی طرف مائل کردیا گیا ہے اور ترقی صرف اونچی عمارات میں ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ لوگ قیامت سے پہلے اونچی اونچی عمارات تعمیر کریں گے فلسطینی اب عربوں کے لیے شاید ایک ''شودر'' قوم ہے جس کی وجہ سے عربوں کی ترقی رکی ہوئی ہے ۔ غزہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری رہا اور سیکڑوں فلسطینی بوڑھے، بچے، عورتیں، جوان عالمی دہشت گردی کا شکار ہوگئے۔
اسرائیل حماس سے اپنی شکست کو بھولا نہیں ہے اور وہ دنیا بھر کی مہذب دہشت گرد اقوام کی مدد سے فضائی اور زمینی حملوں کے ذریعے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنا رہا ہے اور بالواسطہ اسے اس میں عرب ریاستوں کا تعاون خصوصاً مصر کا حاصل ہے جو آسمان کی طرف توسیع کر رہی ہیں اور سمندروں میں تعمیرات، عیاشی اور آرام پسندی کے نئے مسکن تعمیر ہونا ہی ان کی نظر میں شاید ترویج اسلام اور دین کی خدمت ہے۔ ایشیا کے مسلمان مغموم ہیں۔ مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ یہاں بھی ان کے ساتھ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت براہ راست یا بالواسطہ ایسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے اور اسی عیش پرستانہ نظام کے فرستادے خاموش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن طیاروں سے فلسطینیوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے ان کا ایندھن کہاں سے آتا ہے؟
اس گروپ کے بانیوں میں ایک یہودہ شاول نے بتایا کہ ہم اپنی دس سال کی محنت کو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ یہ عام نہیں بلکہ غیر معمولی کام ہے۔ اس اجلاس کے دوران ایک شخص ہاتھ سے لکھے سائن بورڈ دکھانے لگا جس میں اس گروپ کو غدار قرار دیا گیا تھا جس پر یہودہ لڑکی شاول نے کہا میں فوج کے ساتھ ہوں اس کے مخالف نہیں بلکہ میں قبضے کی مخالفت کرتی ہوں۔
نامعلوم سارجنٹ نے جو غزہ کی پٹی میں 2009 کے آپریشن "Cast Lead" میں موجود تھا اس نے بتایا کہ ہمیں کہا گیا کہ معلوم نہیں کب تک یہاں رہنا ہے اس لیے علاقے کو جس حد تک ہو سکے تباہ کردیا جائے، اس کی دو وجوہات بتائی گئیں۔ ایک آپریشنل کہ گھروں میں مشتبہ افراد اور دھماکا خیز مواد، بارودی سرنگیں اور ہر قسم کے تار چھپا کر رکھے جاتے ہیں اس لیے گھروں کو تباہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی کہا گیا کہ گھر چاہے مشتبہ ہو یا نہ ہو اسے ہر صورت تباہ کرنا ہے۔
سارجنٹ طلال ویسر جو 2006 سے 2009 تک نابلس میں تعینات رہا، بتاتا ہے کہ آٹھ گھنٹے تک روڈ بلاک پر کھڑا رہنا ہر ایک کو کبھی ختم نہ ہونے والے تناؤ کا شکار بنا دیتا ہے۔ ہر شخص مسلسل چیختا اور نروس رہتا ہے اور جیسے ہی کوئی فلسطینی راستے پر نظر آتا اور دیر تک روکے جانے پر احتجاج کرتا تو جو چیز سب سے پہلے کی جاتی وہ اسے جورا (ایک چھوٹی جیل) میں کسی کپڑے کی طرح پھینک دینا تھا۔ یہ اس کی ہمارے کام میں مداخلت کی سب سے چھوٹی سزا تھی۔
اس جگہ کام کرنے کا اتنا دباؤ ہوتا تھا کہ ہم فلسطینیوں کو بند کرکے بھول جاتے تھے اور ایسا کئی روز تک ہوتا تھا مگر کئی بار صرف چند گھنٹوں کے بعد ہی کسی کو اچانک یاد آتا کہ ایک شخص اندر قید ہے جسے باہر لایا جاتا اور پھر اس کی چیکنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔
ایک اور نامعلوم سارجنٹ نے 2014 میں نابلس میں تعیناتی کے دوران کے واقعات بتاتے ہوئے کہا غصہ اور ردعمل اس گاؤں میں ہمیشہ چلنے والا سلسلہ ہے۔ ایک دم اچانک شور ہوتا، پتھر اٹھائے جاتے اور ہم پر برسا دیے جاتے اور پھر آپ انھیں گرفتار کرتے اور کہتے وہ پتھر مار رہے تھے۔
گاڑیاں گاؤں کے اندر تو چل سکتیں مگر بیریئرز لگا کر ان کو باہر جانے سے روک دیا جاتا۔ یہ بیریئرز فوج نے دہشت گردوں کو روکنے کے لیے لگائے تھے۔ اور یہ ایریا بی کی بات ہے جو فلسطینی سول کنٹرول کے اندر ہے مگر فوج روز وہاں جاتی اور کسی بھی فلسطینی کو مشتبہ پکڑ کر لے آتی چاہے وہ کوئی بچہ ہی ہو۔
سارجنٹ انویرگویراپو نے 2009 سے 2007 کی تعیناتی کے دوران کے واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا یہ اس وقت کی بات ہے جب میں وہاں تعینات تھا اور سارجنٹ تھا اور تربیت ختم ہوئی تھی تو اس وقت ہمیں ترقی کا جو پیمانہ بتایا گیا وہ کافی خوفناک تھا۔ کئی بار تو مجھے لگتا کہ اگر کسی کو کامیاب ہونا ہے تو لاشیں ہمارے کمانڈر کے پاس لے جائے کیونکہ گرفتاریوں کے وقت کمانڈر کہتا تھا کہ گرفتاریوں میں برسوں ضایع ہوچکے ہیں اب میرے پاس صرف مردہ دہشت گرد آنے چاہئیں۔ تو بس ہم رات مختلف علاقوں میں چھاپے مارتے فائرنگ کرتے اور ایسا ماحول پیدا کرتے جیسے ہم پر فائرنگ ہو رہی ہے اور ہر طرح کے افراد کو گرفتار کر لیتے یہ ایسی صورت حال تھی جس میں آپ دوربین سے دیکھتے رہتے ہیں تاکہ کسی کے نظر آنے پر اسے قتل کرسکیں کیونکہ یہی ہمارا کام قرار دیا گیا تھا۔
نامعلوم سارجنٹ کیفربرج طول کریم 2008 وہاں ایسی چیک پوسٹیں تھیں جو تین حصوں میں تقسیم تھیں یعنی ایک یہودی بستی کے لیے چیک پوسٹ، پر اسرائیلی علاقے کی چیک پوسٹ جو درمیان میں تھی جب کہ وہاں ایک فلسطینی گاؤں بھی تھا جس کی وجہ سے چیک پوسٹ تین حصوں میں تقسیم کی گئی تھی۔ بریگیڈ کمانڈر کا حکم تھا یہودی افراد کو چیک پوسٹ پر دس منٹ تک انتظار کرنا ہوگا۔ ان کے لیے خصوصی لائن بنائی جاتی تھی۔ اس کے مقابلے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی عرب کو دیگر دو لائن میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
گل لیل 2001 تا 2003 کی تعیناتی کے دوران جو ہیبرون میں تھی بتاتی ہیں کہ:
ہیبرون میں میرے پہلے اور دوسرے روز کمانڈر نے مجھے کباش اور یہودی بستی میں پیدل گشت کا کہا مجھے یہ دلچسپ لگا اور تیار ہوگئی۔ مگر پہلے ہی روز مجھے یہ کام بہت برا لگا کیونکہ میرے کمانڈر نے راستے میں ایک بزرگ فلسطینی شخص کو خوامخوا پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ میں نے حیرت سے دیگر افراد سے پوچھا:
اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہو رہا ہے تو جواب ملا کہ ایسا کچھ نہیں مگر یہ سب کچھ ٹھیک ہے جس پر میں نے اپنے کمانڈر سے بات کی تو اس نے کہا ہل چپ رہو۔ اور کئی سارجنٹس سے اپنی گفتگو کے دوران اعتراف کیا کہ
''ہمارا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ ہم فلسطینیوں کو کم کریں۔ راتوں کو ہم تاک میں رہتے اور جو چھت پر ٹہلنے آتا اسے مارگراتے اور اسے دہشت گرد قرار دیتے جب کہ وہ بے چارہ غیر مسلح ہوتا تھا اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر کیوں آیا۔''
اعتراضات کی ایک طویل فہرست اور بے شمار کہانیاں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف فلسطین پر قبضہ اور وہاں رہنے والوں کا خاتمہ ہے۔ جہاں جہاں آپ انصاف اور قانون دیکھتے ہیں امریکا ہی کو لے لیجیے جہاں ایک شخص کے قتل پر کیا کیا مقدمات اور تفتیش کا سلسلہ ہے وہاں فلسطینیوں کے لیے انصاف کا ایک جملہ ہے ''دہشت گرد ہے''۔
حیرت ہے ایک شخص خود اپنی زمین اور اپنے گھر میں موجود ہونے پر دہشت گرد ہے اور جو دنیا بھر سے فلسطین آکر ان قدیم باشندوں کی زمینوں پر قابض ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں وہ کون ہیں؟ راستوں میں فلسطینی خواتین اور بچوں کو اٹھا لیا اور ان کا لاپتا ہوجانا اب ایک عام بات ہے اور اللہ کے سوا اب ان کا مددگار اور حامی کوئی نہیں ہے کیونکہ جنھوں نے ان کی حمایت کرنی چاہی مدد کرنی چاہی وہ تو اونچی اونچی عمارات کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔
لوگوں کا ذہن ترقی کی طرف مائل کردیا گیا ہے اور ترقی صرف اونچی عمارات میں ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ لوگ قیامت سے پہلے اونچی اونچی عمارات تعمیر کریں گے فلسطینی اب عربوں کے لیے شاید ایک ''شودر'' قوم ہے جس کی وجہ سے عربوں کی ترقی رکی ہوئی ہے ۔ غزہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری رہا اور سیکڑوں فلسطینی بوڑھے، بچے، عورتیں، جوان عالمی دہشت گردی کا شکار ہوگئے۔
اسرائیل حماس سے اپنی شکست کو بھولا نہیں ہے اور وہ دنیا بھر کی مہذب دہشت گرد اقوام کی مدد سے فضائی اور زمینی حملوں کے ذریعے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنا رہا ہے اور بالواسطہ اسے اس میں عرب ریاستوں کا تعاون خصوصاً مصر کا حاصل ہے جو آسمان کی طرف توسیع کر رہی ہیں اور سمندروں میں تعمیرات، عیاشی اور آرام پسندی کے نئے مسکن تعمیر ہونا ہی ان کی نظر میں شاید ترویج اسلام اور دین کی خدمت ہے۔ ایشیا کے مسلمان مغموم ہیں۔ مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ یہاں بھی ان کے ساتھ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت براہ راست یا بالواسطہ ایسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے اور اسی عیش پرستانہ نظام کے فرستادے خاموش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن طیاروں سے فلسطینیوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے ان کا ایندھن کہاں سے آتا ہے؟